خواتین کی ”بے بسی“ میں کمی کی ایک کوشش: ”گلابی بسیں“


ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری خوش فہمی ہو لیکن گزشتہ ماہ (فروری) سے سندھ حکومت نے شاید ہماری ہم سب میں مطبوعہ ایک تحریر ”ایندھنی سبیلیں اور فی سبیل اللہ سواریاں“ سے متاثر ہو کر عوام کے لیے ”ایندھنی سبیلوں اور فی سبیل اللہ سواریوں“ کا تو خیر کوئی بندوبست نہیں کیا تاہم انہوں نے عوام الناس کے لیے لال اور شاید ہماری ہی ایک ہم سب میں ہی مطبوعہ دوسری تحریر ”ایک خاتون کو وزارت عظمیٰ کی نشست دلانے والی قوم“ سے متاثر ہو کر خواتین کے لیے بھی الگ سے گلابی بس سروس شروع کر دی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں گلابی بسیں ابھی تجرباتی دور میں ہیں اور محدود تعداد اور مخصوص علاقوں میں ہی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان بسوں میں حضرات کے داخلہ پر پابندی ہوگی۔

ہم انہی صفحات پر کہ چکے ہیں کہ ہم خواتین اور حضرات کے برابری کے شدت سے حامی و قائل ہیں بل کہ ہم سے کسی کی بھی ”بے اختیاری“ اور ”بے بسی“ قطعی نہیں دیکھی جاتی اور ہم کسی سے بھی کسی قسم کہ امتیازی سلوک کے خلاف ہیں سوائے اس کے کہ وہ امتحانات میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوں یا انہیں نشان امتیاز پیش کیا جائے۔

یہاں ہم واضح کر دیں کہ خواتین ہی نہیں کتنے ہی معاملات میں حضرات بھی ”بے بس“ ہیں۔ یہاں تک کہ جغادری ادیب بھی:کہیں پڑھا ہے کہ دو ادیب جو کہ بڑے حضرت تھے بس میں سوار کہیں جا رہے تھے کہ ایک کی نظر بس سے باہر کھڑی ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی۔ انہوں نے لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ، ”لڑکی تو بڑی خوبصورت ہے۔“ دوست نے کہا، ”واقعی، لیکن“ بس ”میں نہیں ہے۔“

اگرچہ ہماری معلومات کے مطابق خواتین نے کبھی بھی اپنے لیے الگ بسوں کا مطالبہ نہیں کیا اور یہ قدم حکومت نے اپنے طور پر اٹھایا ہے، تاہم حیرت کی بات ہے کے کچھ روشن خیال خواتین و حضرات خواتین کی الگ بسوں پر معترض بھی دکھائی دیے کہ ان کے خیال میں الگ بسیں خواتین سے امتیازی سلوک کے زمرہ میں آتی ہیں۔ ہمارا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہے۔ اس کے برعکس ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت سندھ کا یہ اقدام حکومت کے بہت تھوڑے سے اہم مثبت اقدام میں سے ایک ہے۔ اور ہم ایسے ہر قدم کی حمایت کرتے ہیں جن سے کہ خواتین کو کسی بھی طرح سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ ہو یا رعایت ملے۔ نہ صرف ایران جیسے اسلامی اور ترکیہ جیسے مسلم ملک میں بلکہ جاپان جیسے ترقی یافتہ اور برازیل اور میکسیکو جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی خواتین کے لیے الگ سواریاں کامیابی سے چل رہی ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ وہ خواتین و حضرات جو خواتین سے امتیازی سلوک کے خدشے یا مفروضے کے تحت اس منصوبے کے مخالف ہیں وہ شاید ملک کی سماجی اور اخلاقی حالت سے ناواقف ہیں، اور وطن عزیز کی زمینی حقائق کو نظرانداز کر رہے ہیں یا پھر بہت زیادہ سادہ ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ پاکستان کی بسوں میں اس قسم کے واقعات نہیں سننے میں آئے جیسا کہ بھارت میں نربھئے اور دیگر خواتین کے ساتھ پیش آئے لیکن لگتا یوں ہے کہ بھارتیوں سے منفی اقدامات و اقدار کے سلسلے میں ہمارا کانٹے کا مقابلہ ہے۔ سو اگرچہ ہماری بسوں میں اس قسم کے واقعات نہیں پیش آئے تاہم ہماری سڑکیں جو قبل ازیں گاڑیوں کے تصادم اور حادثات سے کے باعث بدنام تھیں، اب ان سڑکوں پر خواتین کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو کہ بھارت میں نربھئے اور کچھ دیگر خواتین کے ساتھ کیا گیا۔ افسوس کہ اس قسم کی مثالوں سے امریکہ جیسا ملک بھی مبرا نہیں جہاں گزشتہ برس ٹرین ‏میں سواریوں کی موجودگی میں ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی گئی اور لوگ لڑکی کی مدد کرنے بجائے واقعے کی وڈیو بناتے رہے۔

سو یہ تو خوش فہمی ہوگی کہ ‏مغرب یا یورپی ممالک اس قسم کی مجرمانہ حرکات سے مستثنیٰ ہیں تاہم پھر بھی وہاں کسی قدر قانون کی پابندی اور اطلاق کے باعث ان کی سماجی اور اخلاقی حالات و عادات قابو سے باہر نہیں۔ وہاں کی صورتحال کو اس لطیفے سے بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ: ایک صاحب کسی قصبے میں گئے تو ایک بندوق بردار فارمر کو دیکھ کر پوچھا، ”یہاں کہ لوگ بدقماش تو نہیں؟“ بندوق بردار صاحب نے جواب دیا، ”قطعی نہیں یہ با اخلاق اور سنجیدہ لوگ ہیں،“ ۔ یہ سن کر مستفسر نے پوچھا، ”تو پھر آپ نے بندوق کیوں اٹھائی ہوئی ہے؟“ بندوق بردار نے باتبسم کہا، ”تاکہ یہ لوگ با اخلاق اور سنجیدہ بن کر رہیں۔ “

اس قسم کی مثالیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ خواتین کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس قسم کی اقدامات کی مخالفت کو ہم اسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسا کہ کچھ عرصے قبل کچھ حلقوں کی طرف سے سندھ حکومت ہی کی طرف سے تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم کے اجراء کی مخالفت کی گئی تھی۔

اگرچہ دنیا بھر میں خواتین کے اختیارات کا بڑا غلغلہ ہے لیکن حقیقت میں عام طور پر دنیا بھر حقوق کے نام پر ان پر مزید ذمہ داریاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔ خواتین و حضرات اپنے دماغوں پر ہاتھ رکھ غور کریں کیا ہم غلط کہ رہے ہیں؟ کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا کہ میاں اور بیوی دونوں ہی ملازمت یا کاروبار کر رہے ہوتے ہیں لیکن عام طور پر کچن سمیت امور خانہ داری خواتین ہی کو کرنے پڑتے ہیں؟

بھائی اور بہن دونوں ہی اسکول سے تھکے ہارے لوٹتے ہیں ؛ اور بہن چاہے چھوٹی ہو یا بڑی لیکن ”والدین“ یہی توقع رکھتے ہیں کہ یہ اس کا فرض منصبی، ”منصوبی و منسوبی“ ہے کہ وہ نہ صرف خود کھائے بلکہ بھائی کو بھی کھلائے۔ اور بعضے بہنوں کی ذمہ داری پکا کر ہی نہیں کما کر کھلانا بھی ہو گئی ہے!

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ والدین میں سے کوئی آنکھیں نکال کے یہ بھی کہ دے کہ، ”اندھی ہے کیا، دیکھتی نہیں بھائی اسکول سے تھکا ہارا آیا ہے۔ اسے کچھ کھلاتی پلاتی کیوں نہیں؟“

ہاں گزشتہ دہائی ڈیڑھ کے دوران میں کچھ فرق ضرور آیا ہے۔ قبل ازیں شوہر اور برادران ریموٹ کنٹرول لے کر ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتے تھے لیکن اب وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ ٹچ موبائل لے کر لیٹ جاتے ہیں! خواتین کے ساتھ نا انصافی اور امتیازی سلوک ہمارے معاشرتی مزاج ہے۔ اس میں ہماری اکثریت شعوری یا لاشعوری طور پر ملوث و مبتلا ہے۔ یہاں تک کہ اگر خواتین کو کوئی فائدہ یا رعایت دی بھی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی کوئی نہ کوئی نقصان یا قباحت بھی نتھی کر دی جاتی ہے۔

یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ ہم بھی سواری سے محروم لوگوں میں سے ہیں۔ اور بسوں کوچوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں :

”پھرتے ہیں“ میلوں ”خوار کوئی پوچھتا نہیں!“
جب کہ بعض اوقات ہم بس میں ہو کر بھی بے بسی سے بسوں کو دھکے لگاتے ہیں۔

یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ کراچی کی سواریوں میں اکثر خواتین کے حصے میں بھی مردوں کو سوار کر دیا جاتا ہے، اور خواتین منہ تکتی رہ جاتی ہیں۔ جب کہ کام کے اوقات میں بعضے خواتین نہ صرف لیڈیز کمپارٹمنٹ میں بھیڑ بکریوں کے طرح بھری ہوتی ہیں بل کہ ان کا ایک بڑا حصہ مردانے میں بھی شامل ہوتا ہے، اور ایک ناقابل گفتہ بہ سی حالت ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب کہ بعضے خواتین کے کمپارٹمنٹ کی طرف سے کسی نہ کسی حضرت کی طرف سے چھیڑے جانے کی شکایت بلند ہوتی رہتی ہے تو مردانہ حصے میں تو اس قسم کی حرکات ”مردانہ۔ وار“ کی جا سکتی ہیں!

یہ حضرات غالب کے طرفدار تو کسی طور نہیں ہو سکتے، جو کہ چلتی گاڑی میں خوباں سے چھیڑ چلانے کے قائل ہیں جب کہ ہم نہیں سمجھتے کہ غالب کی مراد بھی کسی اس قسم کی چھیڑ سے تھی۔

چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر وصل نہ سہی حسرت ہی سہی!

ایندھنی سبیلیں اور فی سبیل اللہ سواریاں

ایک خاتون کو وزارت عظمیٰ کی نشست دلانے والی قوم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments