امتحان


بہار کا موسم پھولوں، خوشبوؤں، کلیوں اور شاخوں پر چڑھتے سبزے کا مو سم ہے۔ چار سو بہار کا جادو ہی نظر آتا ہے، جیسے کہ پوری فضا اک خوش سمع گیت گنگنا رہی ہو۔ لیکن اتنے پیارے موسم میں ایک اور نظارہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ صبح سکول جاتے ہوئے بچوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ کار، رکشہ، موٹرسائیکل غرض ہر جگہ کوئی نہ کوئی بچہ کتاب کھولے زور زور سے سر ہلا رہا ہو گا۔ جی ہاں! امتحانات کا موسم بھی یہی ہو تا ہے۔ جہاں انگریز کے برصغیر پر بہت سارے ’احسانات‘ ہیں وہاں یہ امتحانات بھی انگریز کی دی ہوئی سوغات ہیں۔ تتلیوں کو ہاتھ میں قید کرنا، راہ چلتے پھولوں کو توڑنا، چھت پر ساری شام پتنگ اڑانا، یہ سب کرتے بچے کتنے اچھے لگتے ہیں۔ لیکن بہار کا موسم شروع ہو تا نہیں تو بچوں کو امتحانات کی بھٹی میں جھونک دیا جا تا ہے۔ جو اباً طلبا بھی خم ٹھونک کر میدان میں اترتے ہیں۔

سب سے پہلے تو اس استاد کا پتہ لگایا جا تا ہے جس نے پیپر بنانا ہو اور پھر اس استاد کے ساتھ استادی کرنے کے منصوبے باندھے جاتے ہیں۔ استاد کے ساتھ بڑی عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا جا تا ہے بلکہ کچھ دور اندیش عین موقع پر ٹیوشن پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ امتحان میں آنے والے سوالات کا علم تو ہو گیا لیکن اب کوئی مائی کا لال یاد کیسے کرے۔ اس کے لئے بھی خاص اہتمام کیا جا تا ہے۔ علم سے محبت کے پیش نظر اردگرد کے ماحول کو علم کے ’خزانوں‘ سے بھر لیا جا تا ہے۔ امتحان والے دن جرابوں، جیبوں، فائلوں غرض ہر ممکنہ مقام پر جوابات رکھ لئے جاتے ہیں۔ کس سوال کا جواب کس جگہ رکھا ہے اس کی لسٹ خصوصی طور پر تیار کی جاتی ہے تاکہ کسی مشکل کا سامنا نہ ہو بلکہ بوقتِ ضرورت سند رہے۔

اب کوئی بغیر بتیسی کے بابا یہ بھی تجویز پیش کر سکتا ہے کہ ابے نامرادو! بہار میں امتحان دکھتے ہیں تو موسم گرما میں انعقاد کرو۔ اب کوئی ظالم بابے سے پوچھے کہ محترم خود تو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو بچوں کی جان لو گے کیا۔ آگ برساتی میں گرمی میں بچے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں صحیح سلامت پہنچ جائیں تو غنیمت ہے کجا انہیں کمرہ امتحان میں بھیجنے کی تجویز فرمائی جا رہی ہے۔

کچھ ’خواص‘ کے مطابق امتحانات موسم سرما میں ہو نے چاہیں۔ خیر جب ہر جگہ ہیٹر ہو اور گیس بند نہ ہوتی ہو، گھر کے گرم کمرے سے گاڑی اور پھر ایسے ہی کمرہ امتحان میں امتحان ہو تو انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن جب ایک غریب کے بچے نے گیس نہ ہونے، حرارت کے متبادل ذرائع کی عدم دستیابی کے پیش نظر یخ بستہ سردی میں میں کمرہ امتحان میں پہنچنا ہے تو ایک گھنٹہ تو اسے اپنے آپ کو ہوش میں لاتے لگے گا۔ پھر امتحان کہاں رہا۔ کیونکہ غریب بچے بکثرت پائے جاتے ہیں اور جمہوریت میں فیصلہ کثرت رائے سے طے ہو تا ہے اس لیے سردیوں میں بھی معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

منچلوں کی رائے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ساون میں امتحانات بہتر ہوں گے۔ بارش سے موسم خوشگوار ہو تا ہے اور پڑھائی میں خوب دل لگتا ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ نالائقو دل تو پہلے ہی کسی سے لگائے بیٹھے ہو، پڑھائی میں کیسے دل لگے گا۔ ویسے بھی یہ تو عشق پیچوں کا موسم ہے جس میں ایک لڑکی یہ گانا گاتی ہے ؛تیرے دو ٹکے کی نوکری سے میرے لاکھوں کا ساون جائے۔ تو جناب یہ موسم ان کاموں کے لئے استعمال کریں امتحانات جیسے بور کام میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی ہمارے شہروں میں ہلکی سی بارش پر ہی سڑکیں شرم کے مارے پانی پانی ہو جاتی ہیں۔ اپنے بنانے والوں کے کرتوتوں پر سڑکیں تو پانی پانی ہو جاتی ہیں لیکن ان لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ کم از کم سڑکوں کو درست بنا یا جائے۔ شاید وہ غالب کے اس شعر کے دلدادہ ہیں، شرم تم کر مگر نہیں آتی۔ ایسی حالت میں طلبا کی تیاری امتحانات کے برعکس کمرہ امتحان میں پہنچنے کے لئے برساتیوں، چھتریوں اور کشتیوں کے انتظام پر مرکوز رہے گی اس لئے ساون کے موسم کو بھی بخشیں۔

موسموں سے قطع نظر کچھ لوگوں کے امتحانات سدا بہار رہتے ہیں۔ وہ ہر سال چھ مہینے بعد امتحانات دیتے نظر آتے ہیں۔ اس آس میں کہ اس سال نہیں تو اس سے اگلے سال نہیں تو اس سے اگلے سال۔ عمر کے جس حصے میں بھی ان سے پوچھ لیں ان کا جواب یہی ہو تا ہے، امتحانات آرہے ہیں۔ پروفیشنل ڈگری والوں کے لئے تو امتحانات نو دس سال تک چلتے ہیں۔ کہیں تو باپ بیٹے کو اکٹھے ڈگری وصول کرتے دیکھا گیا ہے۔ امتحانات سے سب سے زیادہ ستائی ہوئی قوم بھی یہی ہے۔

امتحانات کا ذکر چلا تو پھر عشق کے امتحان کا ذکر ِخیر بھی ہو نا چاہیے۔ پیار محبت کے چکر میں پڑتے ہی سب سے پہلے گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ آپ جتنے بھی اچھے ہو، کاہل، بے شرم، ناک ڈبونے والے کے خطابات آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ اپنی مرضی سے چاہے گھر والے کسی پھوہڑ کو ہی پلے باندھ دیں لیکن آپ کی بہترین پسند میں سے بھی کیڑے نکالے جائیں گے۔ خیر ایک عدد یا بعض صورتوں میں زیادہ محبوب پال کر آپ خود بھی امتحان میں پڑ جاتے ہیں۔ پہلے تو روزانہ بات چیت کے لئے موبائل میں کافی بیلنس ہونا ضروری ہے پھر ملاقات کے لئے سو جتن۔ اہم مواقع پر تحائف کا تبادلہ۔ اور یہ سب کر نے کے باوجود بھی آپ کا محبوب آپ سے ناراض۔ ہمارے خیال میں تو ان عاملوں کو انعام کے بجائے سزا ملنی چاہیے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ محبوب آپ کے قدموں میں کیونکہ پھر محبوب آپ کے پیروں میں زنجیر کی مانند پڑ جاتا ہے اور آپ آزادی سے چلنے پھر نے کے قابل نہیں رہتے۔ پر سو باتوں کی ایک بات، کسی نے بجا کہا ہے کہ چاہا جانا ایک حسین احساس ہے۔ بعض اوقات کسی بڑے امتحان میں ناکامی کا اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا عشق کے کسی امتحان میں ناکام ہو نا ایک کسک بن کے رہ جا تا ہے۔

ویسے اگر غور کریں تو ہر کسی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی امتحان جاری رہتا ہے۔ جیسے کہ صبر کا امتحان! یہ امتحان ہمارے ملک میں عوام سالوں سے دیتے آ رہے ہیں۔ معلوم نہیں اس امتحان میں ایسا کیا ہے کہ کہ یہ ختم نہیں ہو تا۔ ہمارے حکمران ہمارے صبر کا امتحان لیتے رہتے ہیں اور ہم یہ امتحان دیتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ امتحان دیتے دیتے رکشہ میں بچہ پیدا کرلیتے ہیں لیکن ہمارا امتحان ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ معافی کا امتحان بھی ایک کٹھن امتحان ہے، دوسروں کو تلقین کرنا شاید آسان ہے لیکن خود اس پر عمل پیرا ہو نا انتہائی مشکل امر ہے۔ جیسے طلبا کے لئے امتحانات کو برداشت کرنا مشکل ہے، ویسے ہی ہم بھی ایک دوسرے کی خامیوں و کمزوریوں کو برداشت کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، ہماری ہمت جواب دے جاتی ہے اور ہم دوسروں پر پھٹ پڑتے ہیں۔ اگر ہم برداشت کا عنصر اپنی زندگی سے ختم کر دیں تو یہ زندگی واقعی ایک امتحان بن جائے۔

زندگی کے ان امتحانات میں سے سرخرو ہونا ہی اصل امتحان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments