ایک شاگرد جسے اپنی استاد کے لباس پر اعتراض تھا


چند روز قبل میری دوست زینب ڈار غصے اور افسوس کے ملے جلے جذبات لئے اپنی یونیورسٹی سے سیدھے میرے گھر پہنچی۔ زینب سے میری شناسائی کوئی پندرہ سال پرانی ہے اور ان کا شمار بلاشبہ ان چند خواتین میں ہوتا ہے جو بنا کسی خوف و جھجک کے اس سماج میں اپنی مرضی سے زندگی جی رہیں ہیں۔ زور دار قہقہے اور دبنگ چال ان کی پہچان جبکہ ساڑھی ان کا من پسند پہناوا ہے جو ان پر جچتی بھی خوب ہے۔ سلیقے سے آنکھوں پر ساڑھی کا ہم رنگ آئی شیڈز ان کی بڑی بڑی بولتی آنکھوں کو مزید نمایاں کر دیتا ہے۔

ایک نجی تعلیمی ادارے میں پرفارمنگ آرٹ پڑھاتی ہیں۔ اپنے تمام طلبا و طالبات کی ہردلعزیز استاد ہیں اور اپنے شاگردوں کو بھی اپنی جان سے عزیز رکھتی ہیں۔ لیکن اس دن وہ اپنے ایک شاگرد کی بات سے ناصرف ذہنی کوفت بلکہ شدید تکلیف کا بھی شکار ہوئیں۔

قصہ کچھ یوں ہوا کہ ان کے ایک طالب علم نے کچھ عرصے قبل آرٹ اور تھیٹر کا کورس لینے سے انکار کیا کہ یہ غیر اسلامی مضمون ہے جو پڑھنا جائز نہیں۔ زینب نے بطور استاد اس بچے کی کونسلنگ کی تاکہ بچہ دوبارہ اپنا کورس پڑھنا شروع کر دے۔

چند عرصے تو کورس جاری رکھا لیکن دماغ کے فتور کا کیا کیجئے اس طالب علم کو دوبارہ درس دینے کا دورہ پڑ گیا۔

زینب حسب معمول اس دن بھی ساڑھی میں ملبوس تھیں۔ کلاس شروع ہوئی تو صاحبزادے نے کلاس لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زینب کے اصرار پر فرمایا! میم میں پڑھوں گا کیسے کیونکہ میں تو آپ کی طرف نظر بھی نہیں اٹھا سکتا۔

استفسار کرنے پر کُھل کر بولے کہ آپ کا لباس غیر شرعی ہے اور یہ کافروں کا پہناوا ہے۔ آپ کو اس لباس میں دیکھنا گناہ ہے اور میں یہ گناہ ہرگز نہیں کر سکتا۔

بقول زینب کہ میری ایسی حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ کہ بچہ میرے بیٹے سے کوئی دوچار سال ہی بڑا ہو گا لیکن ذہن میں اتنا گند آخر آیا تو آیا کہاں سے اور کیسے؟

زینب نے اس طالب علم کو کہا کہ بیٹا پڑھتے ہوئے آپ میرے چہرے پر نظر رکھئیے، نا کہ میرے کپڑوں پر۔
لیکن تمام دلائل ایسے تنگ نظر افراد کے لئے بے معنی ہی ثابت ہوتے ہیں۔

زینب تو کچھ وقت میرے ساتھ گزار کر اپنے گھر روانہ ہوئی لیکن مجھے احساس ہوا کہ خواتین بے شک کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں پدر شاہی معاشرہ اسے اپنے معیار اور پسند کے حساب سے دیکھنا چاہتا ہے۔

عورت کو محض عورت ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ماں، بیٹی، بیوی جیسے رشتوں کا ٹھپا لگنے سے ہی عزت ملنے کی توقع رکھنے کی اجازت ہے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کوئی قدرتی آفات آئیں تو فتوی نازل ہو جاتا ہے کہ لڑکیاں جینز پہنیں گیں تو زلزلے تو آئیں گے۔ لیکن وہی افراد نا بالغ بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ آئے دن زیادتی اور قتل کی وارداتوں پر اپنے کان پر جوں بھی رینگنے نہیں دیتے۔

اب تو حیرت ان والدین پر ہوتی ہے جو ابھی بھی اپنے بچوں کو مدرسوں میں ایسے تنگ نظر ملاؤں کے پاس بھیجتے ہیں۔ کبھی عورت کو ٹافی تو کبھی برفی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس کے جسمانی خد و خال کو ہمارے معاشرے میں گالی بنا دیا گیا ہے کہ عورت اپنے ہی جسم سے شرم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

سمجھ سے بالاتر ہے کہ عورت مارچ کا نعرہ ”میرا جسم میری مرضی“ کو ہمارے بیشتر مردوں نے متنازع بنانے میں اپنی پوری توانائی ضائع کر ڈالی۔ غالباً اتنی توانائی اگر وہ خود کو سدھارنے پر خرچ کرتے تو ملک کی بدنامی میں کافی کمی لائی جا سکتی تھی۔ پاکستان عورتوں کے لئے دنیا کے اٹھارہ خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں ہر دو گھنٹے میں ایک عورت کا ریپ ہوتا ہے۔

تو اب ان سماج کے ٹھیکیداروں سے کوئی پوچھے کہ ”میرا جسم میری مرضی کے بجائے کیا دوسروں کی مرضی“ ہونا چاہیے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ مرد حضرات کو بھی یہی نعرہ اتنے ہی زور شور سے لگانا چاہیے جیسا آج کی عورت لگا رہی ہے۔

چونکہ مرد کی اولین خواہش پدر شاہی معاشرے کا تسلسل ہے تو وہ کیسے اپنی اجارہ داری پر سمجھوتا کر سکتا ہے۔ لیکن ترس تو ان خواتین پر آتا ہے جو پدر شاہی نظام کی متاثرہ ہونے کے باوجود اسی نظام کا ناصرف حصہ بنتی ہیں بلکہ اس کا دفاع بھی کرتی ہیں۔ اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ایسی خواتین سماج کو پسماندہ رکھنے، خواتین پر جبر کرنے میں مردوں کی ہمیشہ معاون ثابت ہوتی آئی ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں ایک عورت جس نے وہ سارے ظلم ستم سہے وہی اپنی بیٹی یا بہو سے روا رکھ کر تسکین حاصل کرتی ہے۔

اس کے علاوہ آج کل ایک ٹرم ”پک می گرل“ سوشل میڈیا پر کافی زیر بحث ہے۔ یہ ایسی خواتین کہلائی جاتیں ہیں جو فیمینسٹ ہونے کے باوجود شعوری یا غیر شعوری طور پر خود کو دوسری عورتوں کے مقابلے میں مختلف دکھانے یا بننے کی کوشش کرتی ہیں۔ مختلف نظر آنا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن ایسی خواتین مردوں میں مقبول ہونے کے لئے اپنی ہی صنف کو اکثر نیچا دکھانے کی کوششوں میں رہتی ہیں۔ وہ مردوں کی محفلوں میں برملا اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ عورتوں کی محفلوں کو پسند نہیں کرتی کیونکہ وہ دوسری خواتین کی طرح میک اپ اور بال نہیں رنگتی یا اپنے سراپے پر کوئی توجہ نہیں دیتیں اور نا لگائی بجھائی کرتیں ہیں۔ کیونکہ مرد ایسی باتوں سے خوش ہوتے ہیں۔ ایسی خواتین خود کو ”کول“ کا خطاب بھی دیتی ہیں۔ اگر خواتین ذہنی اور سماجی لحاظ سے مردوں سے زیادہ قابلیت کی حامل ہوں تو اس پر فخر کرنا زیادہ مناسب عمل ہے چہ جائیکہ دوسری عورت کو نیچا دکھا کر خود کی برتری ثابت کی جائے۔

ہر انسان کو اپنی ذات کے حوالے سے تمام فیصلے کرنے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔

عورت خواہ گھریلو ہو یا ملازمت پیشہ، ماڈرن ہو یا قدامت پسند، میک اپ کی دلدادہ ہو یا بنا میک اپ کے خوش، بالوں کو رنگنے کی شوقین ہو یا چاندی کے تار جیسے بالوں پر مطمئن وہ ہر روپ میں قابل محبت ہے منفرد ہے خوبصورت ہے اور احترام کے لائق ہے۔

اسے پہلے کہ زینب کے اس شاگرد جیسے لڑکے شرعی اور غیر شرعی لباس کا درس ہمیں کھلے عام دینے لگیں ہم عورتوں کو سب سے پہلے ایک دوسرے کی عزت کرنا ہوگی سطحی باتوں پر منفی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا ہو گا تبھی ہم اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments