آئیے! شہرِ بے چراغ کا احوال پڑھ لیجیے


شہر لاہور بچپن سے ہی ہمارا سراب تصور رہا ہے۔ یاد پڑتا ہے کالج کے آغازی دنوں میں ہی لاہور ہمارے لیے ایک اجنبی محبوب کی حیثیت رکھتا تھا۔ جن دنوں قصور سے لاہور کے لئے رخت سفر باندھا تو بے شمار خواب بھی ساتھ ہو لئے جن کی تعبیر تہذیب کے عمیق رنگ کی تلاش تھی۔ بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ لاہور میں بہت بڑے لوگ بستے ہیں۔ تو آخر ہم بھی اپنی بی۔ اے کی تعلیم مکمل کر کے مال روڈ کے عقب میں واقع وفاقی جامعہ برائے جدید لسانیات (NUML) میں ایم۔ اے انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے واسطے داخلہ حاصل میں کامیاب ہوئے اور تلاش کے سفر کا آغاز ہو گیا۔ جامعہ میں تخیل پروان چڑھنے لگا مگر افسوس کہ جامعہ بھر میں کوئی ایک شخص میسر نہ آ سکا کہ جو ادب کی بات سکھاتا ہو، شائستگی کے بیج بوتا ہو۔ سوچا باغوں کے شہر میں بہار تو اس میں بیٹھنے والے باسیوں سے ہوتی ہے مگر اب شاید ان باغیچوں سے بہار اداس ہو کر کہیں ویرانوں میں دفن ہو چکی ہے۔ تلاش جاری رہی مگر کہیں کوئی بڑے لوگوں کی محفل نظر نہ آئی۔ کسی صاحب نے مطلع کیا کہ نئی آبادی (ماڈل ٹاؤن) میں کچھ بڑے لوگوں کی باقیات میسر آ سکتی ہیں، پہنچنے پر معلوم ہوا کہ دہشت کے ہیولوں نے وہ لوگ بھی تارک وطن کر دیے ہیں۔ مختلف جامعات میں جا کر بھی سوائے مایوسی کے کچھ ہات نہ آیا۔ عجب وحشت زدہ بے تہذیبی ہے جو بال کھولے ناچ رہی ہے۔

معلوم نہیں کہ علم و ادب کے اس شہر کو کس بے مراد کی نظر لگی کہ کوئی در بھی ایسا باقی نہیں رہا جہاں ہم ایسے آوارہ مزاج مل بیٹھیں اور سخن کے جام پی سکیں۔ بڑے لوگوں کے بنائے گئے ادارے بھی دہشت زدہ ماحول سے ڈرتے ڈرتے اپنے کواڑوں پہ قفل ڈالے بیٹھے ہیں۔ چائے کے ڈھابوں پر گالم گلوچ عام ہے، ریستورانوں میں عجب وحشتی کا ڈیرہ ہے اور ایسی سطحی گفتگو سننے کو ملتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مشرقی تہذیب کسی بیاباں میں دفن ہو چکی ہے۔

کسی زبان پر محبت اپنا عکس بانٹتی نظر نہیں آتی، کسی کو داغ کے شعر یاد نہیں، کوئی میر و غالب کی غزلیں نہیں گاتا، کسی کی زبان بے محل پر بیدل اور حافظ کا تذکرہ نہیں، کوئی شخص نہیں ملتا جو فردوسی و نظیری کا نام لیوا ہو، کوئی نہیں جو قوم کو حدی خواں علامہ محمد اقبال کے نغمے گا سنائے، کسی کو فیض کی رومانویت بھری شاعری کے دو بول یاد نہیں۔ کہیں غلطی سے ہند کے ابوالکلام کا ذکر چھیڑ بیٹھیں تو سوالیہ آنکھیں تیر چلانے لگتی ہیں کہ یہ کس اجنبی کا ذکر کر رہے ہو کہ جس سے ہمارا تو کوئی واسطہ ہی نہیں! اس کے بعد کون ہوتا جس سے ہم شبلی و ندوی کا ذکر چھیڑتے!

کوئی انقلاب کی دل دوز داستانیں سنا کر سحر میں مبتلا نہیں کرتا، مارکس و لینن کے نام لیوا تو بہت پھرتے ہیں مگر کسی کے ہاں ان کا درد ہو ایسا بھلا کہاں، بس ایک حقارت زدہ رویہ تھا جو ہر سو پھیلتا نظر آتا ہے۔ کسی کی زبان پہ ابوالاعلیٰ کی تہذیب و شائستگی کا کوئی رنگ نظر نہیں آتا، بس انتہا پسندوں کا گروہ ہے جو چیخیں مارتا پھرتا ہے۔ کوئی اشفاق بابا کہیں بچوں کو نصیحت کرتا دکھائی نہیں دیتا۔

اس شہر سے متصل نئی دنیاؤں اور عام آدمی سے الگ طاقت کے سرچشموں میں جانا تو رہتا ہے مگر اب ان کا حال بھی کیا سنائیے کہ زبان پہ خوف کا ایندھن گرتا دکھائی دیتا ہے! کوئی شخص نہیں جو ورڈزورتھ کی حقائق سرائیاں سنا سکے، کسی کو شیلے کی ماتم سرائیاں یاد نہیں، ڈھونڈنے پر بھی کوئی شخص نہیں ملتا جو کیٹس کا دکھ سنائے اور دلوں کو موم کردے۔

غرض یہ کہ علم، ادب، تہذیب، شائستگی اس شہر پر اپنے کواڑ قفل کر لئے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بات کرنے سے قبل اور شعر سنانے سے بعد ماتھے کی تیوریاں دیکھنا پڑتی ہیں کہ کوئی شخص تو ہو جس پہ سخن گراں نہ گزرے۔ سوچتا ہوں کہ مشرقی تہذیب نے تو بہت بڑے بڑے لوگ پیدا کیے تھے لیکن میرے دور کا اقبال بلند کرنے کو کوئی اقبال کیوں نہیں ہے، کوئی میر سا سخن نواز بھی نظر نہیں آتا! آخر کیوں سلیم احمد کی زبانی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ”مشرق ہار گیا“ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments