مارچ کی آمد اور پاکستانی عورتوں کی ”بے حیائی“


مارچ کے شروع ہوتے ہی ایک جملہ تواتر سے سننے میں جو آ تا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کو مقام اور عزت اسلام نے دے دیے ہیں اب کسی حق، حقوق کے لیے ضرورت نہیں۔ لہذا عورتوں کا مارچ پر نکلنا بے حیائی پھیلانے کا بہانہ ہے۔ ایسا بیانیہ بنانے والوں کی اکثریت کی ذاتی زندگیوں میں عورت کی حیثیت ایک ذاتی ملازم سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ اپنی بات میں کچھ وزن پیدا کرنے لئے وہ سوائے چند ایک معتبر ہستیوں کے نام گنوا دیں گی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ اور خدیجہ۔

لیکن ظلم یہ کہ ہے ان شخصیات کی ذات کی تشریح بھی یہ لوگ اپنی مرضی سے کریں گئیں اور ان کی تابناک اور ہمہ گیر شخصیت کو ان کی ذات کے ایک پہلو یعنی پردے اور گھر بیٹھنے تک مرکوز کریں گے۔ کوئی بھی حضرت عائشہ کے علم و فہم کا ذکر نہیں کرے گا کوئی ذکر نہیں کرے گا ان کے شاعری میں شغف کا اور ان کہے اشعار کو تو کبھی سنا بھی نہیں ہو گا، کوئی یہ بھی نہیں بتائے گا کہ ان کا علم طب اور ریاضیات میں کتنا وسیع تھا۔ کوئی بھی نہیں اعتراف کرے گا دس صدیوں تک کیسے عورتوں کا قانونی اور فقہی معاملات اور ترویج دین میں کردار رہا اور کیسے بعد میں آ نے والے مرد علما نے پردے کی فوقیت پر زور دے کر عورت کی شمولیت کو محدود کرنے کی کوشش کی۔

محال ہے کہ کہیں پر بھی کسی عالم نما مولوی کے منہ سے حضرت عائشہ کی بہادری اور بے باکی کا ذکر ہو جائے۔ بلکہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے گا کہ ان کی طرف سے جنگ جمل کا اقدام غلط کیسے تھا۔ چاہے اس جنگ کا پس منظر جو بھی ہو۔ قابل ذکر بات تو ان کی شخصیت میں موجود وہ بغاوت اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر حق کے لیے آواز اٹھانے کی جرات ہے۔ کیا آج اسلام میں عورت کی عظمت کا ڈھول پیٹنے والے اپنی بیٹیوں کو ایسی تربیت اور اعتماد دے رہے ہیں! بلکہ ان کی ٹریننگ پلٹ کر جواب نا دی جانے والی کی جاتی اور صبر کے نام پر ظالم سے مفاہمت اور سر جھکانے ہزار طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ حضرت عائشہ اور دوسری امہات المومنین نے حضور کے بعد فتاویٰ بھی جاری کیے اور مرد صحابہ کو براہ راست علم بھی سکھایا۔

بات صرف امہات المومنین تک محدود نہیں بلکہ حضور کے دور میں خواتین نے اپنی بات کو بہت مضبوطی سے پیش بھی کیا اور ان کے بیان کیے مسائل پر فوراً وحی بھی اتاری گئی۔ حضرت حوالہٰ جن کے لیے اللہ نے سورہ مجادلہ کی ابتدائی آیات نازل فرمائی۔ ان صحابی خاتون کے شوہر عاص بن سمت جو کہ ضعیف اور ذہنی طور مکمل متوازن نا تھے نے زبردستی ازدواج قائم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ اپنی جان بچا کر حضور کے پاس اپنا کیس لائیں اور پھر عرش تک آپ کی سنوائی کی گئی۔ اس واقعے کے بارے کبھی بھی ہم مسلمان عورتوں کو نہیں سکھایا کیونکہ ہمیں تو وہ یہی بتاتے رہے ہیں کی شوہر کی خواہش کے سامنے سر تسلیم خم نا کرنے والے پر فرشتے رات بھر لعنت کرتے ہیں۔

اسلام میں خواتین جائیدادوں کی مالک بھی اور بڑے بڑے کاروبار سنبھالے بیٹھی تھیں۔ اور بحیثیت اپنے گھر کے سربراہ اور کفیل کے زکوٰۃ و صدقہ بھی کرتی رہی

حضور کے زمانے میں رائتا نامی عورت نے جب یہ مسئلہ بیان کیا کہ وہ اپنے شوہر (عبداللہ بن ابی مسعود) اور بچوں کی کفالت اور اپنی روزگاری میں اتنی مصروف ہوتی ہے وہ صدقہ خیرات کا وقت نہیں نکال پاتی۔ آج کوئی بھی دین کا ٹھیکیدار عورتوں کے ایسے کردار جو نہیں سراہے گا بلکہ کوئی ایسی تاویل دے کر سمجھانے کی کوشش کرے گا کہ ”دیکھو عورت کے کرنے کے کام کچھ اور ہیں اور مرد کے اور“ ”دیکھو عورت تو کبھی کفیل ہو ہی نہیں سکتی اسے تو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ”

اسلام میں تو اولادیں اپنی ماؤں کے نام سے بھی پکاری جاتی تھیں کیا کوئی عورت آج اتنا استحقاق رکھتی ہے کہ وہ اپنا نام اپنی اولاد کے نام سے جوڑ لے۔ کیا کبھی بھول کر بھی ان اسلام کے سپاہیوں میں سے کوئی زینب بنت کمال ( 646 ء) کا نام لے گا جنہوں نے احادیث کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا کہا جاتا ہے کے آپ کے پاس کتب کا اتنا بڑا مجموعہ تھا کہ کئی اونٹوں پر لادا جائے تو بھی کم۔ ہر وقت شاگردوں کا ہجوم ان کے گرد رہتا۔ اور آپ ثبت آل ثلفی کے چند آخری شاگردوں میں شامل تھی۔ آپ نے اپنی نوے سالہ زندگی میں کبھی شادی نہیں کی۔ کیا آج کے ماڈرن دور میں کسی تن تنہا عورت کو مردوں کے ہجوم میں فقہ اور حدیث کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے دیکھتس قبول کر سکتا ہے؟ کیا ان مثالوں سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ عورت کی ایک علیحدہ شخصی پہچان تھی جس کے لیے انہیں کسی مرد کے نام یا سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔

ان بہادر عورتوں کی مثال سنانے والے آج چند عورتوں کے احتجاج ریکارڈ کروانے سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور اسی مارچ کو کم اہمیت کا دکھانے کے لیے مقابلے میں حجاب ڈے یا حیا ڈے کا انعقاد کر رہے ہوتے ہیں۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر یہ مشہور کیا جائے گا کہ حقوق تو عورت کو اسی دن مل گئے جب سورہ نساء نازل ہوئی وہی سورہ نساء جس میں خدا اپنی کنیز (جو اس زمانے میں ایک ذاتی ملکیت کی چیز تھی) کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق کی ممانعت کرتا ہے اور یہ دین کے سپاہی آ زاد عورتوں کے ”میرا جسم، میری مرضی“ کے نعرے پر لعن طعن شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی عورت کو ان کی نظر میں اپنا تقدس حاصل کرنے کے لیے چادر اور چار دیواری کے ساتھ ساتھ اپنے جسموں کا مالک بھی ان کو بنانا ہو گا۔

بیت النسا کا نام کبھی بھی ان کی زبانوں پر نہیں آئے گا۔ یہ 53 عورتوں کا ایک گروپ تھا جو حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر تا ہے اور پھر ایک گروپ کی صورت اسلام کا پیغام جگ جگہ پہنچاتا ہے۔ یہ گروپ زیادہ تر سنگل، کاروباری یا طلاق یافتہ عورتوں پر مشتمل تھا جو ہمیشہ سفر کرتی۔ کیا کوئی ایسی مثال آج کے وقت میں بنائی جا سکتی ہے۔ نہیں ایسی مثالیں بنانے کے لیے سال میں ایک نہیں ہر مہینے مارچ کرنا ہو گا تا کہ منافقین کے مزید جھوٹ عیاں ہو۔

ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ ان کے جسموں پہ کس کا حق ہے
ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ کس سے ان کے نکاح ہوں گے
یہ کس کے بستر کی زینتیں ہیں
وہ کون ہو گا جو اپنے ہونٹوں کو
ان کے جسموں کی آب دے گا
یہ کون ہوتی ہیں اپنی مرضی سے جینے والی؟
بتانے والے ہمیں یہی تو بتا گئیں
جو اپنے بھائی سے حصہ مانگیں
جو شوہروں کو خدا نہ سمجھیں
جو قدرے مشکل سوال پوچھیں
جو اپنی محنت کا بدلہ مانگیں
جو اپنے جسموں پہ حق جتائیں
وہ بے حیا ہیں
شعیب کیانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments