سزا – افسانہ


گرچہ یہ ہمارے شعبہ کا قاعدہ ہے کہ خوش پوشی اور قرینہ و سلیقہ سے زندگی گزاری جائے لیکن میری طبیعت اس سے رغبت نہیں رکھتی۔ میں درویش خصلت تو نہیں لیکن سادہ مزاج ضرور ہوں، جہاں اور جیسا بھی بستر ملا سو گئے، جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے، کھانے کی فکر نہ پہننے کی، اسی لیے مجھے فارما سوٹیکل کمپنیوں کی دعوت قبول کرنے میں ہمیشہ عار محسوس ہوتی ہے۔ اس بار دوستوں کا بہت اصرار تھا۔ ایک دہائی پہلے کی بات ہے جب ہم اکٹھے یورپ کے ٹور پر نکلے تھے۔ اس کے بعد وہ تو جاتے رہتے تھے میں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔

کمپنی نے بھی بار بار دباؤ ڈالا، مجھے ہاں کرنا پڑی۔ گھر سے گھر تک ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ مجھے خصوصی اہمیت دے رہے تھے۔

پتا نہیں کیوں؟
مجھ جیسے چھوٹے سے کاروباری آدمی کو بڑے بڑے مگرمچھوں کے ساتھ بزنس کلاس میں رکھا گیا تھا۔
شاید میں اکیلا تھا اور باقی دوست فیملیز کے ساتھ؟

بزنس کلاس کی انوکھی باتیں ہیں۔ اکثر مسافر جوانی کی ساری دہائیاں گزار کر سونٹھ کی طرح کے ٹیڑھے میڑھے ہو چکے ہوتے ہیں۔ بعض کے جسم شکر قندی کی طرح کے، صرف پیٹ ہی پیٹ اور بیٹھے ہوتے ہیں راجہ اندر بن کر۔ ایئرہوسٹس بھی خالص پروفیشنل انداز میں، منہ پر تحقیرانہ حرمت و توقیر کی مسکراہٹ سجائے، کنیز بنی احکامات بجا لا رہی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے مسافر جو بزنس کلاس صرف ہدیہ کی مد میں ہی انجوائے کر سکتے ہیں وہ اور بھی چوڑے ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں۔

ہوٹل کا نظارہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوتا۔

کمپنیوں کے ملازمین کی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ سب کچھ پرتکلف اور پر اہتمام کیا جائے۔ ایسے منظم اور پر سلیقہ پروگراموں میں میرا جیسا آدمی جچتا نہیں۔

پھر دوسرے ساتھیوں کی نا شائستگیاں مجھے شرمندہ کرتی ہیں۔ دعوت ایک کو ملتی ہے، پروگرام خالصتاً علمی ہوتا ہے اور لوگ بچے بھی ساتھ لے آتے ہیں۔ بیگمات تو ایسے آتی ہیں جیسے اس چھڑی بغیر میاں جی چل پھر ہی نہیں سکتے یا اسی اڑواڑ نے ان کی عظمت کی چھت کو تھاما ہوا ہے۔

ناشتے اور کھانے میں میاں جی یا بیگم صاحبہ پلیٹیں بھر بھر کر لا رہی ہوتی ہیں اور کچھ پیٹ میں ٹھونس کر اور کچھ ٹیبل پر ہی چھوڑ کر چلتی بنتی ہیں۔

شاید فیملیز کے درمیان مجرد پن میری خجالت کا باعث بنتا ہے۔ کہتے تو یہ ہیں کہ سسرا نہ سالہ، لڑکا نہ بالا، مجرد سب سے اعلیٰ لیکن یہ اعلیٰ پن مجھے تو شرمندہ کرتا ہے۔ ایسی کہاوتوں میں حقیقت بیانی کے ساتھ طنز کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور طنز تو وہ دو دھاری تلوار ہے جو محسوس کرنے والے کی طرف زیادہ کٹاؤ کرتی ہے۔

اس دنیاوی جنت میں میں اکیلا ایک میز پر بیٹھا ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہوں۔ اسی گاؤدی پن کے باعث اس غریب اور بھوکے ملک کے لوگوں کے نارمل رویوں کو بھی ابنارمل کہہ دیتا ہوں۔ یہ سوچتا ہوں تو مجھے ہر طرف انتہائی معزز اور سلیقہ شعار لوگ نظر آنے لگتے ہیں۔ پھول ہی پھول فائیو سٹار ہوٹلوں میں کرسی میزوں کی قطاروں میں سجے ہوئے، ہر طرف ہر جگہ۔

نظر بھٹکتی بھٹکتی کنول کے پھول پر جم گئی تھی۔

کنول بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنا کیچڑ والا گھر چھوڑ کر شیشے کے گھروں میں پنپنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہم نے تو جب بھی دیکھا انہیں گرین ہاؤسز میں ہی دیکھا۔ صاف ستھرے فائیو سٹار ماحول میں بہت سے پودوں کے درمیان لیکن اکثر اکیلا ہی پانی میں تیرتا ہوا۔

دور کنول کا پھول کھلا ہوا تھا، طراوت و شادابی کا مظہر۔

سڈول جسم، کھلے بال اور انتہائی خوبصورت لباس، اکیلا پن اس کی حرکتوں سے جھلک رہا تھا۔ میں تھوڑی دیر اسے دیکھتا رہا۔ اسے اٹھتا دیکھ کر منہ موڑ لیا۔ وہ اتراتی ہوئی میرے پاس سے گزری۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ پھر کر اس کی طرف دیکھتا۔

کانفرنس کا پہلا سیشن شروع ہوا تو سامنے والی قطار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ میں مسلسل اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ سوال و جواب کے سیشن میں وہ بولی تو کانوں میں جلترنگ سی بج اٹھی۔ آواز جانی پہچانی سی تھی۔ پروگرام ختم ہوا تو قریب پہنچ کے دیکھا چودہ طبق روشن ہو گئے۔

وہ بھی مجھے دیکھ رہی تھی۔ ٹھنڈے دل سے لاپرواہی کے ساتھ، بالکل پرسکون اور مطمئن جیسے مجھے پہچانا ہی نہیں تھا۔

موٹی ہو گئی تھی، میری طرح ہی، لیکن فربہی اسے زیب دیتی تھی۔ اس کی شکل و صورت میں کچھ زیادہ تغیر نہیں ہوا تھا۔ خوش اندام وہ پہلے بھی تھی، وہی شفاف آنکھیں، چمکتے بال اور گول چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش۔

سال ہا سال گزر گئے تھے اسے چھوڑے ہوئے۔ میں ایک مضبوط مرد کی طرح، جو کہ اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے، خود پر قابو پا کر وہاں سے چلا تو آیا تھا لیکن اس دن کے بعد کئی راتوں تک میری آنکھوں نے نیند کو اندر نہیں گھسنے دیا کیونکہ ان میں تو وہ منظر دھرنا دیے بیٹھا تھا اور کئی راتوں تک سونے کا خیال بھی نہ آیا کیونکہ دماغ تو صرف اس کے بارے میں سوچتا تھا۔

میں نے سر کو جھٹکا اور واپس مڑ آیا۔

اس کے بعد میں پورا دن کمرے سے باہر نہ نکلا۔ دوستوں کا فون آیا تو احساس ہوا کہ رات ہو گئی تھی۔ بھوک پیاس زوروں پر تھی۔ میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ کمرے میں ہی ڈنر منگوا لیتا لیکن مجھے اپنے وہ ساتھی بہت برے لگتے تھے جو اس طرح کے دوروں پر منی بار سے چیزیں یا کمرے میں کھانا منگوا کر میزبانوں پر اضافی بوجھ ڈالتے تھے۔

سو بوجھل دل سے ڈائننگ ہال کی طرف چل پڑا۔

وہ میرے دوستوں کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔ سب اس سے مل چکے تھے اب وہ بھی پہچان گئے ہوں گے۔ مجھے دیکھ کر دور جاکر اکیلی بیٹھ گئی۔

ہماری متاہل زندگی کی ابتدا ہی اس کی چاہت سے ہوئی تھی۔ بہت چاہتا تھا میں اسے۔ ٹھیٹ پنجابن تھی۔ چالاک، نخرے باز، شوخ و چنچل: لمبا سڈول قد لیکن نازک و حسین۔ ساری برادری کہتی تھی یہ حور کہاں سے بیاہ لائے ہو۔

جب میرا پیار اس کے تن بدن میں رچ بس گیا تو اور بھی نکھر گئی۔ پھول کھلتے گئے جوانی کا الاؤ بھڑکتا گیا۔ مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کر حیران رہ جاتے۔

عورت کی جڑ تو خاک بدہن ان کا پروردگار بھی نہیں جانتا۔
وہ کب بگڑی مجھے پتا بھی نہ چلتا اگر میں اس دن جلدی گھر نہ آ جاتا اور کاش میں اس دن جلدی نہ آیا ہوتا!

میں نے دونوں کو دیکھ لیا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ اس گھر کے چور کا منہ توڑ دوں لیکن باتیں بنتیں، بدنامی ہوتی۔ گناہ اس کا تھا سزا میں کیوں بھگتوں؟
سو میں باہر آ گیا۔

الزام تراشی، تضحیک یا اشتداد کو پسند نہیں کرتا اس لیے صرف یہ ہی کہہ سکا کہ تمہیں چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جا رہا ہوں۔ کسی کو پتا بھی نہ چلے گا کہ ہماری علیحدگی کیوں ہوئی ہے؟

سال ہا سال کے بعد وہ ملی تو سارے دکھ یاد آ گئے۔
دوستوں نے اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔ وہ اپنی ہی باتیں کرتے رہے اور میں خاموشی سے کھانا کھا کر کمرے کی طرف چل پڑا۔ کاریڈور میں ہی کھڑی تھی۔

”کیسے ہو؟“
میرا بھی بات کرنے کو بہت دل چاہتا تھا۔ بہت کچھ کہنے کو تھا۔ بہت کچھ کہنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ اس نے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی اور میں نے بن سوچے رہ بہ سوئے عدم پر قدم رکھ دیے۔

میں بہت گھبرایا ہوا تھا اور وہ بھی۔ بار بار کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ میری بیوی تھی جس کے ساتھ میں نے زندگی کے کچھ اچھے پل گزارے تھے۔ میرے دماغ میں ان دنوں کی یاد کے جھکڑ چل رہے تھے۔ اس کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔ آواز کی لطیف شیرینی، لہجہ کا لوچ، مستانہ اور دلکش ادائیں، سب آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھیں۔ اس کی طرف دیکھتا تو دل کرتا کہ دیکھتا ہی رہوں۔

موٹی ہو کر وہ پہلے سے بھی زیادہ حسین ہو گئی تھی۔ پہلے سے زیادہ نسوانیت و جاذبیت کی حامل، گدرائی ہوئی، کسی کسائی اور شہوت خیز۔

قدرت کی ستم گری تھی کہ وہ میری بیوی تھی۔
وہ سر سے پاؤں تک میرے سامنے تھی۔ وہ کیا سوچ رہی تھی؟ میں جانتا تھا؟

مجھے تو وہ دن یاد آ رہے تھے جب وہ اپنا سر میرے کندھے پر رکھ کر ایسے ہی خاموشی سے لیٹ جایا کرتی۔ میں آنکھیں بند کر کے اسی احساس میں کھو گیا۔

کیا وہ وہی تھی؟ یا اسی گوشت پوست میں، اسی چولے میں، خدا نے میری تنہائی پر ترس کھا کر، کسی اور کو بھیج دیا تھا؟

ہاں سال ہا سال میں لوگ بدل جاتے ہیں، رنگ بدل جاتا ہے، ادائیں بدل جاتی ہیں، ناز و انداز بدل جاتے ہیں۔ جوانی سے بڑھاپا تناسخ کا عمل ہے۔ انسان ایک جون سے دوسری جون میں ڈھل جاتا ہے۔ اچھے لوگ کسی اچھی شکل میں اور برے لوگ کسی بدصورت ڈھنگ ڈول میں۔

وہ تو پہلے سے زیادہ خوبصورت تھی۔

رات گزرتی جا رہی تھی۔ پھر اگلی دو راتیں بھی ایسے ہی گزر گئیں۔ صبح واپسی تھی۔ آج پھر ہم آمنے سامنے تھے۔ ابھی تک کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس کو سامنے پا کر گنگ ہوجاتا۔ آج ہم ایک دوسرے کو بار بار دیکھ رہے تھے، مسلسل۔ کبھی کبھی، کچھ سوچتے سوچتے، اس کی بھویں تن جاتیں، لم چھڑی آنکھوں میں ان کہے خیالوں کی بتیاں جھلملا اٹھتیں جیسے وہ کچھ کہنے کی ہمت جمع کر رہی ہو۔

میں اس کی آواز سننے کو بیتاب تھا۔

اس کے پگھلے ہوئے بلور جیسے بدن کو چھو کر دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی سنہری سہ پہر جیسی میٹھی مدہم گداز تمازت سے اپنے دل کے زخموں کو سہلانا چاہتا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے چھو کر، اپنے ہونٹوں سے چکھ کر اسے پہچاننا چاہتا تھا۔

بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔

سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا اس کے پیڑو کا تل جسے میں چوما کرتا تھا اور اسی جیسا ایک اور اس کی ران کا، دو رکھوالے اپنی دھرتی کا۔ لیکن اس دن وہ کہاں کھو گئے تھے؟ مجھے سارا غصہ ان پر اتارنا تھا۔

میں نے ہمت کی اور اس کے قریب آ گیا۔ بڑی مشکل سے آواز نکلی،
”تم میری ہو، میری بیوی۔ آؤ، سب بھول کر دوبارہ زندگی شروع کریں۔“
وہ خاموشی سے اٹھ کر دور چلی گئی۔ وہی پرانی چال تھی۔
میں اپنے کمرے میں آ گیا۔
واپسی پر وہ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔

جہاز اڑا تو آہستہ سے گویا ہوئی، ”تمہیں ادھر بلانے کی ساری پلاننگ میری تھی۔“
میں حیران رہ گیا۔ رک رک کر بول رہی تھی،
”غلطی میری تھی۔
تم مجھے چھوڑ کر چلے آئے۔

اب سب دوستوں نے ہمیں اکٹھا دیکھ لیا ہے۔ میرے گھر والے ائرپورٹ پر مجھے لینے آئیں گے۔ وہ بھی جان جائیں گے۔

میں ساری زندگی تمہارے نام پر ہی گزاروں گی۔ لیکن تمہارے ساتھ نہیں۔ کیونکہ تم مجھے معاف نہیں کر سکتے۔
بس اس ملک میں اکیلی عورت کا گزارا بہت مشکل ہے۔ ”
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔
”صرف ایک گزارش ہے کہ رخصت کرتے وقت ائرپورٹ پر سب کے سامنے مجھے گلے لگا لینا۔ آخری بار۔“

وقت رخصتی اس نے مجھے ہمت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا اور میرے ساتھ لپٹ گئی۔
آہستہ سے بولی،
”میں اکیلی گزارا نہیں کر سکتی۔ اس لیے میں نے ایک بار پھر۔“
میں حیرانی سے اسے پرے کر کے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ زور سے لپٹی رہی،
”میں حاملہ ہوں۔ سارا ڈھونگ رچایا کہ دنیا والوں کو بتا سکوں۔
بچہ تمہارا ہے۔ ”
وہ پیچھے ہٹی اور اتراتی ہوئی اپنے گھر والوں کی طرف چل پڑی۔ وہی اکڑ پن، وہی نخرہ، وہی پھبن۔

میں سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ جوانی کی اور بات ہے، اس عمر میں؟ یہ نہیں ہو سکتا؟
عمر ڈھل رہی تھی اور پھر عورت کی تو ایک عمر ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ۔ ؟
اس نے اپنا اکیلا پن دور کرنے کے لیے کیسی چال چلی؟
ایک غلطی تو ہو گئی تھی، دوسری بار میں نے اسے گناہ کی طرف دھکیلا۔
نہیں، وہ جھوٹ بول رہی ہے۔
یہ سچ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ مجھ سے نا امید تھی۔

مجھے اسے روک لینا چاہیے؟ وہ اب ایسا نہیں کر سکتی۔
مجھے اسے بھول جانا چاہیے؟ وہ بہت بری ہے؟ وہ حاملہ ہے؟
تو کیا ہے؟
وہ بہت خوبصورت ہے۔
میں کیا کروں؟

اس دنیا میں پڑھے لکھے لوگ بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ دوسروں کے مال اڑا کر اتراتے ہیں۔ دوسروں کی دولت پر عیاشی کرتے ہیں، غیروں کے حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ابنارمل لوگوں کے نارمل رویے ہیں یا یہ الٹ ہے؟

میرے جیسا درویش خصلت، سادہ مزاج کیا کرے؟ کدھر جائے؟
اس کے پیچھے یا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments