پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات


نوآبادیاتی نظام (Colonialism) کی اصطلاح کا استعمال، ہمارے مین سٹریم میڈیا، علمی حلقوں اور روزمرہ کی گفتگو میں شاذونادر ہی کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ بھی اس اصطلاح سے ناواقف ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر برصغیر پاک و ہند میں مسلم دور حکومت کو جہالت، پس ماندگی، لاقانونیت اور عیش و عشرت کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انگریز کے دور حکومت (جسے نوآبادیاتی نظام بھی کہا جاتا ہے ) کو ترقی، امن و امان اور انصاف کے حوالے سے مثالی دور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

آج ملک میں عوام کو انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے قانونی اور عدالتی نظام سے ہر شخص مایوس اور متنفر ہے لیکن شاذ و نادر ہی اس صورت حال کے پس منظر اور اسباب کا گہرائی میں جائزہ لیا جاتا ہے۔ چند مخصوص شخصیات کو تمام مسائل کی وجہ اور چند دیگر شخصیات کو ان مسائل کا حل قرار دے کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیا جاتا ہے۔

معروف صحافی آصف محمود نے اپنی کتاب ”پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی اثرات“ میں ٹھوس دلائل اور تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ پاکستان کا عدالتی، انتظامی اور تعلیمی ڈھانچہ برطانوی نوآبادیاتی دو رکا تسلسل ہے۔ چونکہ یہ نظام انگریز نے یہاں کے لوگوں کو غلام رکھنے کے لئے بنایا تھا، اس لئے یہ نظام ایک آزاد اور باوقار معاشرے کو پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اس نظام نے ہمیں اپنی مسلم تاریخ سے متنفر کر کے احساس کمتری اور ذہنی پستی کا شکار بنا دیا ہے۔

ایک منصفانہ اور ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لئے ہمیں سب سے پہلے مرعوبیت اور جہالت سے نکل کر اپنی تاریخ کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا تاکہ ہم کھرے کو کھوٹے سے الگ کرسکیں۔ شعوری بیداری کا یہ عمل ہمیں اپنے قانونی، انتظامی اور تعلیمی نظام میں بنیادی نوعیت کی انسان دوست تبدیلیاں کرنے کے قابل بنا سکے گا۔

کسی بھی موضوع پر کوئی کتاب یا گفتگو حرف آخر نہیں ہوتی۔ مختلف زاویوں سے بہتری اور مزید تحقیق کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے لیکن اردو زبان میں ہمارے قومی وجود پر نوآبادیاتی نظام کے منفی اثرات کو مدلل، آسان فہم اور منظم انداز میں پہلی مرتبہ کتابی شکل میں پیش کرنے کا سہرا آصف محمود کے سر ہی سجے گا۔ مصنف کا انداز بیان متوازن اور مدلل ہے اور کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ مصنف اپنی رائے میں ردعمل، تشدد یا تعصب کا شکار ہو رہے ہیں۔

امید کی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب ہمارے دانشوروں، اساتذہ، صحافیوں اور دیگر اہل علم کے لئے فکر و عمل کے نئے زاویے سامنے لائے گی اور ایک ایسے تعمیری مکالمے کا آغاز کرے گی جس کے نتیجے میں ہم اپنے ماضی اور حال کو درست تناظر میں سمجھ کر مستقبل کے حوالے سے کوئی عوام دوست، پائیدار اور جوہری تبدیلی پیدا کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔

کتاب کا ہر صفحہ بار بار پڑھنے کے لائق اور قاری کے لئے حیرانی اور آگہی کا باعث ہے۔ کتاب میں پیش کیے گئے اہم موضوعات کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ احباب اس اہم ترین کتاب کی طرف متوجہ ہوں اور اسے اپنے دل و دماغ اور لائبریریوں کا حصہ بنائیں۔ کتاب اپنے پیش لفظ اور دیباچے کے علاوہ سات ابواب پر مشتمل ہے۔

پیش لفظ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا ہے۔ پاکستان کے نظام انصاف کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہنے کے باعث آپ کے خیالات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اگرچہ آئین پاکستان کے مطابق جلد، فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان میں ایک سول مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے میں اوسطاً پچیس سال لگ جاتے ہیں۔ مولانا رومؒ کے ایک شعر کا حوالے دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کے قانونی نظام کی بنیاد ہی ٹیڑھی ہے اس لئے جب تک یہ بنیاد ٹھیک نہیں کی جاتی، تب تک کوئی مضبوط اور دیرپا اصلاح ممکن نہیں ہے۔

آپ پاکستان کے مخاصمانہ (adversarial legal system ) عدالتی طریقہ کار کا اسلام اور دنیا کے دیگر ممالک میں رائج تحقیقانہ عدالتی نظام (inquisitorial legal system) سے موازنہ کرتے ہوئے اسلام عدالتی نظام کو بہتر قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں سائل کا کام صرف اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کی شکایت کرنا ہے۔ بقیہ کام ریاستی نظام خود کرے گا۔ اس طریقہ کار میں قاضی کے ہاتھ بندھے نہیں ہوتے بلکہ وہ حقیقت کی تلاش اور انصاف کی فراہمی کے لئے تمام ریاستی وسائل کو استعمال کر سکتا ہے۔ آخر میں آپ نظام انصاف کی ناکامی میں انگریزی زبان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انگریزی زبان کو دفتری زبان کے طور پر رائج رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہیں عوام کو آئین و قانون میں دیے گئے اپنے حقوق کا پتہ نہ لگ جائے۔

کتاب کے دیباچے میں مصنف، جسٹس جواد ایس خواجہ کے خیالات کو آگے بڑھاتے ہوئے مختلف واقعات کی روشنی میں یہ سوال کرتے ہیں کہ پچیس سال بعد اگر کسی مقدمے کا فیصلہ ہو تو کیا اسے انصاف کہا جاسکتا ہے؟ جس بے گناہ کی زندگی کے بیس پچیس سال ضائع ہو گئے اس کا کون ذمہ دار ہے؟ منصف پاکستانی نظام انصاف کی خرابی کی بنیاد برطانوی غلامی کے دور میں مسلط کیے گئے نظام قانون کو قرار دیتے ہیں جسے ہم آج بھی سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

اس نظام قانون کا تعلق صرف عدالت سے نہیں تھا بلکہ یہ ایک پورا نظام زندگی تھا جس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے تک پہنچے۔ اس نظام زندگی نے برصغیر پاک و ہند میں ایک ایسی نسل کو جنم دیا جو اپنی تہذیبی شناخت کے ہر حوالے پر نادم ہے، جو شدید ترین احساس کمتری کا شکار ہے اور جو نظام معاشرت سے لے کر نظام قانون تک ہر معاملے میں صرف اس شے کو معیار حق سمجھتی ہے جس کی جڑیں برطانوی نوآبادیاتی نظام میں پیوست ہوں۔

برطانوی نوآبادیاتی بندوبست کا تعارف کرواتے ہوئے مصنف بیان کرتے ہیں کہ اس نظام کا واحد مقصد اس خطے کو غلام بنانا (تاکہ یہاں کے معاشی وسائل کو برطانیہ منقل کیا جا سکے ) اور اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ کوئی گستاخ 1857 ء کی جنگ آزادی جیسی گستاخی نہ کرسکے۔ اس نظام میں مقامی آبادی کی مشاورت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس نظام میں قانون کا مقصد انصاف فراہم کرنے کی بجائے ایسا ماحول پیدا کرنا تھا کہ مقامی آبادی لڑائی جھگڑے اور چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھی رہے اور آزادی کے لئے کسی مشترکہ جدوجہد کی طرف متوجہ نہ ہو سکے۔ المیہ یہ ہے کہ آزادی کے پچھتر برس بعد بھی ہمارا قانونی، عدالتی، تعلیمی اور انتظامی نظام، غلامی کے نوآبادیاتی دور کا ہی تسلسل ہے جس نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ جب تک دور غلامی کا یہ ڈھانچہ موجود ہے، قوانین میں کسی بھی عنوان سے ہونے والی جزوی اصلاح سے کوئی حقیقی اور دیرپا فائدہ ممکن نہیں ہے۔

پہلے باب کا عنوان ”نوآبادیاتی آزار: پس منظر“ ہے۔ مصنف کے بقول، مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860 ءمیں بنایا گیا، پولیس ایکٹ 1861 ء میں نافذ کیا گیا، ضابطۂ فوجداری 1898 ء جبکہ ضابطۂ دیوانی 1908 ء میں بنایا گیا۔ مصنف ایک اہم نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ مسئلہ صرف قانون کے قدیم ہونے کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ وہ سماجی، سیاسی، معاشی اور تزویراتی پس منظر ہے جس میں یہ قانون سازی ہوئی کیونکہ قانون کی دنیا میں جو کچھ ہوا، وہ غلامی کی اس واردات کا ایک جزو (part) ہے، کل نہیں۔ چنانچہ جزو کو سمجھنے کے لئے پہلے کل (whole) کو سمجھنا ضروری ہے۔

انڈین پینل کوڈ یعنی موجودہ تعزیرات پاکستان کی تیاری ٹامس بے بنگٹن میکالے (لارڈ میکالے ) کے زیر نگرانی ہوئی جو برصغیر میں نوآبادیاتی نظام کی سماجی، تعلیمی اور ثقافتی پالیسی کے فکری معمار بھی تھے۔ میکالے کی فکرو عمل کا جائزہ انہیں ایک انتہاپسند، متکبر اور متعصب انسان ثابت کرتا ہے۔ کارل مارکس نے میکالے کے لئے A Systematic Falsifier of History ”“ کا لقب استعمال کیا یعنی ایسا شخص جو اپنی خواہش اور مفاد کے تحت ایک منظم طریقے سے تاریخ میں جعلسازی کرنے کا عادی ہو۔ ہندوستان کی تعلیمی صورت حال سے متعلق گورنر جنرل کو پیش کیے گئے اپنے 36 نکاتی پروگرام (‏Minute on Indian Education) میں میکالے نے اردو، سنسکرت اور عربی کو پسماندہ زبانوں کے طور پر پیش کیا جن میں کوئی علمی کام نہ ہوا ہو اور انگریزی زبان کو علم اور ترقی کا واحد رستہ بتلایا۔

اسی دستاویز میں میکالے، ہندوستان میں رائج کیے جانے والے تعلیمی نظام کا مقصد ایک ایسے ہندوستانی طبقے کی افزائش کرنا قرار دیتے ہیں جو اپنے رنگ اور خون کے اعتبار سے ہندوستانی ہو لیکن اپنی پسند ناپسند، خیالات، اخلاقی رویوں اور فکری لحاظ سے انگریز ہو۔ بدقسمتی سے آزادی کے پچھتر برس بعد بھی ہمارا نظام تعلیم، میکالے کے طے کردہ مقاصد کو پورا کر رہا ہے اور ہماری سیاست، بیوروکریسی، عسکری اداروں، عدلیہ اور میڈیا پر فکری حوالے سے کالے انگریزوں کا قبضہ ہے۔

لارڈ میکالے جیسے مغربی مفکرین نہ صرف متعصب تھے، بلکہ علمی بددیانتی کے مرتکب بھی تھے جنہوں نے انسانیت کے علمی ارتقاء میں مسلمانوں کی خدمات کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا اور ایسا تاثر پیش کیا جیسے یونانی اور رومی علوم کو آگے بڑھانے کا کام نشاۃ ثانیہ کے بعد مغربی اقوام نے براہ راست شروع کیا اور ساتویں صدی سے لے کر پندرہویں صدی تک مسلمانوں نے سائنس اور فلسفیانہ علوم کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

برطانیہ سمیت مغربی اقوام آج ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کی چیمپئن بنتی ہیں لیکن اسی برطانیہ نے ٹیپو سلطان کو شہید کرنے کے بعد ہندوستان میں 80 ہزار سے زائد شیروں کا بے رحمی سے شکار کیا جس کے نتیجے میں آج یہ جنگلی نوع اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار ہے۔ دوسری طرف ریلوے ٹریک اور فرنیچر وغیرہ تیار کرنے کے لئے جنگلوں کے جنگل صاف کر دیے گئے۔

باب کے آخر میں مصنف مستند دلائل اور اعداد و شمار کی مدد سے ہندوستان کے معاشی استحصال کی تفصیل بیان کرتے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت کو ایک پسماندہ خطے میں بدل دیا گیا۔ یہاں کی صنعت و حرفت اور زراعت کو تباہ کر دیا گیا۔ یہاں کے خام مال اور دولت (آج کے حساب سے 45 ہزار ارب پونڈ) کو ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے برطانیہ منتقل کیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں خوشحالی پیدا ہوئی اور صنعتی انقلاب کے لئے وسائل اور ماحول میسر آ سکا۔ دو سو سال کے اس دورانیے میں ہندوستان جیسا زرخیز خطہ بار بار قحط کا شکار ہوتا رہا جس کے نتیجے میں کم و بیش چار کروڑ انسان بھوک سے مرنے پر مجبور کیے گئے۔ جیسے جیسے انسان اس موضوع کی تفصیل میں جاتا ہے، ویسے ویسے معاشی لوٹ مار پر مبنی اس واردات کی تفصیل انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔

مشرقی اقوام پر قبضے اور ان کے معاشی استحصال کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے سفید فام اقوام کی برتری کا نظریہ تخلیق کیا گیا جس کے مطابق سفید فام لوگ دنیا کی مہذب ترین قوم تھے اور بقیہ تمام اقوام کم عقل اور جاہل تھیں۔ اس لئے ان کا فرض تھا (White Man ’s Burden) کہ وہ بقیہ اقوام کے علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں جہالت سے نکال کر تہذیب سے روشناس کروائیں۔ چاہے اس کے لئے انہیں وہاں کروڑوں لوگوں کا قتل کرنا پڑے، وہاں کی زبان، سیاسی و عدالتی نظم، مقامی روایات اور تہذیب و ثقافت کو تباہ کرنا پڑے، مقامی آبادی کو غلام بنا کر ان کی منڈیاں لگانی پڑیں اور ان علاقوں کے معاشی وسائل کو منتقل کر کے اپنے ہاں مادی ترقیات اور عیش و عشرت کی فضاء قائم کرنی پڑے۔ سفید فام اقوام کی برتری کا یہ نظریہ آج بھی ہمارے ہاں ایک آفاقی سچائی کے طور پر مقبول ہے اور یہی وہ نفسیاتی گرہ ہے جو ہمیں اس نوآبادیاتی ڈھانچے کی گرفت سے نکلنے نہیں دے رہی۔

دوسرے باب کا عنوان ”احساس کمتری:نوآبادیاتی ورثہ؟“ ہے۔ اس باب میں دور غلامی میں پیدا کیے گئے اس تاثر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ انگریز کے آنے سے پہلے ہندوستان میں کوئی قانونی و عدالتی نظام اور قوت نافذہ نہیں تھی اور انگریز نے ہندوستانیوں کو تہذیب سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کو قانون اور انتظامی ڈھانچے سے بھی روشناس کروایا۔ مصنف نے مستند حوالوں سے درج بالا تاثر کو مکمل طور پر غلط ثابت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نوآبادیاتی نظام سے پہلے برصغیر میں قانونی عدالتیں بھی موجود تھیں، تحریری قوانین بھی دستیاب تھے اور ان کو نافذ کرنے کے لئے مستند، فعال اور با اختیار ادارے بھی موجود تھے۔

ہمارے ہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ پر اردو، فارسی، ترکی اور عربی زبانوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ہمارے لئے اجنبی بن چکا ہے اور معتبر صرف وہ ہے جو انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے لیکن انگریزی زبان میں لکھا گیا بیشتر تاریخی مواد نسل پرستی اور دیگر تعصبات کے باعث حقیقت سے دور اور مسخ شدہ ہے۔ چونکہ ہمارے جدید اہل علم اسی انگریزی مواد کو مستند مان کر اپنے خیالات کی ترویج کرتے ہیں اس لئے پورے معاشرے کے فکری رجحانات اسی مسخ شدہ تاریخ پر مبنی ہیں۔

آگے چل کر مصنف نے بیان کیا ہے کہ دین کو صرف چند عبادات تک محدود کرنے کا کام بھی نوآبادیاتی دور ہی کی پیداوار ہے جب کہ حقیقت میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کا تعلق عبادات کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے ساتھ بھی ہے۔ ساتھ میں مصنف نے مسلم دور کی فقہ، قاضی کی مقرری اور اس کے دائرہ کار، عدالتوں کی مختلف اقسام اور عدالتی ڈھانچے کا تعارف کروایا ہے اور مسلم نظام قانون پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ آج بھی ہمارے نظام قانون میں رائج بہت سی اصطلاحات مثلاً دیوانی، فوجداری، وکیل، کوتوال، وقوعہ نویس، تھانہ، چوکی وغیرہ مسلم دور حکومت سے چلی آ رہی ہیں۔

اس حوالے سے برطانوی مصنف سڈنی جے اوون کی گواہی بھی اہم ہے جس کے بقول مغل حکومت اپنی ساری خامیوں کے باوجود بہتر حکومت تھی اور اس کے عدالتی نظام میں ہمارے (یعنی برطانوی نوآبادیاتی) نظام کی طرح تاخیر کا عنصر نہ تھا۔ مصنف یہ اہم نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ مسلم دور حکومت اگر بادشاہی نظام کی وجہ سے لائق تنقید ہے تو برطانوی دور حکومت (جہاں آج بھی بادشاہت کا ادارہ قائم ہے ) کو کس بنیاد پر لائق تحسین قرار دیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ شرعی قانون کے مطابق کوئی شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا جبکہ برطانوی کامن لاء میں بادشاہ کے خلاف کسی کو (فوجداری مقدمے میں ) عدالت جانے کی اجازت نہیں ہے۔

اورنگزیب عالمگیر کے دور میں فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے نافذ کی گئی پالیسیاں بھی آج ہمارے لئے مشعل راہ ہیں جن میں کسی شخص کو گرفتار یا قید کرنے کے لئے پہلے قاضی سے اجازت لینا پڑتی تھی اور مقدمے کو جلد از جلد طے کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جاتی تھی تاکہ متاثرہ فریق کو انگریز کے بنائے گئے نظام قانون کی طرح کئی کئی سال عدالتوں کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔ باب کے آخر میں مصنف نے ہمارے احساس کمتری کو نوآبادیاتی ورثہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم برصغیر میں مسلم دور حکومت کے حوالے سے حقائق کی تلاش کریں، اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کریں اور اپنی دھرتی پر قابض ہونے والی اور اس کا استحصال کرنے والی غاصب طاقت کی طرف سے لکھی گئی تاریخ کو معیار سمجھنے کی بجائے اپنی تاریخ کو خود مرتب کریں۔

تیسرے باب کا عنوان ”برصغیر کا اسلامی نظام قانون:چیئرمین ایسٹ انڈیا کمپنی کی گواہی“ ہے۔ دوسرے باب میں مسلم دور حکومت کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں، ان کے ثبوت کے لئے اس باب میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چیئرمین سر آرچی بیلڈ گیلوے کی گواہی پیش گئی ہے کیونکہ ایک مقولے کے مطابق اصل خوبی وہی ہوتی ہے جسے آپ کا دشمن بھی قبول کرے۔ آرچی بیلڈ گیلوے 1810 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر بنے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے 1849 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ تزویراتی (geo۔ strategic) امور اور قانون کے ماہر تھے جبکہ اسلامی قوانین اور حنفی فقہ سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔

ہندوستان میں گزارے 38 سال کے عرصے میں آپ نے جنگوں میں حصہ بھی لیا اور مختلف طرح کے انتظامی امور بھی دیکھے۔ اس دوران آپ نے یادداشتیں بھی لکھیں، عسکری امور پر قلم بھی اٹھایا اور مسلم قوانین اور فقہ کی شرحیں بھی لکھیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر پانچ کتابیں لکھیں جن میں سے مسلم دور حکومت اور مسلم نظام قانون پر لکھی دو کتابیں آج دستیاب نہیں ہیں۔ شاید یہ کتابیں جان بوجھ کر منظر عام سے ہٹائی گئیں تاکہ مسلم تاریخ کو مسخ کرنے کا برطانوی پراجیکٹ کسی رکاوٹ کے بغیر کامیاب ہو سکے۔ ان کی دستیاب کتابوں میں سے ایک اہم کتاب ”Observations on the Law and the Constitution and present Government of India“ ہے۔ یہ کتاب ایسے زمانے میں لکھی گئی جب انگریز ہندوستان میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کے لئے قانون سازی کر رہے تھے۔

اس کتاب میں گیلوے نے تقریباً نو سو سال کے تحریری قوانین کا حقائق اور واقعات کی روشنی میں جائزہ لینے کے بعد بیان کیا ہے کہ اس پورے دورانیے میں ہندوستان میں صرف اسلامی قانون (محمڈن لاء) ہی نافذ رہا۔ اس حوالے سے گیلوے، اورنگزیب کے دور میں تیار کیے گئے فتاویٰ عالمگیری کو اہم ترین دستاویز قرار دیتے ہیں جسے ہندستانی سلطنت کا تحریری آئین اور قانون بھی کہا جاسکتا ہے۔ گیلوے کے مطابق اورنگزیب کے تعینات کردہ قاضیوں کے سامنے وہاں کے گورنر بھی سر تسلیم خم کرتے تھے۔

انگریزوں نے اپنے دور میں ہندو مذہب کی روایات کو ”ہندو قانون“ کے طور پر پیش کرنے کی بھونڈی کوشش بھی کی تاکہ اسے اسلامی قانون کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکے۔ گیلوے کے مطابق ایک فرد کے حقوق کی درست تعریف متعین کرنے، طریقہ استدلال، نظام قانون اور فلسفہ قانون کے باب میں محمڈن لاء، انگلش اور رومن لاء کے مقابلے میں زیادہ کامل اور برتر تھا اور اسی لئے برطانوی قانون ساز افراد کے لئے اسلامی قانون کا مطالعہ انتہائی مفید ثابت ہو سکتا تھا۔ گیلوے برطانوی قوانین کی مختلف کمزوریاں اور مسائل بیان کرتے ہوئے اسے ہندوستان میں نفاذ کے لئے نامناسب خیال کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہندوستان میں کون سا قانون نافذ کیا جائے تو میرا فوری جواب ہو گا : ”محمڈن لاء“ ۔

باب کے آخر میں مصنف نے ایک متوازن اور پر اعتماد سماج کی تشکیل کے لئے ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر انسانی ارتقاء، تاریخی تسلسل اور دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سب اقوام کی خوبیوں کو اپنانے اور خامیوں سے بچنے کی کوشش کرنے پر زور دیا ہے۔

چوتھے باب کا عنوان ”پولیس: پاکستان کی یا ملکہ وکٹوریہ کی؟“ ہے۔ اس باب میں مصنف ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف دلاتے ہیں کہ پاکستان کی پولیس، آزادی کے بعد بھی 1861 ء کے پولیس ایکٹ کے تحت ہی کام کر رہی ہے۔ اگر برصغیر میں پولیس بنانے کا حقیقی مقصد عوام کی جان و مال کا تحفظ، امن و امان کا قیام اور رول آف لاء کا حصول ہوتا تو پولیس کا ڈھانچہ سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے ماڈل یا پھر 1829 ء اور 1839 ء کے میٹروپولیٹن ایکٹ سے بھی استفادہ کیا جاسکتا تھا۔

لیکن یہ ایکٹ برصغیر کی عوام کو اس طور پر غلام رکھنے کے لئے بنایا گیا تھا کہ ان میں سے کوئی شخص آزادی کی جدوجہد کا سوچ بھی نہ سکے۔ یہ ایکٹ چھ رکنی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں بنایا گیا جس میں سے کوئی ایک رکن بھی ہندوستانی نہیں تھا۔ پولیس کا یہ ڈھانچہ آئرش کانسٹیبلری کی ہوبہو نقل ہے جو کہ آئرلینڈ کی جنگ آزادی کو کچلنے کے لئے بنائی گئی تھی۔

1902 ء میں پولیس کی کارکردگی جانچنے کے لئے ایک کمیشن بنایا گیا جس نے تسلیم کیا کہ مغلوں کے دور میں بنایا گیا پولیس کا نظام یہاں کے لوگوں کی ضروریات اور مسائل حل کرنے کے حوالے سے ایک مناسب ترین نظام تھا۔ بنگال کے گورنر جان زیفینایا ہول ویل اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے چیئرمین آرچی بیلڈ گیلوے بھی مغلوں کے دو میں مثالی امن و امان کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں لوگوں کی جائیداد اور آزادی کا تحفظ حکومت کے ذمے ہے، کبھی کسی ڈکیتی کا نہیں سنا گیا، یہاں تک کہ اگر کوئی مسافر بھی کسی ضلع میں آ جائے تو اس کی حفاظت اور رہائش کی فراہمی بھی حکومت کے ذمے ہوتی ہے۔ لیکن اس نظام کی اصل کمزوری یہ تھی کہ یہ انگریز کے قبضے کو برقرار رکھنے کی سیاسی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا تھا۔

انگریز کے قبضے سے پہلے اسلامی قانون کے مطابق زمین ریاست کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ ریاست یہ زمین مختلف لوگوں میں عارضی بنیادوں پر تقسیم کرتی۔ اس زمین پر رہنے والے انسانوں کی ضروریات پوری کرنا اور علاقے میں امن و امان قائم کر رکھنا، ان افراد کے ذمے ہوتا تھا۔ یہ زمین وراثت میں منتقل نہ ہو سکتی تھی۔ لیکن انگریز نے یہاں کے غداروں کو نوازنے کے لئے مستقل بنیادوں پر زمینیں بانٹ کر جاگیرداری نظام پیدا کیا۔ حالانکہ یہی انگریز اپنے ملک میں سے جاگیرداری نظام ختم کر رہے تھے۔

ہندوستان میں بنائی گئی نوآبادیاتی پولیس کا ڈھانچہ نیم عسکری یعنی پیرا ملٹری فورس کی طرز کا تھا۔ اس کا واحد کام بالائی افسران کے حکم کی تعمیل تھا۔ یہ نیم فوجی طاقت غیر معمولی اختیارات سے لیس اور احتساب کے خطرے سے بے نیاز تھی۔ عوام سے اس پولیس کا تعلق خوف اور تشدد کی بنیاد پر قائم تھا۔ یہاں کا قانون پیچیدہ اور اجنبی زبان میں تھا جس سے عوام کی اکثریت ناواقف تھی۔ محکمے میں کامیابی کا بنیادی وظیفہ حاکم کی خوشنودی تھا۔ جب تک حاکم کی مرضی ہوتی پولیس افسر اپنے عہدے پر قائم رہتا۔ ورنہ آج ایک شہر تو کل دوسرے شہر۔ چنانچہ اس پولیس کی نفسیاتی تشکیل ہی ان خطوط پر ہوئی کہ عوام کو دبا کر رکھنا ہے اور حاکم کی ہر جائز ناجائز بات پر عمل کرنا ہے۔

مذکورہ پولیس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق برصغیر میں برطانوی سامراجی پولیس ظالم، بدعنوان، سفاک، نا اہل اور کام چور ہے جس کا طرز عمل لوگوں کے لئے ایک ناقابل برداشت بوجھ جن چکا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہو گیا ہے اور لوگوں کا ریاستی مشینری پر انصاف اور امن وامان کی فراہمی کے حوالے سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ پولیس سے جتنا ممکن ہو، دور رہا جائے۔ یہ پولیس شرفاء اور معززین کی تذلیل کرتی ہے اور بے گناہ اور معصوم لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

جب کوئی شخص اپنی شکایت لے کر اس کے پاس آئے تو ”فیس“ وصول کیے بغیر یہ شکایت تک درج نہیں کرتی۔ اگر کسی مقدمے کو اپنی مرضی کا رخ دینے کے لئے شواہد نہ ملیں تو وہ جعلی اور جھوٹی شہادتیں بھی تیار کر لیتی ہے۔ رپورٹ کے آخر میں کمیشن نے صاف لکھ دیا کہ معاملات کو چلانا برطانوی پولیس کے بس کی بات نہیں ہے۔ غرض یہ کہ یہ رپورٹ انگریز کی بنائی گئی پولیس کے خلاف فرد جرم سے کم نہیں ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس رپورٹ کو پڑھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ ایک سو بیس سال پرانی نوآبادیاتی پولیس کی بات ہو رہی ہے یا آج کی پاکستانی پولیس کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آمریت، خوف، حکمرانوں کی آلۂ کاری اور احتساب سے بالاتری کے اصول پر قائم ملکہ وکٹوریہ کے اس ڈھانچے سے نجات حاصل کی جائے اور پولیس کا ایک ایسا نظام بنایا جائے جو عوام کو رعایا کی بجائے شہری سمجھے اور جس کا رویہ برابری، احترام اور تحفظ کے احساس پر مبنی ہو۔

پانچویں باب کا عنوان ”نوآبادیاتی قانون: غلامی کی ’مدون‘ دستاویز“ ہے۔ اس باب میں مصنف بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں رائج بیشتر قوانین بشمول مجموعۂ تعزیرات پاکستان ( 1860 ء) ، ضابطۂ فوجداری ( 1898 ء) ، مجموعہ ءضابطہ دیوانی ( 1908 ء ) ، لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ ( 1894 ء) ، کنٹریکٹ ایکٹ ( 1872 ء) وغیرہ، انگریز کے دور غلامی کی پیداوار ہیں جنہیں بناتے وقت مقامی آبادی سے کسی سطح پر کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ان قوانین کا بنیادی ڈھانچہ عوام دوست نہیں، بلکہ سامراجی ہے۔

کیا یہ ایک آزاد ملک کے شایان شان ہے کہ اس کے قوانین کسی دوسری قوم نے کہیں اور بیٹھ کر دور غلامی میں اس پر مسلط کیے ہوں؟ کیا یہ بات شرف انسانی سے کم تر درجے کی نہیں ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار ملک، دور غلامی کے قوانین سے اپنے معاملات نپٹا رہا ہو اور وہ اپنے لئے اپنی تہذیب و اقدار اور روایات سے ہم آہنگ قانونی ڈھانچہ بھی نہ بنا سکے؟

دوسری طرف یہاں کی افسر شاہی، اپنے فرسودہ قوانین کے ساتھ ابھی تک برطانوی دور میں رہ رہی ہے اور عوام کو شہری کی بجائے رعایا سمجھتی ہے۔ برطانیہ نے تو ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندوستان میں کام کرنے والے برطانوی افسران سے جان چھڑوا لی کہ ہمیں پبلک سرونٹ چاہیں، آقا نہیں۔ لیکن ہم پاکستان میں ایسا کچھ نہ کرسکے۔ وہی زبان، وہی بول چال، وہی رہن سہن، وہی مقامی لوگوں سے نفرت و حقارت، وہی شاہانہ اخراجات، تنخواہیں، مراعات اور طور اطوار۔ غرض یہ کہ ہر شے دور غلامی کی افسر شاہی جیسی ہی ہے۔

آگے چل کر مصنف پاکستان میں فوجداری قانون کی خرابیوں کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں جس کے مطابق کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لئے محض شک اور الزام بھی کافی ہے۔ اس بات کی تفتیش بعد میں ہوتی رہے گی کہ وہ شک اور الزام درست تھے یا غلط! گرفتاری کے نتیجے میں اس شخص کی عزت نفس اور معاشرے میں شہرت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ، قانون کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ جسمانی ریمانڈ کی صورت میں ملزم پر بدترین نوعیت کا تشدد اور اس کے نتیجے میں ملزم کا ہلاک ہوجانا بھی معمول کی کارروائی ہے۔

جو آدمی جیل میں مہینوں یا سالوں رہنے کے بعد بے گناہ قرار پائے، اس کے کرب و اذیت اور معاشی نقصانات کا حساب کون دے گا۔ پاکستان کی جیلوں میں 65 فی صد سے زائد ایسے لوگ قید ہیں جو عدالتوں سے فیصلہ ہونے کے منتظر ہیں۔ جیلوں میں سہولیات کا فقدان اور گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی ایک مستقل مسئلہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بسا اوقات تین آدمیوں کے لئے بنائے گئے سیل میں پندرہ پندرہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔

اس طریقہ کار نے بدمعاش گروہوں میں جھوٹے مقدمات درج کروانے کے رجحان کو فروغ دیا ہے جبکہ شریف عوام کے ذہن میں ایک خوف پیدا کر دیا ہے کہ سچ اور جھوٹ کا تو بہت بعد میں جاکر فیصلہ ہو گا لیکن کسی بھی تنازع میں پھنس جانے کی صورت میں حوالات سے جیل اور پھر تھانہ کچہری کی مسلسل تذلیل برداشت کرنی پڑے گی۔ اس لئے وہ کسی بھی معاملے میں انصاف کے حصول کے لئے پولیس اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہیں۔

اگرچہ آئین پاکستان، شہریوں کو اپنی رائے کے اظہار اور اجتماعی جدوجہد کی آزادی دیتا ہے لیکن نوآبادیاتی دو رکے قوانین ان آزادیوں کو محدود تر کر دیتے ہیں۔ پولیس کے ذریعے عوام اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو آزادانہ رائے کے اظہار اور سیاسی جدوجہد کو روکنے کے لئے حکومتیں دفعہ 144 اور دفعہ 124 اے جیسے کالے قوانین کے تحت امن عامہ کو لاحق خطرات اور ریاست، آئین اور حکومت کی توہین یا غداری جیسی مبہم اصطلاحات کو استعمال کرتی ہیں۔

اگر پاکستان میں رائج لینڈ ایکوزیشن ایکٹ ( 1894 ء) کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی نا انصافی اور ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس قانون کے بعد حکومت اور نجی کمپنیاں مفاد عامہ کے نام پر کسی بھی فرد کی زمین اس کی مرضی کے بغیر چھین سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ فرد کو اس زمین کے بدلے میں ”معقول“ معاوضہ دیا جائے گا۔ اپنی زمین سے محروم ہونے کے نتیجے میں وہ فرد یا گروہ ممکنہ طور پر جن معاشی، ثقافتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو گا، مذکورہ قانون کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں یہ ظالمانہ قانون منسوخ ہو چکا ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا استعمال دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ کسی سیٹھ کا رہائشی منصوبہ بھی ہمارے قانون سازوں نے ’مفاد عامہ‘ میں شامل کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں لینڈ مافیا، دیہاتیوں کو ان کی سر سبز زمینوں سے بے دخل کر کے اشرافیہ کے لئے ہاؤسنگ کالونیاں تعمیر کر رہی ہے۔

مختصراً ًیہ کہ اس نوآبادیاتی بندوبست میں نہ کسی فرد کی شخصی آزادی محفوظ ہے، نہ ہی عملا آزادی رائے دستیاب ہے، نہ کسی مظلوم کے لئے عدل و انصاف کا حصول ممکن ہے اور نہ ہی کسی کی جائیداد کو تحفظ حاصل ہے۔ اس نوآبادیاتی قانونی ڈھانچے کے حق میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ برصغیر میں انگریز نے ضابطہ دیوانی و فوجداری، فوجداری قوانین اور قانون شہادت کو مدون (codify) کیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود برطانیہ میں یہ قوانین اور ضابطے آج بھی مدون شکل میں موجود نہیں ہیں۔

چھٹے باب کا عنوان ”نظام قانون یا نظریہ غلامی؟“ ہے۔ اس باب میں مصنف نے پاکستانی تاریخ کے ایک اہم واقعے کی تفصیلات بیان کی ہیں جسے مولوی تمیزالدین کیس کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے نے پاکستانی سیاست میں بیوروکریسی، عدلیہ اور فوج کے کردار میں بے پناہ اضافہ کر دیا جسے ختم کرنے کی کوئی ترکیب آج بھی کارگر نہیں ہو پا رہی۔ 1954 ءمیں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے پہلے تو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا اور پھر عین اس وقت جب دستور ساز اسمبلی پاکستان کے پہلے آئین کا مسودہ پیش کرنے والی تھی، گورنر جنرل نے اسمبلی ہی توڑ دی۔

اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ گورنر جنرل نے اپنے اقدام کے حق میں یہ دلیل دی کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست نہیں ہے۔ یہاں حاکمیت اعلی ٰملکہ الزبتھ کے پاس ہے اور ملکہ کے نمائندے کے طور پر گورنر جنرل کے کسی اقدام کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرچارج کانسٹنٹائن نے گورنر جنرل کے اس اقدام کے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسمبلی کو بحال کر دیا۔

گورنر جنرل نے اس فیصلے کو فیڈرل کورٹ (تب کی سپریم کورٹ) میں چیلنج کر دیا جہاں چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پاکستان کی اعلی ٰترین عدالت نے گورنر جنرل کے اس موقف کو تسلیم کر لیا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست نہیں ہے اور برطانوی بادشاہت کے نمائندے یعنی گورنر جنرل کے سامنے یہاں کی پارلیمان کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اس فیصلے میں واحد اختلافی نوٹ جسٹس کارنیلیس کا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریز جج صاحبان تو پاکستان کو آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن پاکستانی مسلمان جج، آزادی کے نو سال بعد بھی اپنے ملک کو برطانوی بادشاہت کے ماتحت ایک ایسا خطہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے جہاں ملکہ کا نمائندہ ہر طرح کے قانون سے بالاتر تھا۔ یہاں سے پاکستان کے ریاستی اداروں (سول و ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، مقننہ) میں کام کرنے والی اشرافیہ کی غلامانہ ذہنیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسے لارڈ میکالے کے تعلیمی، قانونی اور سماجی نظام نے جنم دیا تھا اور جو (نمائشی) آزادی کے ان پچھتر سالوں میں تھوہر کا تناور درخت بن چکی ہے۔

اس ذہنیت کا اظہار، وکلاء سخت گرمی میں کالے کوٹ پہن کر عدالتوں میں ججوں کو مائی لارڈ جیسے القابات سے مخاطب کر کے کرتے ہیں، انصاف مانگنے والے کو آج بھی ”سائل“ کہ کریہ باور کروایا جاتا ہے کہ انصاف کا حصول اس کا حق نہیں، بلکہ اس پر ایک احسان ہے اور سکولوں میں بچوں کو چھٹی کی درخواست لکھتے وقت بھی مؤدبانہ انداز میں ”I beg to say“ سے آغاز کروا کر منت سماجت اور محکومانہ ذہنیت کا حامل بنایا جاتا ہے۔ دوسری طرف بیوروکریسی کہنے کو تو ”سول سرونٹ“ یعنی عوام کی خدمتگار ہے لیکن حقیقت میں یہ طبقہ عوام کو حقیر اور جاہل سمجھتے ہوئے ان سے مخصوص فاصلے پر رہتا ہے۔ ایک عام شہری کو ان افسران تک پہنچنے کے لئے آج بھی ویسے معززین ہی کی حاجت رہتی ہے جنہیں نوآبادیاتی دور میں ”کرسی نشیں“ کا درجہ دیا گیا تھا۔ اسی رویے اور مجبوری نے ”تھانہ کچہری“ کے کلچر کو جنم دیا ہے جو ہماری قومی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

ساتویں اور آخری باب کا عنوان ”یہ احساس کمتری کب تک؟“ ہے۔ اس باب میں مصنف بیان کرتے ہیں کہ دور غلامی میں خصوصی طور پر ایسی متعصب تاریخ نویسی کروائی گئی اور تعلیمی نظام کے ذریعے ایسے نصاب اور رسم و رواج (زبان، کھانا پینا، لباس وغیرہ ) کی ترویج کی گئی جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ گھٹیا اور احمق ہیں اور ان کی تاریخ میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو کہ قابل فخر ہو۔ جبکہ مغرب سے آنے والی ہر شے برتر اور برحق ہے جسے من و عن اپنانے میں ہی کامیابی ہے۔

نوآبادیاتی نظام قانون کے نقصانات سے بچنے کا واحد حل، اسے جڑ سے اکھاڑ کر ایک نیا نظام قانون متعارف کروانا قرار دیتے ہیں ورنہ جزوی اصلاح کی تمام کوششیں ناکام ہی رہیں گی جیسے ماضی میں قوانین کو اسلامائز کرنے اور آئین میں انسانی حقوق کے حوالے سے شقیں شامل کرنے کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ چنانچہ ایک آزاد اور منصفانہ سماج کی تشکیل کی طرف سب سے پہلا قدم سماج کی فکری اور نفسیاتی گرہوں کو کھولنا ہے۔ مصنف احساس کمتری سے نکلنے کے اس عمل میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے کردار کو مرکزی سمجھتے ہیں۔

کتاب کے مطالعے کے دوران دو نکات کے حوالے سے گفتگو کی کمی محسوس ہوئی۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ مصنف نے پاکستانی عدلیہ، بیوروکریسی اور جاگیردار طبقے کو بجا طور پر نوآبادیاتی دور کا تسلسل قرار دیا لیکن یہاں وہ پاکستان کی ابتدائی سیاسی قیادت اور بالخصوص مسلم لیگ کا ایک سیاسی جماعت کے طور پر جائزہ نہ لے سکے۔ کیا تمام مسائل کا ملبہ قائد اعظم کی جلدی وفات پر ڈالا جاسکتا ہے؟ مسلم لیگ کی بقیہ قیادت کس مرض کی دعا تھی؟ اس کا تاریخی پس منظر، ذہنیت اور مجموعی کردار کیا رہا؟

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مصنف جن طبقات اور اداروں کو تمام مسائل کی جڑ قرار دے رہے ہیں، انہی طبقات اور اداروں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کر کے نظام کو سدھار بھی لیں گے۔ اس حوالے سے کسی متبادل نظریے پر نوجوانوں میں قومی شعور کی آبیاری اور ایک عوامی قیادت کی تیاری کے حوالے سے بھی تشنگی کی کیفیت غالب رہی۔

کتاب کو شیبانی فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے اور آن لائن ذریعے سے آٹھ سو روپے (مع ڈاک خرچ) میں دستیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments