انسان ہوں کسی کی جاگیر نہیں


ہر سال مارچ کا مہینہ آتے ہی حقوق نسواں کا عالمی دن اور پھر نا ختم ہونے والی بحث کا آغاز۔ اس کی تازہ مثال سندھ ہائی کورٹ میں عورت مارچ پر پابندی لگوانے کی درخواست اور اس کا کورٹ کی جانب سے رد کیا جانا، پھر مہینہ ختم ہونے تک جوش کا ماند پڑ جانا ہمارے لیے معمول کی بات بنتی جار ہی ہے۔ اس سال کا عنوان ہے صنفی مساوات کے لیے جدت اور ٹیکنالوجی۔

ہمارے ہاں صنفی عدم مساوات اور غذائیت کی کمی کے اثرات بچے کی پیدائش سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ عقائد کی تبدیلیوں کے باوجود لڑکی کی پیدائش پر جشن نہیں منایا جاتا۔ لڑکیوں کو کم خوراک دینے کی وجہ ان کی بلوغت کی رفتار کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ انہیں جنسی ہراسانی اور مردوں کی نظروں سے جتنا ممکن ہو محظوظ رکھا جا سکے۔ لڑکی کو ہمیشہ پرایا دھن اور لڑکے کو وارث اور والدین کے بڑھاپے کا سہارا مانا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکے کو اعلی تعلیم، اچھی خوراک دی جاتی ہے جبکہ لڑکی کو ان چیزوں سے وسائل کی کمی کا بہانہ بنا کر پیچھے رکھا جاتا ہے۔ بہت سے گھروں میں آج بھی عورتیں گھر کے مردوں کو کھانا کھلانے کے بعد بچا کھچا کھاتی ہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آئے روز خواتین پہ گھریلو تشدد کی خبریں جنہیں گھریلو یا ذاتی معاملہ کہہ کے ٹال جاتا ہے۔ ہراسانی اور ریپ کے واقعات جس میں متاثرہ فرد کو ہی مورد الزام ٹھہرا یا جا تا ہے یا پھر وہ خود کو اس کا ذمہ دار مانتے ہوئے رپورٹ درج کرانے سے کتراتی ہیں۔ ذہنی اور جذباتی اذیت جو زبانی یا غیر زبانی طریقے سے پہنچائی جاتی ہے اس سوچ کی چیخ چیخ کر عکاسی کر رہے کہ مرد نے خود سے سمجھ لیا اور معاشرے نے مان بھی لیا ہے کہ عورت ایک کمتر مخلوق ہے۔

اسے ہر صورت محکوم بن کے رہنا ہے۔ اور کسی بھی جرم، ظلم زیادتی کی صورت میں وہ خود اس کی ذمہ دار ہے جبکہ اس پہ ظلم کرنے والا مکمل طور پہ درست ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد کی مردانگی اپنے سے کمزور پر ظلم و تشدد کرنے سے ہی ثابت ہوتی ہے جس کی واضح مثال معاشرے میں عورتوں اور بچوں کے خلاف بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح ہے۔

پاکستان کی 44 عدالتوں میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے تقریباً 1,301 کیسز میں سے صرف چار فیصد مقدمات کی سماعت ہوئی جب کہ میڈیا نے 2022 میں تقریباً 350 کیسز رپورٹ کیے۔ 2022 میں گھریلو جرائم کے 63,367 سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے اور ان میں غیر رپورٹ شدہ جرائم کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

عالمی اعداد و شمار کے مطابق، دس میں سے نو خواتین ( 92 %) نے رپورٹ کیا ہے کہ آن لائن تشدد ان کی فلاح و بہبود کے احساس کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایک تہائی سے زیادہ ( 35 %) کو آن لائن تشدد کی وجہ سے ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مواصلاتی تشدد ان خواتین اور لڑکیوں کے پیشہ ورانہ اور ذریعہ معاش کو متاثر کرتا ہے جو آن لائن اور سوشل میڈیا کی جگہوں پر انحصار کرتے ہیں۔

ایک غیر سرکاری ادارہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 32 فیصد خواتین ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ان میں سے نصف خواتین کسی سے اس بارے میں بات ہی نہیں کرتی کہ وہ کس اذیت سے گزری ہیں یا پھر گزر رہی ہیں ۔ اب اگر بات کریں اقلیتی خواتین کی تو وہ دوہری اذیت کا سامنا کرتی ہیں عورت اور وہ بھی اقلیتی عورت۔ 97 فیصد اقلیتی خواتین کو کام کرنے والی جگہوں پر اپنا مذہب چھوڑ کر اکثریتی مذہب اختیار کرنے کی دعوت تو جیسے ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر مرد ایسا کیوں کرتا ہے؟ وہ عورت کو یا پھر معاشرے کو کیا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کی تازہ مثال اسپین کے ایک شخص کو ٹک ٹاک پر اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بنانا ہے جس پر عدالت نے ایک سال قید کی سزا سنائی گئی حالانکہ متاثر خاتون نے پولیس میں شکایت درج کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت کا موقف تھا کہ سرعام جب اس طرح کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کے لیے متاثرہ کی جانب سے شکایت درج کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ تشدد کا سرعام ہونا ہی حکام کے لیے کافی ہے کہ وہ آگے بڑے اور متاثرہ کی مدد کرے۔ ایسے ہوتے ہیں معاشرے جو سب کو برابر کا انسان مانتے اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر خالد سہیل مشرقی مردوں کی جنسی نفسیات کے بارے میں ماہرین نفسیات کا حوالہ دیتے ہیں جن کے نزدیک ایسے مرد نفسیاتی بیماری کا شکار ہوتے ہوتے جو قابل فکر ہے۔ ایسے مرد جس عورت کا دل سے احترام کرتے ہیں اسے مقدس اور پاکباز سمجھتے ہیں جبکہ جن سے رومانی و جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں انہیں بدکردار طوائف سمجھتے ہیں ان کے نزدیک عورت سب کچھ ہے لیکن انسان نہیں۔ ایسے مردوں کی ہمارے اردگرد کوئی کمی نہیں پائی جاتی۔ جن کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کی زندگیاں ذہنی اور جسمانی عتاب کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ تب ڈاکٹر کو رجوع کرتے ہیں ہیں جب مرض حد سے بڑھ جائے یا پھر مریض تشدد پر اتر آئے۔

اس صورتحال کا ایک اور افسوس ناک نتیجہ حکومت پاکستان کی وزارت نارکوٹکس کنٹرول کے سروے کے مطابق 2022 کے دوران تقریباً 6 فیصد آبادی یعنی 9 فیصد بالغ مرد اور 2 ، 9 فیصد بالغ خواتین ( 6 ، 7 ملین افراد) شراب اور تمباکو کے علاوہ دیگر نشے یا مادے کے عادی افراد کی تعداد ہے۔ جبکہ پاکستان میں شراب حرام اور غیر قانونی تصور کی جاتی ہے۔

خواتین کے تحفظ کے لیے تین بل منظور کیے گئے ہیں (گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) بل، 2021، خواتین کے املاک کے حقوق کے نفاذ (ترمیمی) بل، 2021 اور کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ (ترمیمی) بل، 2022 ) ۔

مندرجہ بالا صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے چند سفارشات ذیل میں درج ہیں :

·بچپن سے ہی بچوں کے ساتھ برابری کا سلوک روا رکھا جائے اور بیٹی ہو یا بیٹا دونوں کو مناسب خوراک، تعلیم اور مواقع فراہم کیے جائیں۔

·موسمیاتی تبدیلی سے متعلق فیصلہ سازی کی تمام سطحوں پر خواتین کی نمائندگی، صحت اور تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کیا جائے

·خواتین کے تحفظ کے لیے جو بل منظور ہوئے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

·قوانین میں ایسی ترامیم کی جائیں جن سے مثبت نتائج برآمد ہوں اور معاشرے میں تمام لوگوں کو برابر کا شہری مانا جائے۔

·زیادہ سے زیادہ ماہر نفسیات سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں تعینات کیے جائے تاکہ لوگوں کا نفسیاتی علاج ممکن ہو۔

اس مرتبہ خواتین نے 60 نکات پر مبنی سفارشات عورت مارچ کے دن پیش کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے اور امید بہار رکھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).