وطن عزیز میں بڑھتا خلفشار


جبلی طور پر آج بھی اس ”صحافت“ کا نمائندہ ہوں جس میں کسی رپورٹر کی دی ”خبر“ کم از کم پانچ چھلنیوں سے گزر کر اخبار میں چھپتی رہی ہے۔زمانہ مگر اب بدل چکا ہے۔”خبر“ ان دنوں فقط وہی ہے جو خلق خدا کے ہاتھ میں موجود موبائل فون کی سکرین پر سب سے پہلے نمودار ہو۔اس حقیقت کے تناظر میں جائزہ لیں تو بدھ کے دن لاہور اور اسلا م آباد میں پولیس نے بہت ظلم کیا ہے۔پنجاب میں اس کی ”وحشت“ کا نشانہ تحریک انصاف کے کارکن تھے جو نظر بظاہر ایک پرامن ریلی کی صورت اپنے قائد کے زمان پارک والے آبائی گھر کے باہر جمع ہونے کے بعد داتا دربار جانا چاہ رہے تھے۔ پولیس نے مگر انہیں ہر صورت روکنے کی ٹھان لی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تصاویر پر اعتبار کریں تو عاشقان عمران کی ریلی روکنے کے لئے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال ہوا۔ خواتین بھی اس سے محفوظ نہ رہیں۔ ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے واٹر کینن استعمال ہوئے۔ آنسو گیس بھی کئی باربرسائی گئی۔ اپنے ساتھ ہوئے سلوک کو تحریک انصاف کے بے تحاشہ کارکن موبائل فونوں سے کئی تصاویر کی بدولت ٹویٹر اور واٹس ایپ کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ دنیا کے روبرو لاتے رہے۔ ان کی کاوشوں نے جو سماں بنایا عمران خان صاحب کو اس نے لاہور کو ”مقبوضہ“ پکارنے کو اکسایا۔پنجاب پولیس ان کی دانست میں مودی سرکار کی مقبوضہ کشمیر میں پھیلائی دہشت کی نقالی میں مصروف ان کے دبنگ وفادار فواد چودھری صاحب کو جنرل ڈائربھی یاد آگئے جوامرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہوئے سانحہ کا خوں خوار ذمہ دار تھا۔

محسن نقوی ان دنو ں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ نیویارک میں تین دن صرف کئے ہیں۔ ذاتی ملاقاتوں میں انتہائی نرم دل ،کم گو،شائستہ اور دوستوں کی ناز برداری کو کسی غرض کے بغیرہمہ وقت آمادہ شخص محسوس ہوئے۔ ان سے ملاقات کا اس کے بعد کبھی موقعہ نصیب نہیں ہوا۔ ایک دوبار ٹیلی فون پر البتہ مختصر گفتگو ہوئی ہے۔

محسن نقوی سے ہوئی ملاقاتوں میں دریافت یہ بھی ہوا کہ موصوف میڈیا کی بدولت پیغام رسانی کے سنجیدہ طالب علم اور کھلاڑی ہیں۔بدھ کے روز میرے موبائل فون پر لاہور میں پولیس کی جانب سے برپا”غارت گری“ کے جو مناظر بلاتوقف نمودار ہوتے رہے انہیں دیکھتے ہوئے امیدباندھی کہ ان کی حکومت سرعت سے کوئی ”جوابی بیانیہ“ تیار کرے گی۔ وہ اگر موبائل فونوں پر نمودار ہونا شروع ہو گیا تو شاید کچھ لوگ یہ بھی جان لیں گے کہ لاہور پولیس جارحانہ رویہ اختیار کرنے کو کیوں ”مجبور“ ہوئی۔ اس جانب توجہ دینے کی مگر ان کی نگرانی میں چلائی حکومت نے توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔

نگران حکومت کے اپنائے تغافل سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ان افراد کا رویہ تھا جو سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے بیانیے کو ”کاﺅنٹر“ کرنے کو ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں۔”انقلابی نس (بھاگ)گئے“ ان کا بنیادی پیغام تھا۔ان میں سے چند نے مگر تحریک انصاف کے ڈنڈا بردار کارکنوں کے جتھوں کی وڈیوز لگاتے ہوئے یہ پیغام پھیلانے کی کوشش بھی کی کہ پولیس کو طاقت کے وحشیانہ استعمال کے لئے ”اشتعال“ دلایا گیا تھا۔یہ پیغام مگر مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافی کو بھی قائل نہ کرپایا جو تحریک انصاف کا دیرینہ ناقد ہے اور اپنے رویے کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے مذکورہ جماعت کی سپاہ ٹرول کی جانب سے شریف خاندان سے لفافے اور ٹوکرے وصول کرتے ہوئے ناقابل علاج حد تک بدعنوان ہوچکا ہے۔ قابل اعتبار صحافی نہیں رہا۔

اپنی ساکھ کو میں نے ہر صورت برقرار رکھنے کے لئے سو دکھ جھیلے ہیں۔تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے اسے کاری ضرب لگائی۔اس کی وجہ سے مجھے جو دکھ پہنچا اس کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔ اس کے باوجود اگر مجھ جیسا شخص بھی بدھ کے روز تحریک انصاف کے ساتھ لاہور میں ہوئے سلوک سے پریشان ہوگیا تو واحد وجہ اس کی وہ رعونت ہے جو ہمارے بدنصیب معاشرے میں اقتدار کے خمار میں مبتلا لوگوں کی سرشت میں شامل ہو جاتی ہے۔

لاہور میں ہوئے واقعات سے کہیں زیادہ تکلیف مجھے اسلام آباد پولیس نے پہنچائی ہے۔ آٹھ مارچ کے حوالے سے چند خواتین اس شہر کے مرکز میں واقع پریس کلب سے ”عورت مارچ“ کے لئے نکلنا چاہ رہی تھیں۔ انہیں بھی لاٹھیوں کے استعمال سے روکنے کی کوشش ہوئی۔ جو خواتین وہاں جمع ہوئی تھیں نظریاتی اعتبار سے تحریک انصاف کی شدید ناقد ہیں۔ عمران خان صاحب کو وہ ”پدرسری“ کی حتمی علامت شمار کرتی ہیں۔ ان کا موجودہ حکومت سے ناراض ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ ان کا دل بھی لیکن ٹوٹ گیا۔

حیرت ہے کہ اسلام آباد میں خواتین کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ اس ”حکومت“ کے دوران ہوا جس کی ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی نہایت استقامت سے زندہ رکھی پاکستان پیپلز پارٹی اہم ترین شراکت دار ہے۔یہ جماعت ”عورت دوست“ شمار ہوتی ہے۔ اپنی خواتین کارکنوں کو پارلیمان کے اعلیٰ ترین ایوانوں تک پہنچانے کی عادی ہے۔ وفاقی حکومت میں بھی اس نے محترمہ شیری رحمان، حنا ربانی کھر اور شا زیہ مری کو اہم وزارتوں کا سربراہ بنوایا ہے۔ ان کی موجودگی مگر ”عورت مارچ“ والوں کا تحفظ نہ کر پائی۔

پیپلزپارٹی کی تاریخی شناخت کے علاوہ ”عورت مارچ“ کے ساتھ ہوئے سلوک سے پریشان ہوا میرا دل یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کر سکتا کہ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو اب ان کی دختر محترمہ مریم نواز صاحبہ ہی نہایت لگن سے زندہ اور توانا رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کا تعلق ان کی جماعت ہی سے ہے۔مبینہ طورپر اسلام آباد پولیس موصوف کے ”احکامات“ پرعمل درآمد کرتی ہے۔ انہوں نے معاملہ سنبھالنے میں مگر بہت دیر لگا دی۔

اپنی صحافتی زندگی کے کئی برس میں نے ”کرائم رپورٹنگ“ کی نذر بھی کئے ہیں۔ذاتی تجربے نے یہ سکھایا ہے کہ ہماری پولیس کو Crowd Control یعنی احتجاجی ہجوم سے ”ڈیل“ کرنے کی مناسب تربیت میسر نہیں۔ وہ اس ضمن میں ابھی تک وہی انداز اپنائے ہوئے ہے جو برطانوی راج نے متعارف کروایا تھا۔ اسلا م آباد پولیس کا ذکر کرتے ہوئے میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی کی حال ہی میں ابھری تازہ لہر نے ان کے حواس پر تناﺅ کو شدت سے بڑھادیا ہے۔اسلام آباد میں دن دھاڑے چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

امن وامان برقرار رکھنے والے اہلکاروں کو مگر ”جذبات پر کنٹرول رکھنے“کی تربیت دی جاتی ہے۔ طاقت کا استعمال محض انتہائی ناگزیر حالات ہی میں جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ موبائل فونزکی بھرمار کے بعد اسے ”جائز“ ثابت کرنے کے لئے مزید اور خصوصی طور پر ڈیزائن ہوئی تربیت درکار ہے۔

جو عرض کر رہا ہوں فی الوقت ” کتابی اور علمی“ گفتگو ہی سنائی دے گی۔ لاہور اور اسلام آباد میں بدھ کے روز ہوئے واقعات کی بابت سوشل میڈیا پر پھیلے مناظر کو دیکھتے ہوئے فوری پیغام فقط یہ ملتا ہے کہ وطن عزیز میں خلفشار بڑھتا چلاجا رہا ہے۔ امن وامان یقینی بنانے کے روایتی ادارے اس پر قابو پانے میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ گھبرایا دل اس کے انجام کو تصور میں لانے سے قطعاََ قاصر ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments