’ماہواری والی عورت فصل کو مرجھا دیتی ہے‘: ماہواری سے متعلق گمراہ کن تصورات جنھوں نے خواتین کا جینا دوبھر کیے رکھا


woman
’سوچیے اچانک ایک جادو ہو اور مردوں کو ماہواری کے عمل سے گزرنا پڑے اور خواتین اس سے مبرا ہو جائیں؟‘

’یہ جادو ہونے کی صورت میں ایک بات تو واضح ہے اور وہ یہ کہ ماہواری پھر اچانک ایک قابل رشک، باوقار اور مردانہ استعارہ بن جائے گی۔ اور پھر مرد اس حوالے سے بات کرتے ہوئے شیخیاں بھگارتے نظر آئیں گے۔‘

’مردانگی کے اس قابل رشک آغاز کے بارے میں نوجوان باتیں کریں گے۔ کسی بھی لڑکے میں ماہواری کے عمل کے قدرتی آغاز کے موقع پر تحائف لیے اور دیئے جائیں گے، اس حوالے سے تقریبات بھی منعقد کی جائیں گی (جیسا کہ عموماً لڑکوں کی ختنوں کے موقع پر ہوتا ہے)، خاندان والے دعوت طعام کا بندوبست کریں گے اور پارٹیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔‘

یہ اقتباسات ایک طنز و مزاح پر مبنی مضمون سے لیے گئے ہیں جس کا عنوان تھا ’اگر مردوں کو بھی ماہواری سے گزرنا پڑتا۔‘

سنہ 1978 میں شائع ہونے والے اس مضمون میں امریکی مصنفہ گلوریا سٹینم نے ماہواری کے بارے میں عمومی رویوں کا جائزہ لیا تھا۔

ماہواری ایک فطری عمل ہے جس پر بات کرنا ابھی بھی بہت سے بنیاد پرست معاشروں میں ممنوع سمجھا جاتا ہے۔

’ایک لعنت‘

ماہواری

بعض قدیم قبائل میں ماہواری کے عمل سے گزرنے والی خواتین کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہوئے انھیں الگ تھلگ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے

سنہ 1949 میں فرانسیسی فلسفی اور دانشور سیمون ڈی بیوویر نے اپنی تصنیف ’دی سیکنڈ سیکس‘ میں لکھا کہ قدیم اینگلو سیکسن معاشرے میں ماہواری کو ’لعنت‘ قرار دیا جاتا تھا۔

اور بالکل اسی طرح سنہ 1976 میں سامنے آنے والی کتاب ’دی کرس: اے کلچرل ہسٹری آف مینسٹریشن (لعنت، ماہواری کی ثقافتی تاریخ) اس حوالے سے کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب تین مصنفوں کی تصنیف ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’دنیا بھر کی زیادہ تر مقامی ثقافتوں میں پہلی ماہواری کے ساتھ کئی رسمیں منسلک ہیں جن کے ذریعے ماہواری کی حالت میں لڑکی کو باضابطہ طور پر مطلع کیا جاتا کہ معاشرے میں عورت کا مقام الگ ہے۔‘

’قدیم قبائل میں سب سے زیادہ عام رواج ماہواری کے دنوں میں لڑکی کو قبیلے کے دیگر افراد سے الگ تھلگ رکھنا تھا۔ اور اس دورانیے میں لڑکی کو ناپاک سمجھا جاتا اور اس کے قریب جانا یا اس سے بات کرنا تک ناگوار تصور کیا جاتا۔‘

’اس دوران لڑکی کی جانب سے براہ راست سورج کو دیکھنے یا زمین کو چھونے کی ممانعت ہوتی اور اس حالت میں کھانے کی اشیا کو ہاتھ لگانے یا کچھ مخصوص غذاؤں کو کھانے سے منع کیا جاتا ہے جو اس ’کیفیت‘ میں اس کے لیے خطرناک سمجھی جاتیں۔‘

ان روایات کی جڑیں اس عقیدے پر مبنی ہوتیں کہ ماہواری کے عمل سے گزرنے والی لڑکی ناپاک ہوتی ہے اور وہ اپنی برادری یا کمیونٹی کے لیے ’بدقسمتی‘ یا ’خطرے‘ کا باعث بن جاتی ہے۔

ڈی بیوویر کی یادداشت کے مطابق پہلی صدی کے ایک رومی مصنف پلینی دی ایلڈر نے لوگوں کو خبردار کیا تھا کہ ’ماہواری والی عورت فصل کو مرجھا دیتی ہے، باغات کو اُجاڑ دیتی ہے، بیجوں کو تلف کر دیتی ہے، پھل گراتی ہے، شہد کی مکھیوں کو مار دیتی ہے اور اگر وہ شراب کو چھوتی ہے تو اسے سرکہ بنا دیتی ہے، اور دودھ کو کھٹا کر دیتی ہے۔‘

رومی مصنف نے یہ سب ’نیچرل ہسٹری‘ نامی کتاب میں لکھا جسے صدیوں تک مختلف معاشروں میں مستند تحریر مانا جاتا رہا ہے۔

’دی کرس: اے کلچرل ہسٹری آف مینسٹریشن‘ کے مطابق ’ارسطو نے بھی ماہواری کو خواتین کی کمتری کی علامت کے طور پر دیکھا۔‘

woman

’ارسطو نے بھی ماہواری کو خواتین کی کمتری کی علامت کے طور پر دیکھا‘

استعارہ

سنہ 2020 کے دوران میں نے ایک مضمون کی تصنیف کے دوران بارسلونا یونیورسٹی کے شعبہ سماجی اور ثقافتی بشریات کے پروفیسر جوزپ لوئس میتیو کا انٹرویو کیا۔ انھوں نے مجھے ان علامتوں کے بارے میں بتایا جو مختلف ثقافتوں میں مادہ منویہ، ماں کے دودھ یا خون جیسے مادوں کے اظہار کے لیے رائج رہیں۔

ان کے مطابق تصوراتی طور پر ایک لمبے عرصے تک خون ایک استعارے کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔

ان کے مطابق ’میں استعارہ کہتا ہوں کیونکہ ایک طویل عرصے تک انسان نہیں جانتے تھے کہ سائنسی لحاظ سے خون کیا ہے۔‘

قدیم زمانے سے مختلف معاشروں نے اس لفظ الگ الگ معنی دیا۔

’مثال کے طور پر قرون وسطیٰ کے زمانے میں مسیحی مذہب میں جب لوگ خون کی رشتہ داری اور اس کی ڈگریوں کے بارے میں بات کرتے تھے، تو اسے نہ صرف خاندانی رشتوں کے نقطہ نظر سے سمجھا جاتا تھا بلکہ شناخت کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا۔‘

اور اسی سوچ کے تحت ’15 ویں صدی کے وسط میں ’خون کی صفائی‘ کے قوانین کا آغاز ہوا اور جن کے تحت بنیادی طور پر ان لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا جو خالص یا پکے مسیحی نہیں تھے یعنی مسلمان اور یہودی۔‘

ان کے مطابق ’یہ خیال نسل کے روایتی تصور سے پہلے ہی قائم ہو چکا تھا۔‘

’وطن پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ‘

’اور پھر قومی ریاستوں کے ظہور کے ساتھ ہی حب الوطنی، ملک کے لیے اپنا خون دینے جیسے تصورات نے جنم لیا۔‘

مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اپنی فوجی خدمات انجام دیں، جو کہ بہت سے ممالک میں اب بھی ہوتا ہے، تو بطور فوجی یہ کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ میں اپنے وطن پر جان قربان کروں گا اور یہ کہ وطن کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی دوں گا۔‘

اس طرح ایسے محرکات بھی ظاہر ہوتے ہیں جو قدیم زمانے میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے قربانی کے طور پر خون پیش کرنے سے وابستہ تھے۔

’جدیدیت کی کشمکش میں قومی ریاستوں کے فریم ورک کے اندر مردانہ کردار مرکزی حیثیت اختیار کرتا رہا کیونکہ فوجیں بنیادی طور پر مردوں پر مشتمل ہیں۔‘

اور بہت سی آزادی کی جنگوں کے تناظر میں ہیروز کے بہائے گئے خون کا بہادری پر مبنی ایک بیانیہ بنا۔

army

مردانہ فوقیت والا تصور

مصنفین کے مطابق ’قدیم زمانے میں خون کو عام طور پر دو صورتوں میں خیال کیا جاتا تھا: گہرا سرخ (جو خواتین کی ماہواری کے دوران بہتا ہے یا ناپاک سمجھے جانے والے جانوروں اور انسانوں میں) یا چمکدار سرخ ( لڑائی یا جانوروں کی قربانی کی رسومات کے دوران تازہ زخموں سے نکلنے والا جسے مقدس سمجھا جاتا ہے)۔

اور اگرچہ ماہواری کے خون سے متعلق گمراہ کن تصور پوری دنیا میں نہیں پایا جاتا ہے لیکن یہ خیال کہ یہ خون آلودہ ہے یہ تصور مختلف ’معاشروں‘ میں ضرور پایا جاتا ہے۔

میتیو دیستے کے مطابق اس کی وجہ وہ مردانہ سوچ ہے جس کے تحت اس موضوع پر ابتدائی تحقیقات ہوئی تھیں۔

اس لیے تھامس بکلی اور ایلما گوٹلیب کی 1988 میں سامنے آنے والی کتاب ’بلڈ میجک‘ سرخرو ہوئی کیونکہ اس میں مختلف تہذیبوں میں ماہواری کے عمل سے جڑے خیالات کا جائزہ لیا گیا اور پہلی مرتبہ خواتین کی آواز کو پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔

’اکثر معاشروں میں ماہواری کے خون کو خواتین میں زرخیزی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تو اس میں کیا غلط ہے؟ کتاب میں ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس بھی ماضی میں تعصب کا شکار رہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’خون کے ساتھ پہچانی جانے والی ہر چیز میں نظریات ہوتے تھے۔ لہذا مصنفین نے متنبہ کیا۔ اگرچہ کئی معاشروں میں ایسے خون کو منفی سمجھا گیا مگر درحقیقت سماج میں خواتین کو مردوں کے ماتحت رہنے کی صورتحال سے دوچار کیا جا رہا تھا۔‘

طبی نقطہ نظر

ڈی بیوویر نے اپنی کتاب میں برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے انھیں لکھا گیا وہ خط شائع کیا ہے جو انھیں سنہ 1878 میں موصول ہوا تھا۔ اس خط میں یہ درج ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ماہواری سے گزرنے والی خواتین گوشت کو ہاتھ لگائیں تو یہ خراب ہو جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ انھیں دو ایسے واقعات کا ذاتی طور پر علم ہے جس میں گوشت خراب بھی ہوا۔

یونیورسٹی آف مونٹپلیئر میں انسٹیٹیوٹ آف ایولوشنری سائنس کے محقق الیکس الورجن نے صحت اور افزائش نسل کے تعلق کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شروع میں مرد ماہر بشریات ہوتے تھے اور ماہواری کے متعلق ان کے نظریات ناصرف تعصب پر مبنی تھے بلکہ نامکمل بھی۔ طب کے شعبے میں یہی صورتحال تھی اور ابتدائی طور پر خواتین کے جسم سے متعلق تحقیق بھی مرد ہی کرتے اور اپنی تحقیق شائع کرتے۔‘

انھوں نے 1920 کے دہائی میں ڈاکٹر بیلا شیک کے اس دعوے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ ماہواری کے خون میں زہریلے مادے اور بیکٹریئل ’مینو ٹاکسنز‘ ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے ماہواری سے گزرنے والی خواتین جب پھولوں کو ہاتھ لگاتی ہیں تو وہ مرجھا جاتے ہیں۔‘

اور ان کی اس ’تحقیق‘ کا منبع یہ تھا کہ جب ایک روز انھوں نے اپنی اسسٹنٹ سے کہا کہ پھول پانی میں رکھ دو تو انھوں نے انکار کر دیا کہ ماہواری کی وجہ سے یہ خراب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت یہ سب اُن کی تحقیق کے لیے کافی تھا مگر کئی سال بعد یہ تھیوری غلط ثابت ہوئی۔

یونیورسٹی آف الینوئس کی پروفیسر کیتھرن کلانسی بتاتی ہیں کہ ’ڈاکٹر کا یہ خیال کہ ماہواری کے خون میں زہریلے مادے ہوتے ہیں اور خراب پھولوں کی بات پر اپنی تحقیق شروع کرنا متعصب رویہ ہے۔‘

پروفیسر کیتھرن کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’اس ثقافتی ماحول میں اس رویے کو فروغ ملا کہ خواتین گندی ہوتی ہے، خاص کر ماہواری کے دوران۔‘

وہ عمل جسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا

الوریج نے بتایا کہ کیسے خواتین کی صحت کو طبی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ’یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کے افزائش نسل کے ہر پہلو کو طبی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس میں سمجھا جاتا ہے کہ ماہواری مسئلے کا باعث ہے، جیسے یہ کوئی بیماری ہے۔‘

کلانسی نے ماہواری سے جڑے غلط تصوارت پر کہا کہ اس کی وجہ سائنس کی معلومات پر کنٹرول بھی ہے۔ ’افزائش نسل سے جڑے کسی عمل کو بُرا سمجھنا یا اس میں سے غلط تصوارت عام کرنا آسان رہا ہے۔

الوریج اور کلانسی متفق ہیں کہ ماہواری سے جڑے غلط تصوارت پوری دنیا میں یکساں نہیں۔ کچھ تہذیبوں میں انھیں مثبت اندازمیں بھی دیکھا گیا۔

تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسانی جسم کے سب سے دلچسپ عمل میں سے ایک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments