گیارہ برسوں میں والد کے نام چوتھا خط
پیارے ابو جان،
آپ پر سلامتی ہو، امید کرتی ہوں کہ جس جگہ آپ اب ہیں وہاں بہت اچھے ہوں گے۔ ان گیارہ برسوں میں یہ میرا آپ کے نام چوتھا خط ہے اور ہمیشہ کی طرح یہ بھی اتنا ہی مشکل جیسے پہلے والے خطوط تھے۔ گیارہ مارچ کو آپ کو ہم سے بچھڑے گیارہ برس ہوجائیں گے اتنے برسوں میں تو ایک نسل جوان ہوجاتی ہے۔ جب آپ بیمار تھے تو صرف میں تھی جو یونیورسٹی سے ڈگری لے کر نکل رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ڈگری کو حاصل کرنے کے لئے میرا آپ سے جھگڑا رہا تھا وہ شاید ہی میں نے ان گیارہ برسوں میں کبھی ایک دو بار کھول کر دیکھی ہو۔
لیکن اس کانووکیشن کی تصویر جس میں آپ میں اور امی موجود ہیں میں روزانہ دیکھتی ہوں۔ اس تصویر کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنی ٹیچر کا وہ جملہ کانوں میں گونجتا ہے جب آپ نے تصویر بنوانے سے منع کیا تھا کہ اظہر صاحب یہ صرف آج آپ کی بیٹی کے لئے ہی نہیں آپ کی بھی کامیابی کا دن ہے آ کر تصویر بنوائیں ہم نہیں جانتے کہ کون سی خوشی ہمارے لئے پہلی اور آخری ہو اس لئے ہر ایسے لمحے کو جینا چاہیے۔ خوشی کا وہ لمحہ اور آپ کے ساتھ بنوائی جانے والی یہ تصویر آخری ہی تھی جو آج بھی میرے لئے بہت خاص ہے۔
میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ اس کانووکیشن کی شدید گرم دوپہر میں، گھنٹوں بیٹھ کر آپ کو کتنا عجیب لگ رہا ہو گا۔ آپ کبھی بھی کسی کا انتظار پانچ منٹ سے زیادہ نہیں کرتے تھے لیکن وہاں اتنی دیر تک بیٹھ کر نہ جانے آپ کی کیا کیفیت ہوگی شاید آپ غصے میں ہوں۔ اس کا جواب مجھے ٹھیک دس برس بعد تب ملا جب میں چھوٹی بہن کے کانووکیشن میں آپ کی نمائندگی کر رہی تھی۔ میرا دل خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کامیابی میری ہے۔ جس وقت بہن ڈگری کے ساتھ میرے سامنے آئی تو میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں کیسے اپنی خوشی کا اظہار کروں اس وقت آپ مجھے بہت یاد آئے اور سمجھ آیا کہ اس وقت میری جو کیفیت ہے وہی اس روز آپ کی بھی ہوگی۔
اظہار سے کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ آپ اپنی خوشی اور دکھ کا کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔ میں یہ جان نہیں پاتی تھی کہ کون سی بات آپ کو شدید دکھی کیے ہوئے ہے اور کون سی بات آپ کو خوش کرتی ہے۔ آپ جن باتوں سے مطمئن، پرسکون دکھائی دیتے تھے وہ سب تو نظر آجاتی تھیں لیکن خوشی، دکھ ظاہر نہ کرنے کی عادت نے ہمارے آپ کے درمیان ایک نہ نظر آنے والی دیوار کھڑی کردی تھی۔ مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا تھا کہ آپ کو اپنی ذات کے سوا کسی سے پیار نہیں تھا۔
میری یہ رائے آپ کا غصہ، بے انتہا سنجیدہ رہنا، بارعب شخصیت کو دیکھ کر قائم ہوا تھا۔ لیکن آج اتنے برسوں میں، آپ کے جانے کے بعد یہ گرہیں بھی ایک ایک کر کے کھلنے لگ گئیں۔ میں نے ایک بار الماری کی صفائی کرتے ہوئے کئی فوٹو المبز نکالے جن کی تعداد کم از کم بھی درجن بھر سے زائد ہوگی۔ جب انھیں کھولا تو اس میں سب سے زیادہ تو میری ہی تصاویر تھیں ایک ہی فراک میں ایک ہی جگہ مختلف پوز کے ساتھ جنھیں دیکھ کر مجھے بہت ہنسی آئی۔ کہیں آنکھیں بند تھیں کوئی تصویر میرے ہلنے کی وجہ سے اچھی نہیں آ سکی۔ آج کل نوجوان رینڈم فوٹوز کے لئے جان بوجھ کر پوز دیتے ہیں کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ اچانک تصویر بنی ہے لیکن اس البم میں کئی تصاویر رینڈم ہی تھیں۔
میری پیدائش سے لے کر پانچویں سالگرہ تک کی تصاویر، باقی بھائی بہن کی تصاویر کافی کم نظر آئیں لیکن ان کی پیدائش سے لے کر تب تک کی بہت سی ایسی المبز جن میں ہم سب چھوٹے ہیں۔ عید تہوار، چودہ اگست، یا عام دن کی تصاویر کو دیکھ کر مجھے یہ سمجھ آیا کہ یہ شوق آپ کا تھا۔ ایک ایسا شخص جس کے بارے میں خاندان بھر میں یہ رائے ہو کہ وہ اپنی ذات میں گم رہنے والا خاموش طبع انسان ہے اس کی طبیعت سخت اور مغرور ہے وہ کیوں اپنے گھر میں ایک کیمرا اور اس میں ہر لمحے ریل ڈلوائے رکھے گا؟
اپنی بیٹی کی شرارتوں، کھانے پینے، سونے جاگنے، تیار ہونے کی تصاویر بناتا پھرے گا اور پھر ان سب تصاویر کو ڈیولپ کروا کر گھر میں رکھتا جائے گا۔ مجھے پھر یاد آیا جب آپ حیات تھے اور ایک بار اسی طرح میرے ہاتھ ایک پرانی البم لگی تو میں نے آپ سے پوچھا کہ یہ آپ دیکھیں گے؟ اف کتنے برے لگ رہے ہیں ہم بچے اس میں۔ تو آپ نے مسکرا کر کہا کہ نہیں مجھے نہیں دیکھنی اس میں جو تصویریں ہیں ان کا دن، وہ لمحہ سب مجھے یاد ہے یہ سب تو میں نے تم لوگوں کے لئے بنائی تھیں۔ آج میں سوچتی ہوں کہ یہ ایک فیملی مین ہی کر سکتا ہے جو ہمیں تب سمجھ نہیں آتا جب وہ ہمارے درمیان ہوتا ہے۔
باہر پارکوں میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر جن کے باپ چوکس کھڑے ہوتے ہیں، انھیں کوئی چوٹ لگ جائے تو روتا بچہ باپ کے سینے سے لگتے ہی چوٹ کا درد بھول جاتا ہے۔ دفتر سے گھر پہنچ کر ابھی سانس بحال نہیں ہوتی بچے دروازے پر کھڑے کوئی فرمائش کر دیں تو وہ باپ فورا بائیک سے اترے بغیر بچوں کو ساتھ بٹھا کر دکان لے جائے کہ وہ اپنی من پسند چیزیں خرید لیں۔ ہاتھوں میں شاپنگ کے تھیلے پکڑے ایک باپ رش یا موسم کی بیزاریت کے باوجود انگلی تھامے چھوٹی بچی کے ان گنت سوالات کا شائستگی سے جواب دیتا نظر آئے۔ گھڑی کی سوئی کو دیکھ کر اگر کوئی باپ بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے جائے، یا تنخواہ آتے ہی پھل فروشوں سے وہ پھل چن چن کر خریدے جو اس کے بچوں کو پسند ہو، ان سب میں مجھے آپ نظر آتے ہیں۔
مجھے تو آپ نیم اور گل مہر کے درختوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ میں جب بھی کوئی نیم کا گھنا سایہ دار درخت دیکھوں تو ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ آپ ہیں اور اس سائے کی ٹھنڈک میں ہم زندگی کی تلخیوں سے بے پرواہ بیٹھے ہیں۔ گل مہر کے درختوں کی پھیلی شاخیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ بانہیں پھیلائیں کھڑے ہیں اور میں پارک میں کھیلنے والا وہ بچہ ہوں جو اپنی ہی غلطی سے چوٹ لگا بیٹھا ہے جیسے ہی باپ کے سینے سے لگوں گی تو سارا رونا اور درد بھول جاؤں گی۔
آخری بار میں آپ کے گلے 2009 میں لگی تھی جب آپ نے مجھے میرے کانووکیشن کے روز مجھے اپنے سینے سے لگا کر ماتھے پر پیار کیا تھا۔ کبھی کبھی جب مجھے اپنا آپ ہارنے اور تھکنے جیسا لگے تو بہت شدت سے دل کرتا ہے کہ ابھی آپ ہوں اور میں آپ کے سینے سے لگ کر یہ کہوں کہ تھوڑی سی ہمت چاہیے۔ ایسے میں گھر کے پاس لگا وہ گل مہر مجھے یہ محسوس کرواتا ہے کہ آپ یہی کہیں موجود ہیں۔
مجھے زندگی سے بہت شکایتیں تھیں اور اکثر نانی اماں یہ کہتی تھیں کہ جب بھی کسی ناشکری کا خیال آئے تو اپنے سے نیچے دیکھو۔ یہ دیکھو کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو بہت سی نعمتوں سے محروم ہیں۔ مجھے آپ سے بھی بہت شکایتیں تھیں جو میں اکثر آپ سے کہتی تھی لیکن آپ مجھے جواب دینے کے بجائے یا تو مسکراتے تھے یا پھر چپ کر کے ریموٹ ہاتھ میں لئے چینل بدلتے رہتے تھے آپ کا جواب نہ دینا مجھے زچ کر دیتا تھا۔ مجھے آپ کے جانے کے بعد نظر آیا کہ جو جواب مجھے نہیں دیے گئے وہ میرے اردگرد ہی تو تھے جو نظر نہیں آتے تھے۔
ایک ایسا شخص جو مڈل کلاس فیملی سے ہو اور چار بچوں کا باپ ہو جس کی روٹین گھڑی کی سوئی کے ساتھ چلتی ہو جسے آفس اور گھر کے سوا تیسری جگہ کی خواہش نہ ہو، جس کا کوئی دوست نہ ہو، جو اپنی ذات پر پیسے خرچ کرتے ہوئے دس بار سوچتا ہو جو میرے نزدیک سوائے کنجوسی کے کچھ نہیں تھی۔ اس بیٹی کو آج یہ نظر آتا ہے کہ جب وہ شخص اس دنیا سے گیا تو ہمارے سر پر اپنی چھت تھی۔ اس کے تمام بچے پڑھے لکھے تھے یہاں تک کہ سب سے چھوٹی بیٹی جو اس وقت میٹرک میں تھی اس تک کی پڑھائی کا سلسلہ جاری رہے اس تک کا انتظام تھا۔
اس باپ کے جانے کے بعد کسی بچے نے کوئی فاقہ نہیں کیا، کسی کو کوئی ایسی چھوٹی موٹی نوکری نہیں ڈھونڈنی پڑی کہ گھر کا خرچہ چلانا ہے؟ مہمان داری سے لے کر عید تہواروں تک پر وہی کچھ اہتمام ہوا جیسا آپ کی زندگی میں ہوتا تھا۔ آج یہ دکھائی دیتا ہے کہ جو قربانیاں آپ اپنی ذات کے لئے دیتے تھے وہ ہمارے بہتر مستقبل کے لئے ہوتا تھا۔ لیکن ہم نہیں دیکھ پاتے تھے ہم نہیں سوچ سکتے تھے تب ہی میرے بہت سے سوالات کے جوابات خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے جب آپ کینسر سے لڑ رہے تھے تب بھی آپ کی فکر ہمارے مستقبل کو لے کر تھی کہ اگر آپ نہ رہے تو ہمارا کیا ہو گا؟ میں نے تب آپ سے کہا تھا کہ آپ کا ہونا بہت ضروری ہے باقی سب آ جائے گا۔ آپ دعا کیا کریں سب پہلے جیسا ہی رہے گا تو آپ کی آنکھوں میں چمک آجاتی تھی اور آپ کہتے تھے کہ میں صرف ایک دعا کرتا ہوں کہ اگر میں نہ رہوں تو میرے بچوں کو وہ مشقت، وہ دکھ نہ اٹھانا پڑے جو میں نے اپنے والدین کے نہ ہونے سے اٹھایا تھا تم لوگ جیسے آج جی رہے ہو اس سے بھی بہتر جیو۔ میں آج سوچتی ہوں کہ آپ نے اس لمحے بھی اپنے لئے نہیں اپنی اولاد کے لئے دعا کی۔ یہاں بھی آپ نے اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے قیمتی دعاؤں کا خزانہ ہم پر لٹا ڈالا۔
آپ کی تمام دعائیں پوری ہوئیں ہم نے جو چاہا وہ پایا جیسا آپ نے سوچا ویسے ہی جی رہے ہیں۔ لیکن ان سب میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ آپ کی ہے۔ کبھی کبھی میں اپنے سامنے بچوں کو اپنے باپ کے ساتھ ہنستے بولتے دیکھوں تو دل رنجیدہ ہوجاتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے دل کو تسلی دینے کے لئے نانی اماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے سے نیچے دیکھوں تو یہ نظر آتا ہے کہ جہاں باپ نہ رہیں وہاں زندگی بدل جاتی ہے، فکر معاش سے لے کر چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے بچے اس دنیا میں بھاگ بھاگ کر وقت سے قبل بوڑھے ہو جاتے ہیں، پر آپ کی دی جانے والی دعاؤں کا پلڑا اتنا بھاری ہے کہ زندگی کی تمام نعمتیں اب بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
یہ شکوہ نہیں بس ایک خلش ہے کہ آج میں جہاں ہوں جیسی ہوں وہ کاش آپ سامنے سے دیکھتے۔ آپ یہ محسوس کرتے کہ جن بچوں سے آپ نے بہت محبت کی لیکن اظہار نہیں کیا وہ آج وہی ہیں جہاں آپ دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ کے جانے کے بعد مجھے ایک باپ کی ذمہ داری نظر آنے لگی یہ نظر آنے لگا کہ وہ اتنی بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے سب اچھا کرنے کے باوجود جب یہ سنے کہ آپ کو کہاں سمجھ آئے گی، آپ سے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں، آپ نے کون سا ہماری سننی ہے اپنا ہی فیصلہ سنانا ہے جیسے جملے اس کے دل کو کتنے گراں گزرتے ہوں گے۔
جو جانے انجانے میں اسے ہر صورت ولن ثابت کرنے کے لئے کہے جا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ میرا کوئی دن آپ کو یاد کیے بنا نہیں گزرتا، میں تو بس یہ سوچتی ہوں کہ باپ بیٹی کا رشتہ واقعی بہت خوبصورت ہوتا ہے تب ہی ہر بیٹی کا فخر اور مان اس کا باپ ہوتا ہے۔ بیٹی سب کر سکتی ہے کسی بھی مقام پر پہنچ سکتی ہے پر وہ باپ کی جگہ کبھی نہیں لے سکتی جانتے ہیں کیوں؟ اگر آج آپ ہوتے تو مجھے گھر کے فالتو پنکھے، لائٹس بند کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی، اگر آج آپ ہوتے تو مجھے یہ فکر نہ ہوتی کہ مہینے بعد گروسری میں کیا آنا ہے اور کیا نہیں، اگر آپ ہوتے تو مجھے یہ یاد نہ کرنا پڑتا کہ کون سا پھل سردی میں آتا ہے کون سا گرمی میں، اگر آج آپ ہوتے تو مجھے صبح اٹھنے کے لئے الارم نہ لگانا پڑتا، اگر آج آپ ہوتے تو مجھے جو بھی کھانے کا دل کرتا میں آپ کو بتا دیتی اور وہ چیز حاضر ہوجاتی، اگر آپ ہوتے تو میں پھر سے ایک شرارتی بچے کی طرح دوڑتی ہوئی آتی اور آپ کی قمیض کا کونا پکڑ کر آپ کے پیچھے چھپ جاتی یا آپ کے گلے سے لگ جاتی۔
اگر آپ ہوتے تو میں پھر سے آپ کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بٹھا کر بالوں میں گھنٹوں کنگھی کرنے کے بعد اپنے کلپس لگاتی اور کہتی کہ دیکھیں آپ کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔ اگر آپ ہوتے تو کبھی بھی تھکن اور رنج کی کیفیت میں مجھے نیم اور گل مہر کے درختوں کو دیکھنے کی ضرورت نہ پڑتی میں بس آپ کے سامنے بیٹھتی آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہتی کہ ابو میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں بس کبھی کہہ نہ پائی۔
خدا آپ کے درجات بلند فرمائے اور وہ سب عطا فرمائے جو آپ نے ہمارے بہتر مستقبل کے لئے اپنے کل میں قربان کیا۔ ایسا کون کر سکتا ہے سوائے ایک باپ کے۔
فقط آپ کی بیٹی
تحریر، سدرہ ڈار، کراچی
- گیارہ برسوں میں والد کے نام چوتھا خط - 11/03/2023
- فادرز ڈے پر والد کے نام خط - 19/06/2022
- ذہنی دباؤ کا شکار صحافی؛ ’کوئی ماہر نفسیات کے پاس جائے تو کہا جاتا ہے کسی کام کے قابل نہیں رہا‘ - 12/03/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).