قاضی راشدؔ محمود کی خاکہ نگاری


 

خاکہ نگاری ایک ایسا فن ہے جو ہر عہد، ہر ملک اور ہر زبان میں اس کے نمونے اور نقوش ملتے ہیں۔ زندگی اور زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج و میلان، نشیب و فراز ڈوبتی ابھرتی انسانی زندگی کے تمام رنگ و روپ خاکہ نگاری میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ معاملہ، معاشرتی و سماجی، علمی و ادبی ہو یا سیاسی، بڑی شخصیت ہو یا معمولی، عالم ہو یا جاہل، حکمراں ہو یا سماج کا ایک ادنیٰ انسان، مصنف کسی سے بھی متاثر ہو سکتا ہے اور کسی شخصیت کو موضوع و محور بنا سکتا۔

اور آج کل اس فن کے حوالے سے یہ روش دیکھنے کو ملتی ہے کہ خاکہ نگاری کا فن مشاہیر سے اپنے ذاتی تعلقات اور مراسم کے پر چارکا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ خاکہ ایک بے حد نازک فن ہے۔ یہاں قلم پر بے پناہ گرفت کے ساتھ ساتھ جرات اور سلیقہ مندی بھی درکار ہے۔ تھوڑی سی لاپرواہی اور کوتاہی خاکہ کو مجروح کر دیتی ہے۔ ایک ایک پہلو اور گوشے کو مصنف کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ مگر این روز ہا، ان عوامل پر آخر کون دھیان دے۔ مگر قاضی راشدؔ اس روش سے بھٹکے ہوئے نظر آتے ہیں انہوں نے خاکہ نگاری کے فن کی روح تک رسائی حاصل کی اور اپنا اظہاریہ ترتیب دیا۔

”افسانوں جیسے لوگ“ قاضی راشدؔ محمود کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ جو حال ہی میں منظر عام پر آیا۔ راشد نے اس مجموعے کے ذریعے دراصل اس روایت کے ساتھ انسلاک کیا جس کی بنیاد مولوی عبدالحق نے ”نام دیو مالی“ یا پھر رشید احمد صدیقی نے ”کندن“ لکھ کر رکھی۔ دو ایک خاکوں کو چھوڑ کر تمام تر خاکے لیہ اور اس کے مضافات سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کے حوالے سے ہیں جن کو اہل لیہ نے شاید فراموش کر رکھا تھا۔ راشدؔ نے ان کی شخصیت کا نقشہ اس طرح کھینچا کہ وہ تمام تر اپنے جوہر کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔

قاضی راشدؔ خوش مزاجی و ظرافت کے بے تاج جہاں پناہ، ان کا فن جہاں تاب، ان کی فکر و تخیل جہاں پیما اور ان کی نگارشات جہاں آرا ہیں۔ انھوں نے تمام تر خاکے نہایت بے باکی اور بے ساختگی کے ساتھ لکھے اور طنز و مزاح نے ان کے اسلوب میں ایک خاص لطف پیدا کر دیا کہ ایک قاری خود بخود ان کے حصار میں آ جاتا ہے۔ مکالماتی انداز اور شخصیت واقعات نگاری کے ساتھ ساتھ جذبات نگاری متاثر کن ہے۔ احمد فرازؔ اور ڈاکٹر خیال امروہوی پر لکھے ہوئے خاکے تو نہایت اعلیٰ درجے کے ہیں۔ اقتباس دیکھئے :

”سرخ لب، سرخ چہرہ، بلا کا مے خوار لہجہ اور پھر ایسی معاملات کی تفسیر کرتی غزل۔ ایک وجد آفریں ماحول اور کیف سے لبریز فضا طاری ہو چکی تھی۔ ریڈیو، ٹی۔ وی سے سنتے سناتے آج براہ راست فرازؔ کو سنتے ہوئے لگا کہ ہم بھی کسی کے ہجر کے آزار سے گزیدہ ہیں اور ہم بھی کسی کے بچھڑنے پر آشفتہ سر ہیں اس لیے کہتے ہیں کہ شاعری سچ بولتی ہے اور سچا شاعر وہ ہے جو کیفیت وہ اپنے شعر میں کھینچتا ہے پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ یہ معاملہ اس کے ساتھ بھی بیتا ہے۔ “ ص 46

راشدؔ ایک خاکہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے شاعر بھی ہیں۔ ان کا ایک نعتیہ مجموعہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ ایک قادر الکلام شاعر ہونے کے سبب انھوں نے ہر شخصیت کے لیے ان کے خاکے کے ابتداء میں ایک شعر بصورت ارمغان نگارش بھی پیش کیا ہے۔ جیسے، احمد فرازؔ اور ڈاکٹر خیالؔ امروہوی کے لئے ان کے لکھے گئے اشعار:

مقصود رسم عاشقی ہو سیکھنا اگر
احمد فرازؔ کی غزلیں پڑھا کریں
۔ ۔
سخن کے شہر پہ تیرا فسوں رہا دایم
خیال میرے پہ اپنے خیال ؔ ہیں قایم

راشدؔ نے حکیم سعید اور ڈاکٹر خیال امروہوی کی تصویر جس انداز میں کھینچی ہے۔ اس کی روشنی میں بآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاضی راشدؔ نے اپنے دل و دماغ سے دوستی، تعلقات اور عقیدت کے سارے جذبات اور خیالات کی موجودگی کے باوصف حقائق کو نوک قلم سپرد کیا۔ کیونکہ جہاں انہوں نے بالخصوص ڈاکٹر خیال ؔ کی خوبیوں کو دکھایا وہیں ان کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔ گویا راشدؔ نے یہ مرقع صفحہ قرطاس پر تسوید کر کے یہ ثابت کر دیا، کہ انسان کو انسان کی نگاہ سے دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا چاہیے۔ اور بعد میں اسے لفظوں کی مدد سے اپنے حقیقی و اصلی رنگ روپ میں زیب قرطاس پر پیش کیا جائے۔ تاآں کہ ایک زندہ و جاوید اور متحرک مرقع وجود میں آ جائے۔ یہی مرقع نگاری کی خوبی ہے اور یہی مرقع نگار کی کامیابی ہے۔

”خیال ؔصاحب کی نمایاں خوبیاں سادگی اور بے باکی ہیں حاکم وقت ہو، سماجی بے چہرگی یا مذہبی انتہا پسندی خیال ؔ صاحب ہمیشہ اپنے لئے تعزیر کا راستہ ہی منتخب کرتے تھے۔“ ، ”لیہ کا وہ عظیم سخن ور، دانش و بینش کا دیوتا اور محقق بے مثل خیالؔ جسے ایرانی حکومت وزرا ء کی طرح پروٹوکول دیا کرتی تھی، اس کے نام اور کارناموں سے واقف تک نہیں ہیں۔ “

بولے ؛ ”اب تم شاگرد ہو۔ میرے لیے مٹھائی تو لائے نہیں“ مجھے سبکی محسوس ہوئی اور نادم انداز میں نگاہیں نیچی کر لیں تو محبت آمیز لہجے میں بولے ”اچھا جاؤ! یہ سلنڈر اٹھا کے جاؤ اور دو تین کلو گیس بھروا کے لے آؤ“ ص91

قاضی راشدؔ نے جن شخصیتوں کے خاکے تحریر کیے۔ ان کے پیشے، دلچسپیاں، مشاغل اور معاملات اس سلسلے میں مختلف ہیں کیونکہ یہ اشخاص بھی مختلف ہیں۔ ان میں ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی، افسانہ نگار بھی ہیں اور طنز و مزاح نگار بھی، خاکہ نگار بھی، عہدے دار بھی، گویا شیخ بھی ہیں اور برہمن بھی۔ اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کا اپنا کوئی تعارف نہیں اور جنھوں نے ہمارے اپنے ماحول ہی میں جنم لیا۔ مگر راشدؔ کی ژرف بینائی کے سبب وہ بھی ہمیں اس مجموعے میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔

غرض ہر نوع کی شخصیات پر راشدؔ نے خاکے لکھے۔ لیکن ان سب میں جو بات یکساں ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام راشدؔ کے یا تو استاد ہیں، یا پھر دوست و احباب۔ اس لئے شاید راشدؔ کو ان تمام کے خاکے رقم کرنے پڑے۔ لیکن راشدؔ نے کسی بھی جگہ خالص تعریف یا خالص تنقیص سے کام نہیں لیا اور نہ تساہل، تجاہل اور تغافل کے شکار ہوئے، بلکہ عظمتوں اور لغزشوں، خوبیوں اور خامیوں میں توازن اور تناسب برقرار رکھا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام مسبوق الذکر نگارشات قاضی راشدؔ کی منفرد شناخت اور تشخص برقرار رکھنے کے لیے کافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments