پاکستان میں سیاسی بحران: کیا ملک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے؟


پاکستان
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے جمعرات کی صبح سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اگر چیئرمین تحریک انصاف سرینڈر کر دتیے ہیں تو عدالت پولیس کو انھیں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ عمران خان کو جان کا خطرہ ہو لیکن قانون کے کچھ تقاضے ہیں، عمران خان نے عدالت حاضر نہ ہو کر بات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘

اُدھر جمعرات ہی کی صبح لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو اتوار کے روز مینار پاکستان پر جلسہ نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ’آپ کو اندازہ نہیں کہ پچھلے چند ماہ سے اس قوم کی کتنی بے عزتی ہوئی ہے، آپ سب (حکومت، تحریک انصاف) مل کر اس معاملے کا حل نکالیں، آپ لوگ سسٹم کو چلنے دیں۔‘

دوسری جانب بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کو عمران خان کو گرفتار کرنے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ پنجاب پولیس درحقیقت عدالت کے احکامات کی تعمیل کے لیے زمان پارک کے باہر موجود ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان انتشار کی سیاست کر رہے ہیں جو ملک کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔

بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں گذشتہ چند روز میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے پاکستان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

عدم استحکام کی سیاست

عمران خان

سیاسی مبصر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ تازہ ترین پیش رفت نے پاکستان کی سیاست کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کیا ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔ یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشار ہو گا، اتنی ہی بدامنی ہو گی۔‘

حسن رضوی کا خیال ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے، جس سے سیاسی صورتحال مزید ابتر ہو گی۔

ان کے مطابق اگر عمران خان کو ابھی یا آئندہ چند دنوں میں گرفتار کیا گیا تو ’انتخابات ملتوی ہونے کا امکان ہے، کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں کیا تباہی مچ سکتی ہے۔‘

حسن رضوی کا خیال ہے کہ ’اخلاقی اور قانونی طور پر عمران خان کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، موجودہ حالات میں اس بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو صورتحال سے علیحدہ کر کے دیکھا درست نہیں ہو گا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ’پولیس مکمل طور پر سیاسی ہے، پاکستان میں ایسے کیسز میں گرفتاری کی کوئی روایت نہیں۔ جب عمران خان نے انڈرٹیکنگ دی ہے کہ وہ 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گے تو پھر زمان پارک میں ایسا ڈرامہ رچانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب سیاست ہے۔ عدم استحکام کی سیاست۔‘

اہم لمحہ

پاکستان

بی بی سی کو گذشتہ روز دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ زمان پارک کو میدان جنگ بنانے کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔

سیاسی مبصر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’زمان پارک کا تصادم اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سیاسی اتحادیوں کی جانب سے عمران خان کو پاکستانی سیاست سے بے دخل کرنے اور ان کی پارٹی کو تباہ کرنے کے لیے ایک سال سے جاری مہم کا خاتمہ ہے۔‘

’لیکن وہ اب تک کچھ حاصل نہیں کر سکے، اس وقت پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف کھڑی ہیں اور عمران خان اور ملک کے عوام ایک طرف ہیں۔ اس محاذ آرائی سے عمران خان کو ہر طرح سے فائدہ ہونے والا ہے اور دوسری طرف نقصان ہی ہو گا۔‘

رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ایسا ہی 1970 کی دہائی میں ہوا جب تمام سیاسی جماعتوں نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔‘

ان کے خیال میں ’یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔ یہ ملک کی سیاست کا مستقبل اور اس میں فوج کا کردار بھی طے کرے گا۔‘

ڈاکٹر حسن رضوی بھی اس سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں فوج حکومت کو تحمل سے کام لینے کا کہہ سکتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہی۔

وہ کہتے ہیں ’پاکستان کے تناظر میں بظاہر غیر جانبداری کا یہ رویہ حکومت کی کھلی حمایت ہے۔‘

شک

پاکستان

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان نے عدالت میں پیش نہ ہو کر حالات کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ تاہم پاکستان کے سینیئر نیوز اینکر حامد میر کا خیال ہے کہ عمران خان کے پرجوش حامی اور تحریک انصاف پاکستان کے رہنماؤں کا ایک گروپ عمران کی گرفتاری میں رکاوٹیں ڈال کر رہا ہے۔

’وہ اسلام آباد پولیس پر اعتماد نہیں کرتے جو قانون شکنی کے لیے بدنام ہے۔ انھوں نے عمران خان کے ساتھی شہباز گل کے ساتھ کیا کیا؟ انھیں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا مگر پھر کسی اور کے حوالے کر دیا گیا۔‘

حامد میر نے پی ٹی آئی کے بعض سیینئر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے کئی رہنما عمران خان کی عدالت میں پیشی پر رضامند تھے لیکن عمران خان کے پرجوش حامی اور چند رہنما ایسا نہیں ہونے دے رہے۔

عمران خان کو دھمکی دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہہ چکے ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم کو سبق سکھائیں گے۔ حامد میر کا خیال ہے کہ اس سے بھی عمران خان کے حامیوں کو مشتعل ہونے کا بہانہ مل گیا ہے۔

خطرناک مثال

کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عدالت پہلے ہی توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو کئی بار حاضری سے استثنیٰ دے چکی ہے۔

تجزیہ کار بیرسٹر منیب فاروق کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک مثال قائم کر سکتی ہے کہ اگر کسی رہنما کو عوام کی حمایت حاصل ہو تو وہ عدالتی وارنٹ کے باوجود اپنے حامیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر کہہ سکتا ہے کہ وہ سر نہیں جھکائیں گے اور ملک کو بے بس ثابت کریں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ناقابل ضمانت وارنٹ کا اصول واضح ہے۔ جب جج کسی ملزم کو عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ خود اسے گرفتار کرنے نہیں جاتا، اس کے لیے وہ ریاست کی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ اگر پولیس اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرنے جاتی ہے اور اسے اپنا کام کرنے سے روکا جاتا ہے تو ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کے پیچھے کھڑی ہو سکتی ہے اور اپنی پوری طاقت استعمال کر سکتی ہے۔‘

منیب کا کہنا ہے کہ ’یہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں، ان کی پارٹی عوام کے سب سے زیادہ قریب ہے، لیکن کیا اس سے وہ قانون سے بالاتر ہیں، کیا ملک ان کے سامنے جھک جائے، گھٹنے ٹیک دے۔‘

انتشار

پاکستان

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے اس کے حامیوں پر حملہ کیا لیکن پاکستان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے عمران خان پر انتشار پھیلانے اور ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر اطلاعات مریم کا کہنا تھا کہ ‘پولیس کے پاس گولیاں نہیں تھیں، ان پر عمران خان کے حامیوں کے گروپوں نے حملہ کیا، وہ خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں’۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور میں عمران خان کے گھر کے باہر جھڑپوں میں 65 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ مریم اورنگزیب نے یہ بھی کہا کہ اب یہ عدلیہ کا امتحان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عمران خان کی گرفتاری سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، عدالتوں نے مختلف مقدمات میں ان کے وارنٹ جاری کیے ہیں اور پولیس عدالتی احکامات پر عمل کر رہی ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر عدالتیں ماضی کی خلاف ورزیوں پر ان کے خلاف وارنٹ جاری کرتیں تو حالات آج اس طرح کے نہ ہوتے، اگر آج عدالتیں عمران خان کے وارنٹ منسوخ یا مؤخر کرتی ہیں تو عدالتوں کو ہر پاکستانی کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے۔‘

دوسری جانب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پولیس نے انتہائی تحمل سے زمان پارک کی صورتحال پر قابو پالیا تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو، ورنہ پولیس کے لیے عمران خان کو گرفتار کرنا زیادہ مشکل نہ ہوتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں گرانا چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اختلافات

زمان پارک سے متعلق موضوعات سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ عمران خان کے حامی پولیس آپریشن پر تنقید کرتے ہوئے ان کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔

صدر مملکت عارف علوی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انھیں زمان پارک میں پیش آنے والے واقعات پر بہت دکھ ہوا ہے۔ چند معروف مشہور لوگوں نے بھی عمران خان کی حمایت کی ہے۔ اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے انسٹاگرام پر لکھا کہ وہ عمران خان کی سلامتی کے لیے دعاگو ہیں۔ ’عمران خان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے پیروں کی بیڑیاں توڑنے کی کوشش کی، کسی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔‘

عدنان صدیقی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ دیکھنا ناقابل یقین ہے کہ پاکستان میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ عمران خان کی حمایت میں آرہے ہیں۔‘

تاہم پی ٹی آئی کی اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کے حامیوں پر تنقید کر رہی ہیں اور انہیں اس وقت کی یاد دلا رہی ہیں جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم شریف کو جیل بھیجا گیا تھا۔ تب عمران خان حکومت نے کہا تھا کہ انصاف ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments