پیشہ ورگداگروں سے ہوشیار اور خبردار


رمضان آتا ہے برکت لاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ ثواب میں برکت، کاروبار میں برکت، خیرات میں برکت، امداد میں برکت اور ہاں کراچی میں ایک اور قسم کی برکت ہوتی ہے اور وہ ہے مانگنے والوں کی تعداد میں برکت۔ یہ برکت پیشہ ور گداگروں کی ہوتی ہے اور یہ اتنی ہوجاتی ہے کہ ہر سڑک، چورنگی، گرین بیلٹ، پلوں کے نیچے خاندانوں کے ساتھ آباد ہوجاتی ہے اور چاند رات تک یہاں عید مناتی ہے اور پھر چھوٹی عید کو بڑے طریقے سے منانے اپنے اپنے علاقوں کی جانب روانہ ہوجاتی ہے۔

یہ عام بھکاری نہیں ہوتے بلکہ انتہائی پیشہ ور ہوتے ہیں، جو عام لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو جال میں پھنساتے ہیں اور ان سے پیسے بٹورتے ہیں۔ ان کے مانگنے کے انداز بہت طرح کے ہوتے ہیں کہیں یہ زخمی بن جاتے ہیں، کہیں یہ معذور بن جاتے ہیں اور کہیں یہ کوئی ڈرامہ لگا کر پیسے وصول کرتے ہیں۔ اندازے کے مطابق کراچی میں ایک فقیر کی یومیہ کمائی 1300 سے 1500 تک ہے اور یہ عام بھکاری ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی روپ دھار کر یعنی زخمی، معذور اور بچوں کے ساتھ کھڑے ہونے والے بھکاریوں کی یومیہ اجرت 2 ہزار سے 3000 تک ہوتی ہے۔

ایک ایک سگنل پر ایک ہی خاندان کے 10 12 بچے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ بچے پیدا ہی اس مقصد کے لئے کرتے ہیں کہ جتنے زیادہ ہوں گے دھندا اتنا ہی چمکے گا۔ یہ ڈھونگی گروپ بظاہر بہت معصوم دکھائی دے گا مگر یہ پورا گینگ ہوتا ہے اور باقاعدہ اپنے علاقے میں کسی دوسرے بھکاری کو برداشت نہیں کرتا اور اگر کوئی آ جائے تو باقاعدہ لڑتا ہے اور اپنے علاقے سے اسے دھکیل دیتا ہے۔ صرف کراچی شہر میں اس طرح کے ہزاروں گروپس کام کر رہے ہیں جو باقاعدہ منظم انداز میں یہ دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے پیچھے مضبوط مافیا سرگرم ہے۔

ان ہی معصوم دکھائی دینے والے لوگوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو چوری چکاری کرتے ہیں، ڈکیتیاں مارتے ہیں، گاڑی کی بیٹریاں، سائیڈ مرر اور ساؤنڈ سسٹم چرا لیتے ہیں۔ یہ لوگ بھرپور جانفشانی سے لوٹ مار کرتے ہیں اور پھر عید منانے اپنے اپنے علاقوں کو پلٹ جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی کچھ تعداد اس شہر میں مسلسل کارروائی کرتی رہتی ہے لیکن ان کے ہاتھ سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو یہ اپنے آبائی شہروں میں پلٹ جاتے ہیں اور کچھ مہینوں روپوش رہنے کے بعد واپس آ جاتے ہیں۔

بھیک مانگنا پہلے پہل مجبوری سمجھی جاتی تھی مگر اب یہ پیشہ بن گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے اور اس میں بہت کمائی ہے اور کھانا پینے کا سلسلے بھی بہت اعلی رہتا ہے۔ یہ گداگر روزانہ مرغ مسلم کھاتے ہیں وہ ایسے کہ کبھی کوئی دے جاتا ہے اور کبھی یہ دکانوں کے باہر کھانے لے جانے والوں کے پیچھے لگے جاتے ہیں اور پھر کوئی خدا ترس بندہ ان کو کچھ نہ کچھ دلا دیتا ہے۔ یہ روز بچوں کے دودھ کے نام پر ، بچوں کے کھانے کے نام پر ، بیمار ماں کے نام پر ، معذور باپ کے نام پر معصوم لوگوں کو چونا لگاتے ہیں۔

یقیناً مدد کرنے والے کی نیت اچھی ہوتی ہے مگر ان کو چاہیے کہ تھوڑی محنت کر کے دینے والے امداد کسی حقیقی مجبور کو ، کسی سفید پوش شخص کو دے دیں، تاکہ دینے والے کو ثواب کے ساتھ کسی مجبور حقیقی شخص کو فائدہ بھی پہنچ جائے۔ یقیناً پاکستانی امداد دینے والوں میں سب سے اوپر ہے کیونکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ انتہائی احسن عمل ہے اور اس عمل کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ عمل پاکستانیوں میں رچ بس گیا ہے۔

امداد حق دار تک پہنچانا مشکل کام ہے کیونکہ پیشہ ور گداگر آپ تک خود پہنچ جاتا ہے جب کے ضرورت مند تک آپ کو پہنچنا ہوتا ہے۔ اس بار ان لوگوں کی مدد نہ کریں جو مانگتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی مدد کریں جو خاموش رہتے ہیں، جو سفید پوش ہیں۔ ایسے لوگ آپ کے گھر میں بھی ہوسکتے ہیں، ایسے لوگ آپ کے پڑوس میں بھی ہوسکتے ہیں، ایسے لوگ آپ کے رشتے دار بھی ہوسکتے ہیں ایسے لوگ آپ کے آفس میں بھی ہوسکتے ہیں۔ وہ لوگ جو سفید پوش ہیں وہ کبھی آپ سے مانگیں گے نہیں بلکہ خودداری کے ساتھ جیتے رہیں گے، چاہے انھیں بھوکا رہنا پڑے۔

مہنگائی کا طوفان آپ کے سامنے ہیں، آگر آپ کو مدد کرنی ہے تو ان لوگوں کی کریں جو محنت کر رہے ہیں، نوکری کر رہے ہیں مگر مالی طور پر کمزور ہیں کیونکہ محدود و سیلری میں ان کا گزارہ نہیں ہو رہا۔ گارڈ کی سیلری، آفس بوائے کی سیلری، 20، 25 ہزار سیلری والے لوگ جن کو آپ جانتے ہیں ان کی مدد کیجئے کیونکہ وہ محنت تو کر رہے مگر ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ یہ گروہ معاشی طور پر انتہائی مشکل میں ہے جس کو تھوڑی بہت مدد کے بعد کم کیا جاسکتا ہے۔

مختصر یہ کہ اپنی امداد کو پیشہ ور کے بجائے سفید پوش طبقے تک پہنچائے۔ اپنے بھائی، اپنی بہن، اپنے رشتے دار، اپنے محلے والے یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے آپ کی مدد کے حقدار ہیں اور پھر اس کے بعد دوسری جانب دیکھیں۔ یقین جانیے اس مہنگائی نے لاکھوں خاندانوں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے اور کھاتے پیتے گھرانے بھی مشکل میں آ گئے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنی امداد حق داروں تک پہنچائے تاکہ دھوکے بازوں کے حوصلہ کم ہو سکیں اور سفید پوش طبقے کو کچھ سکون مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments