مردود ڈاکٹر اور عبداللہ غازی کی فائلیں کیسے تبدیل ہوئیں؟


وہ دونوں میدان حشر میں موجود تھے، آخری فیصلہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر جنت کی جانب جانے والے لوگوں کی قطار میں کھڑا تھا۔ قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ اچانک اس کے بائیں جانب دوزخ جانے والی قطار میں کھڑے ایک فربہ لڑکے نے اچانک چیخ و پکار شروع کردی، ”یہ کافر ہے، یہ تو کافر ہے، یہ جنت کیوں جا رہا ہے اور میں دوزخ میں کیوں؟ نہیں، نہیں، یہ زیادتی ہے، یہ نا انصافی ہے۔“ وہ ڈاکٹر کو دیکھ کر بری طرح تڑپ رہا تھا، کسی ذبح شدہ جانور کی طرح ڈکرا رہا تھا۔

ڈاکٹر نے نظر اٹھا کر شور مچانے والے کی طرف دیکھا تو اسے لگا جیسے اس نے لڑکے کو کہیں دیکھا ہے۔ وہ چھوٹے سے سر اور گھنی داڑھی والا درمیانے قد کا بھاری بھرکم جوان تھا جس کے ہاتھ اس کے جسم کی مناسبت سے نسبتاً ً کافی بڑے تھے۔ دماغ پر زور دینے سے ڈاکٹر کے ذہن میں اچانک ایک منظر کودا اور اسے یاد آ گیا کہ اس نے نوجوان کو کہاں دیکھا تھا۔

زمین پر ڈھیر ہونے سے پہلے اس نے جو چہرہ آخری بار دیکھا تھا، وہ اسی نوجوان کا تھا۔ چلیں میں آپ کو اس نوجوان اور پھر ڈاکٹر کی کہانی سناتا ہوں۔

چھ بہن بھائیوں میں نوجوان کا تیسرا نمبر تھا۔ پڑھائی کے بجائے اس کا دل کھیل میں لگتا تھا۔ سارا وقت کرکٹ کھیلتا اور چھکے لگاتا تھا مگر ماں باپ کے لیے یہ لہو و لعب تھا۔ پھر میٹرک میں وہ فیل ہو گیا۔ تب اس کی ماں کو احساس ہوا کہ کوئی ایک بچہ ضرور حافظ قرآن ہونا چاہیے تاکہ ماں باپ کو اپنے ہمراہ جنت لے جا سکے۔ نماز روزہ، صدقہ خیرات اپنی جگہ لیکن وہ جنت پر رسک نہیں لینا نہیں چاہتی تھی۔

اس نے بات مان لی۔ اسے ماں باپ نے، اسکول نے، ٹیچرز نے صرف مان لینا، یقین کرنا ہی سکھایا تھا۔ انتخاب کا حق کیسے چھینتے ہیں معلوم نہیں تھا۔ نہ کھیل، نہ موسیقی، نہ کمپیوٹر، نہ لائیبریری، بس یک رنگی دنیا تھی جس میں سب لوگ، سب کام، سب رسوم، سب تہوار ایک جیسے تھے صرف بوجھل اور دشوار۔

مدرسے میں ایک ہی کام مسلسل کرنا اس کے لیے مشقت طلب ضرور تھا لیکن مشکل نہیں۔ پانچ نہیں کم ازکم دو تین وقتہ نمازی ہو گیا تھا۔ کپڑے رنگین سے صرف دو رنگ کے ہو گئے۔ گفتگو میں اب موقع محل کے لحاظ کے بغیر، ہر وقت مذہب، گناہ و ثواب، سنت، اللہ، شیطان جیسے الفاظ کی گردان تھی۔ ماں باپ خوش تھے، بلکہ اب تو انہیں جنت کی بھینی بھینی خوشبو بھی محسوس ہوتی تھی۔

مدرسے کے ذریعے اس کی شناسائی ایک مولوی سے ہوئی۔ وہ پہلے خوب شعر و شاعری سے مرصع خطبات میں خوابناک جنت کی منظر کشی، حوروں کے خدوخال، دودھ و شہد کی نہروں کا ذکر اور دیگر لوازمات بیان کرتا۔ اور آخر میں دین کی حفاظت، شریعت کا نفاذ، ریاست مدینہ کی تشکیل کے لیے جد و جہد کرنا وغیرہ وغیرہ کی ذمہ داری سادہ ذہن سامعین کے ذمے لگا کر اپنے حجرے میں استراحت کرتا تھا۔

یہ سب سن کر عبداللہ کے رگوں میں خون جوش مارتا تھا، وہ بھی کچھ کرنا چاہتا تھا، مگر کیسے؟ ملک کی، دین کی خدمت کیسے کرے؟ ایسا کون سا ہنر ہے اس کے پاس جو اس نیک مقصد میں اس کے کام آئے۔ کچا ذہن اور ہزاروں کیوں، کیسے؟ جوابوں کے بغیر اتنے سوال جھیلنا آسان نہیں تھا۔

چلیں اب ڈاکٹر کی سناتا ہوں۔

ڈاکٹر کا اسی نوجوان کے محلے میں ایک چھوٹا سا کلینک تھا۔ دوا اچھی دیتا تھا یا مریض کو خوش کرنے کے لیے پہلی بار ہی ہائی پوٹینسی لکھ دیتا تھا، پتا نہیں، مگر کلینک پر جلد ہی رش رہنے لگا۔ جو افراد فوری فیس نہیں دے سکتے تھے ان کو مفت تشخیص کی سہولت دی ہوئی تھی۔ خوش اخلاق، اور محنتی ڈاکٹر کی مشہوری میں وقت نہیں لگا۔ وہ بھی جد و جہد کر رہا تھا۔

نوجوان بھی اپنے ماں باپ کی طرح جب کبھی بیمار ہوتا تو اس کے ہی کلینک جاتا تھا۔ پہلی بار جب وہ ڈاکٹر کے پاس گیا تو اسے ڈاکٹر اچھا لگا، قابل رشک حد تک صاف ستھرا اور حسد انگیز حد تک اپنے کام میں مگن، مطمئن اور خوش۔ مریض کی بیماری وہ اس قدر توجہ سے سنتا تھا جیسے اس سے زیادہ اہم دنیا میں کوئی نہیں۔ چند لمحوں کے لیے اتنی شدید توجہ پا کر عبداللہ کچھ گڑ بڑا جاتا تھا۔

ایک دن نوجوان کو مولوی صاحب کے حلقے میں گردش کرتی ایک فہرست سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کا تعلق اس اقلیت سے ہے جنہیں جینے کا حق نہیں۔ اس میں ڈاکٹر کا نام دیکھ کر ایک نا معلوم سا اطمینان اس میں سرایت کر گیا۔ ڈاکٹر کے لیے اس کا رشک اور حسد مدہم پڑ گیا۔ ’بے چارہ زندیق، مرتد، ہدایت سے محروم۔ یہاں جیسا بھی خوش رہ لے، آخری ٹھکانہ تو جہنم ہی ہو گا۔ ‘ اس نے سوچا تھا۔

اگلی بار وہ کلینک گیا تو اسے کرسی پر ایک کراہت آمیز غلیظ کیڑا ملا۔ لجلجا، بد صورت، رینگتا ہوا۔ اس نے کئی بار پلکیں جھپکا جھپکا کر آنکھیں صاف کر نے کے بعد دیکھا لیکن ہر بار کیڑا ہی کرسی پر کلبلاتا نظر آیا۔

وہ ایک بار کلینک گیا۔
دوبارہ کلینک گیا
پھر کلینک گیا، لیکن پھر وہی کراہت آمیز، کچلے جانے کے لائق، بدبودار کیڑا۔
اور پھر ایک دن وہ ڈاکٹر کے سامنے تھا۔ بے ترتیب دھڑکن اور لرزتے ہاتھوں میں خنجر کے ساتھ۔

” گستاخ، زندیق۔“ نوجوان کے آخری الفاظ ڈاکٹر کے کانوں میں گونجے اور آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہونے سے پہلے عبداللہ کی آنکھوں میں چمکتی خوشونت، الجھن، غصہ اور معصومیت اس کے ذہن پر نقش ہو گئی۔ اسے مرنے کے افسوس سے زیادہ عبداللہ پر ترس آیا۔

اور آج وہ پھر ڈاکٹر کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ ہارا ہوا، دھوکا کھایا ہوا، مختصر راستوں کی خواہش کا ڈسا ہوا۔

ڈاکٹر نے گارڈ فرشتے سے پوچھا ”یہ کیوں شور مچا رہا ہے؟“

” کہتا ہے مولوی صاحب نے کہا تھا میں جنتی ہوں، میں غازی ہوں اس لیے دوزخ میں نہیں جا سکتا، یقیناً فرشتوں سے کوئی بھول ہوئی ہے۔“ فرشتے نے ہنکارا بھر کے جواب دیا۔

” تو کیا جنت میں غازیوں کے لیے کوئی درجہ نہیں ہے؟“ ڈاکٹر نے حیرت سے سوال کیا۔

” ڈاکٹر میاں، یہ فیصلے خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ اور وہ اپنے بندوں کے ساتھ اچھے سلوک پر جنت سے نوازتا ہے، اپنے نام پر بے گناہوں کا خون بہانے کے لیے نہیں۔ چلو، چلو آگے بڑھو۔“ فرشتے نے آواز لگائی اور خود بھی آگے بڑھ گیا۔

آہستہ آہستہ، عبداللہ کی چیخ و پکار بھی معدوم ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments