میری زندگی کے ساتھی، میرے ہم سفر


پتہ نہیں کیوں آج ان کی یاد بڑی شدت سے آ رہی ہے۔ ان کے ساتھ گزرے ہوئے زمانے کی یادیں رہ رہ کر کچوکے لگا رہی ہیں۔ آج ان کی آٹھویں برسی ہے لیکن لگتا ہے ان کو جدا ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں۔ آج صبح ہی سے میرا دل بہت پریشان تھا، مجھے اداسی کا شدید دورہ پڑا تھا۔ بیٹی کتنی دیر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چپ چاپ میرے پاس بیٹھی رہی۔ چھوٹی نواسی بھی بار بار میرے ساتھ لپٹ کر پیار کر رہی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں دل کو قرار نہیں آ رہا۔ میں نے ان کے بعد اپنے آپ کو عبادت کی دنیا میں غرق کر لیا تھا۔ عبادت میں محو ہونے سے ان کی یاد بھی کچھ کم ہو گئی تھی لیکن آج عبادت میں بھی مجھے وہ استغراق نظر نہیں آیا۔

ان کے جانے کے بعد چھ سات سال میں نے بڑے حوصلے سے گزارے ہیں۔ بچے بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ آج دل کرتا ہے ان کی باتیں کروں۔ آج میرا کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا، کہاں سے شروع کروں۔ ان کے ساتھ زندگی اتنی اچھی گزری ہے کہ ہمارے سب رشتہ دار ہماری جوڑی کی مثال دیتے تھے۔ کبھی کبھی وہ مجھے تنگ کرنے کے لیے کہتے کہ آج میرا بلڈ پریشر زیادہ ہے، لگتا ہے مجھے کچھ ہو رہا ہے تو مجھ غصہ آ جاتا اور میں ان سے لڑنا شروع ہو جاتی کہ ایسی باتیں کیوں منہ سے نکالتے ہیں۔ شاید یہ میرے اندر کا ڈر تھا جو ایسی باتیں سن کر فوراً ً باہر آ جاتا تھا کیونکہ میرے ابا جی کا انتقال میرے بچپن میں ہو گیا تھا۔

وہ ہمارے دور پار کے رشتہ دار تھے۔ شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ شادی سے پہلے شاید ایک آدھ بار ہی ان کو دیکھا تھا۔ میں ایف ایس سی کر رہی تھی کہ میرے لئے ان کا رشتہ آیا۔ ان دنوں ماں باپ ہی بیٹھ کر رشتہ کی بات کرلیتے تھے۔ بچوں کو صرف بتا دیا جاتا تھا۔ مجھے بھی بتایا گیا کہ آپ کا رشتہ طے کر رہے ہیں۔ کوئی باقاعدہ تقریب نہیں ہوئی بس بات چیت طے ہو گئی۔ چھ ماہ بعد ان کی طرف سے رخصتی کا تقاضا شروع ہو گیا۔ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے ان کے بوڑھے والدین اپنی زندگی میں ان کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ ابھی یہ بات چیت چل ہی رہی تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ میں بھی اپنی پڑھائی میں مگن ہو گئی۔

بی ایس سی کے پہلے سال میں تھی کہ میری ان سے شادی ہو گئی اور میں بیاہ کر ان کے ساتھ گاؤں میں آ گئی۔ گاؤں میں ان کا پرانا بنا ہوا چھوٹا سا گھر تھا، جیسے گاؤں میں عموماً ہوتے ہیں۔ دو کمرے، ساتھ میں ایک بیٹھک اور صحن میں ایک طرف چھوٹا سا کچن۔ میں شہر میں پلی بڑھی تھی۔ میں واپس جا کر اماں سے خوب لڑی کہ مجھے کہاں گاؤں میں پھینک دیا ہے، چھوٹا سا پرانا گھر ہے۔ پانی باہر سے لانا پڑتا ہے۔ کوئی ڈھنگ کا غسل خانہ نہیں ہے، نہ کوئی باورچی خانہ بنا ہوا ہے۔ اماں نے پوچھا کہ خاوند کا رویہ کیسا ہے۔ وہ تو میرے ساتھ اچھے ہیں۔ اماں جی بھی بہت پیار کرتی ہیں۔ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتیں۔ اس پر اماں جان بولیں ”پھر بیٹا یہ سب چیزیں آہستہ آہستہ بن جائیں گی۔ آپ دونوں کا ساتھ بہت اچھا گزرے گا۔ بیٹے اگر ساتھی اچھا ہے تو پھر ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔“

پھر ایک ہی ماہ کے اندر ہی ہم نے ایک کمرے کو باورچی خانہ میں تبدیل کیا۔ اسی کمرے کے ایک کونے میں غسل خانہ بن گیا۔ ٹائلٹ پہلے ہی صحن کے ایک کونے میں بن گئی تھی۔ وہ دفتر چلے جاتے تو گاؤں کی لڑکیاں میرے پاس آنا شروع ہو گئیں۔ وہ بڑی حیران ہوتی تھیں کہ شہر کی لڑکی گاؤں میں کیسے آ کر بسنے لگ گئی ہے۔ وہ میرے پاس بیٹھی رہتیں، کوئی برتن دھو دیتی، کوئی گھر کی صفائی کر دیتی۔ کوئی کھانا بنا نے میں مدد کر دیتی کیونکہ کھانا میں خود بناتی تھی گو کہ اماں جی مجھے کچھ کرنے نہیں دیتی تھیں۔

میرا دن بہت آرام سے گزر جاتا۔ اللہ نے خوشی دکھائی اور شادی کے پہلے سال ہمارا بیٹا پیدا ہوا۔ ان کی کیا ہمارے پورے خاندان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ بیٹے کی وجہ سے مجھے پڑھائی ادھوری چھوڑنا پڑی۔ پھر تین تین سال کے وقفہ سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ وہ بیٹیوں کی پیدائش پر بہت خوش تھے۔ یہ ہماری چھوٹی سی جنت تھی۔ اسی دوران اماں جی کا انتقال ہو گیا۔

انہوں نے مجھے اتنا پیار دیا، مان دیا۔ کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ آمدنی کم ہونے کے باوجود میں خوش تھی کیونکہ مختصر خاندان تھا، گزارہ اچھا ہو رہا تھا۔ بیٹے کے سکول جانے کی عمر ہوئی تو اس کی پڑھائی کے لیے انہوں نے گاؤں چھوڑ کر قریبی شہر میں بسنے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں مجھے ہر سہولت میسر تھی اس لئے میں گاؤں چھوڑنے پر تیار نہیں تھی لیکن ان کا فیصلہ اٹل تھا، اس کے لیے انہوں نے شہر میں مکان کرائے پرلے لیا ہوا تھا۔

بیٹے کو شہر کے سب سے اچھے سکول میں داخل کرایا۔ شہر میں گزارا مشکل ہوا تو انہوں نے اوور ٹائم لگانا شروع کر دیا۔ ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ میں اور بچے اچھا کھائیں، اچھے سے اچھا پہنیں۔ ہمیں ہر سہولت میسر ہو۔ اس کے لیے انہوں نے بہت محنت کی۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو شہر آنے کے چار سال بعد بینک سے قرضہ لے کر ہم نے اپنا چھوٹا سا لیکن خوبصورت ذاتی مکان بنا لیا۔ گھر کا کام تھوڑا سا ادھورا تھا۔ ایک دن میں نے اپنا زیور انھیں دیا کہ اسے بیچ کر گھر مکمل کریں۔

وہ اس پر سخت ناراض ہوئے کہ یہ کام نہیں کرنا گھر کسی نہ کسی طرح مکمل ہو جائے گا۔ میرے سختی کرنے پر ہم نے زیور بیچا اور گھر مکمل کروا کر ہم اس میں شفٹ ہو گئے۔ اس سے اگلے سال ان کی پروموشن ہوئی تو ہم نے بینک سے مزید قرض لے کر چھوٹی سی کار بھی لے لی۔ حالات مزید بہتر ہونے پر اگلے تین چار سال میں انہوں نے مجھے زیور بنوا دیا۔ اب بیٹیاں بھی اب سکول جانے لگیں تھیں۔ گھر اور گاڑی کے لیے بینک سے لیے گئے قرض کی قسطیں ادا کرنے کی وجہ سے ان کی تنخواہ میں گزارہ مشکل ہونے لگا تو میں نے ایک سکول میں ملازمت کر لی۔ اس اضافی آمدنی سے حالات کچھ بہتر ہو گئے۔ لیکن ان کو میرا کام کرنا اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ چاہتے تھے میں آرام سے رہوں۔

وہ بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کا اپنا بچپن عسرت میں گزرا تھا اس لیے ان کی کوشش ہوتی تھی کہ بچوں کو ہر سہولت میسر ہو۔ ہر ہفتے ہم بچوں کے لے کر کہیں گھومنے چلے جاتے۔ ہماری ایک چھوٹی سی جنت تھی جس میں ہم خوش تھے۔ ماں باپ کا باندھا ہوا شادی کا بندھن کب پیار محبت کے بندھن میں بدلا، پتہ ہی نہیں چلا۔ وہ بڑی ایمان داری اور محنت سے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ بیٹے کو یونیورسٹی میں داخلہ ملا، بیٹیاں بھی یونیورسٹی جانے لگیں۔

اخراجات بڑھ گئے لیکن میں نے کبھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی۔ بیٹے نے یونیورسٹی کے بعد اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش ظاہر کی تو گھر بیچ کر اسے امریکہ بھیج دیا۔ میں نے گھر بیچنے پر ناراضگی کا اظہار کیا تو کہا ”بیٹے کی خواہش پوری ہو جائے گھر کا کیا ہے وہ تو پھر بن جائے گا۔ وہ بہت محنتی تھے۔ اپنا کام بڑی جاں فشانی اور مہارت سے کرتے تھے۔ ان کی ترقی ہونے کے ساتھ ساتھ آمدنی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔

زندگی آسان ہو گئی تھی۔ شہر کی ساری سہولتیں میسر آ گئیں۔ اب مجھے اپنی اماں کے کہے ہوئے الفاظ یاد آتے تھے۔ انھیں اپنی بیٹیوں سے حد درجہ پیار تھا، وہ جو بات منہ سے نکالتیں وہ پوری ہو جاتی۔ مجھے گھومنے اور نئی جگہیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ کہیں نہ کہیں جانے کا پروگرام بنا لیتے۔ ان کے ساتھ میں نے بہت سی جگہوں کی سیر کی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی کبھار لڑائی بھی ہوجاتی تھیں لیکن گھر میں ہمارے سوا کوئی تیسرا بڑا بندہ نہیں تھا اس لئے جلد ہی صلح صفائی بھی ہو جاتی۔

میں تو اپنے گھر کی رانی تھی۔ میں کبھی اکیلے بازار نہیں گئی تھی۔ خریداری میں ہمیشہ وہ ساتھ ہوتے تھے۔ میں کہتی تھی آپ کی پسند اچھی ہے، اپنی پسند کی چیزیں مجھے دلائیں۔ وہ میرے اور بچوں کے لئے ہمیشہ اچھی سے اچھی اور مہنگی اشیا ہی خریدتے تھے۔ سروس کے آخری سالوں میں بہت بڑے عہدے پر تعینات ہونے کے باوجود ان میں کوئی کروفر نہیں آتا۔ اپنے عملے سے بچوں کی طرح پیش آتے۔ ان کا ڈرائیور ہمارے گھر کا فرد سمجھا جاتا تھا جس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے۔

مجھ نہیں لگتا کہ شادی کے آخری تیس سالوں میں ہم کبھی دس دن سے زیادہ ایک دوسرے سے دور رہے ہوں۔ گو ہماری آدھی زندگی بڑے مشکل حالات میں گزری لیکن مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کیونکہ وہ ہر قد ہر لمحے میرے ساتھ تھے۔ پھر جب اچھا وقت آیا تو پھر بھی ان کا ساتھ تھا۔ کبھی کوئی کوئی کام انہوں نے میرے مشورے کے بغیر نہیں کیا۔ وہ کبھی مذاق میں کہتے تھے کہ میں چلا گیا تو مجھے یاد کیا کرو گی۔ تم سارے کام مجھ پر چھوڑ دیتی ہو تو میں جواب میں کہتی تھی، فکر نہ کریں میں آپ سے پہلے جاؤں گی۔ آپ کے خاندان میں مردوں کی زندگیاں بڑی لمبی ہوتی ہیں۔ لیکن پتہ ہی نہیں چلا وہ ہنستے کھیلتے اچانک ایک دن ہم سب کو چھوڑ کر اپنے آخری سفر پر چل دیے۔ ان کی اور اتنی ڈھیر سی باتیں یاد آنے لگی ہیں لیکن اب لفظ دھندلا گئے ہیں اور انگلیوں میں بھی مزید لکھنے کی ہمت نہیں رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments