تاریخ کا مطالعہ آسان نہیں


تاریخ گاڑی کے فرنٹ مرر یعنی آئینے کی طرح ہوتا ہے جس میں آ پ کو گاڑی کے پیچھے کا پس منظر دکھائی دیتا ہے. آگے کی طرف ڈرائیو کرنے کے لیے پیچھے دیکھنا بھی ضروری ہے.. افراد اور قوموں کا حال اور مستقبل میں آگے بڑھنے کے لئے اپنے آپ کو ماضی اور آپنی تاریخ کے آئینے میں دیکھنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے. جہاں تاریخ اپ کو شناخت عطاء کرتا ہے وہیں پہ غلطیوں سے سیکھنے, اقدار و روایات کو زندہ رکھنے , اور تبدیلی کے عمل کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے. لیکن تاریخ کا مطالعہ آسان نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات تاریخ کا مطالعہ رہنمائی مہیا کرنے کی بجائے الجھن, اور غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے اس لئے تاریخ کی کوئی بھی کتاب پڑھنے سے پہلے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے:
1- تاریخ کی کتابیں حالات و واقعات اور حقائق کو بیان نہیں کرتیں بلکہ تاریخ لکھنے والے کی نظر سے کچھ منتخب حالات و واقعات اور تاریخی حقائق کی تشریح پہ مشتمل ہوتیں ہیں.
2- مورخ یعنی بہت سارے حقائق میں سے کچھ حقائق منتخب کرتا ہے اور انکی تشریح کرکے کوئی نہ کوئی مطلب یا نتیجہ اخذ کر لیتا ہے . ایسے بہت سے حقائق ہو سکتے ہیں جو اسکی نظر سے نہ گزرے ہوں یا اس نے جان بوجھ کر یا غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کئے ہوں. مثلا زیادہ تر تاریخ کی کتابوں میں محلاتی سازشوں, جنگوں , فتح, شکست اور تحریکوں کا ذکر ملے گا. لیکن ظاہر ہے لوگ جیتے اور مرتے ہونگے, تہوار مناتے ہوں گے, موسیقی اور شاعری لکھتے ہونگے, کاروبار اور کھیتی باڑی بھی کرتے ہونگے لیکن اس کا بہت کم ذکر ملے گا.
3- تاریخ لکھنے والے کی آپنی ذاتی سیاسی, ثقافتی, سماجی, معاشی اور مذہبی وابستگی ہوتی ہے اور جب وہ تاریخ لکھنے بیٹھ جاتا ہے تو اس کی یہ وابستگی اور ڈاتی پس منظر حقائق کے انتخاب اور ان کی تشریح پہ اثر انداز ہوتا ہے. مثال کے طور پراگر ایک کٹر روسی مورخ سرد جنگ clod war کی تاریخ لکھے گا تو وہ اس تاریخ سے مختلف ہو سکتی ہے جو ایک کنزرویٹیو امریکن مورخ لکھے گا.
4-تاریخ لکھنے والے کا علمی لیول اور کسی بھی واقعے یا حقیقت کے بارے میں اسکی اخلاقی نقطہ نظر بھی تاریخ پہ اثر انداز ہوگا. مثلا سوشلزم کے بارے میں اگر کوئی تاریخ لکھے تو اسکی لکھی ہوئی تاریخ کی صداقت کا دارومدار اس بات پہ ہوگا کہ وہ شخص سوشلزم کے بارے میں کتنا جانتا ہے اور آیا وہ اسکو انسانی معاشرے کے لئے مناسب سمجھتا یا نا مناسب
5- ماضی کے بہت سارے تاریخ دان بادشاہوں اور راجاؤں کے دربار سے وابستہ ہوتے تھے. اور آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بادشاہ کے خلاف کوئی بات لکھنا یا بادشاہ کے مخالفیں کے حق میں کوئی تاریخی حقیقت بیان کرنا کتنا مشکل رہا ہوگا. ترقی اور سماجی آزادی کے باوجود شاید آج کی دنیا میں بھی یہ کام اتنا آسان نہیں. مختلف ملکوں میں اس کے بارے میں حدیں مقرر ہیں اور اپ ان سے باہر نکل کے مکمل حقیقت بیان کرنے کے پوزیشن میں نہیں ہوتے.
6- تاریخ کا ایک میگا نریٹو، اور یہ سلطنتوں اور طاقتور گروپوں سے متعلق ہے۔ تاریخ کے اس میگا نریٹیو نے مقامی تاریخ کو یا تو دبا دیا ہے یا پس منظر سے پی غایب کردیا ہے۔ ہم بادشاہوں اور سلطنتوں کی تاریخ تو جانتے ہیں اور ان پہ لڑ مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن اپنے باپ دادا کی میراث یا اپنے علاقائی تاریخ سے آشنا ہی نہیں ہوتے ۔
اس کے علاوہ علمی اور تاریخ کی سمجھ کے فلسفیانہ مسائل بھی ہیں جیسے تاریخی جبریت , تاریخ میں بیانیے کے مباحث اور تاریخی حقیقت کے اداراک کے تضادات شامل ہیں جس پہ پھر کبھی بات ہوگی فی الحال اس گفتگو کو مندرجہ ذیل سوالات کے ساتھ سمیٹنا چاہوں گا جو کسی بھی تاریخ کی کتاب پڑھنے سے پہلے آپ کو آپنے آپ سے پوچھنا چاہئے:
1- مورخ کون ہے
2- اسکا سیاسی, ثقافتی, مذہبی اور سماجی پس منظر کیا ہے
3- جس ملک یا گروہ کی وہ تاریخ لکھ رہا ہے وہ انکا حمایتی ہے یا مخالف
4- اس کتاب کو لکھنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے.
5- کیا کسی متبادل تاریخی بیانیے کو تحمل سے سننے سے انسان نقصان تو نہیں اٹھاتا؟
6- کیا آپ دوسروں کے تاریخی بیانیے کو شک کا فایدہ دے سکتے ہیں؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments