’میری دادی کی موت کے وقت مجھے انھیں چھونے سے روک دیا گیا‘


ہرشیتا کو اپنی دادی کی موت سے پہلے کبھی بھی صنفی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس تجربے نے ہرشیتا کو اس صنفی امتیاز پر سوال اٹھانے پر مجبور کر دیا جس کا سامنا خواتین کو رسومات کے نام پر کرنا پڑتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہرشیتا شاردا نے اپنی روداد کچھ یوں سنائی:

میری دادی کی موت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ ہم رشتے کے ایک خاص دھاگے میں بندھے تھے۔ وہ مجھے یہ احساس دلاتی تھیں کہ میں اس دنیا میں سب سے بہتر ہوں۔ ہر لحاظ سے کامل۔

میں نے اپنی دادی کی موت سے نہ صرف ایک ایسے شخص کو کھو دیا جس سے میں بہت پیار کرتی تھی، بلکہ ان کی موت کے وقت مجھے اپنے پیاروں کی آخری رسومات کے وقت خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اس سال 23 جنوری کو میں نے اپنی دادی نرملا دیوی کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ ان کی وفات 95 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ وہ واحد شخصیت تھیں جو کھل کر میری تعریف کرتی تھیں۔

ان کی وفات سے ایک شام پہلے انھوں نے میری بنائی ہوئی چائے کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ میں اپنے بھائی سے بہتر چائے بناتی ہوں (میرے بھائی اور میری ہمیشہ یہ لڑائی رہتی ہے کہ کون سب سے اچھی چائے بناتا ہے)۔

ویسے میری دادی پورے خاندان سے بہت پیار کرتی تھیں۔ لیکن وہ میرے لیے میرے دل میں ایک خاص جگہ رکھتی تھیں۔ وہ میری بنائی ہوئی ٹیڑھی روٹیوں کی تعریف کرتی تھیں اور دال میں نمک زیادہ ہونے پر بھی اس کے تعریف کرتی تھیں۔ میں انھیں پانی کا گلاس بھی دیتی تو وہ میری بلائیں لیتیں۔

انھیں دل کا دورہ پڑا اور پھر ایک ہفتہ تک ہسپتال میں داخل رہنا پڑا۔ وہ ہسپتال سے صحت یاب ہونے کے بعد گھر واپس آگئیں۔ لیکن انھوں نے چار دن بعد آخری سانس لی۔

ہرشیتا

جب دادی نے آخری سانس لی۔۔۔

میں دلی میں پڑھتی ہوں۔ لیکن اپنی دادی کی خراب صحت کی خبر سن کر میں جالندھر میں اپنے گھر پہنچ گئی تھی۔ جب میری دادی زندگی کے آخری لمحات میں تھیں تو ان کی ایک آخری خواہش تھی۔ وہ زمین پر لیٹ کر مرنا چاہتی تھیں۔ ان کی خواہش پوری کرنے کے لیے میرے والد نے انھیں زمین پر لیٹانے کا فیصلہ کیا۔

جب وہ انھیں بستر سے اٹھا رہے تھے تو انھوں نے مدد کے لیے ہاتھ بڑھانے کو کہا۔ جیسے ہی میں اپنے والد کی مدد کے لیے آگے بڑھی، میری دادی کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کردہ خاتون نے یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ ہٹا دیا کہ میں اپنی دادی کو ہاتھ نہ لگاؤں، ورنہ اگر میں نے انھیں اب ہاتھ لگایا تو وہ ’عذاب میں پڑ جائیں گی‘۔

مجھے اس عورت کی بات پر غصہ آیا اور چیخ کر کہا کہ اگر میں اپنی دادی کو ہاتھ لگاؤں تو وہ خوش ہو جائیں گی کیونکہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔ یہ کہہ کر میں روتے ہوئے کمرے سے نکل گئی کیونکہ میرے لیے وہ موقع ایسا نہیں تھا کہ میں اس اصول کے خلاف جنگ کروں۔

میرے والدین نے بھی خاتون کے کہنے پر اعتراض کیا اور مجھے واپس کمرے میں بلایا۔ لیکن اس عورت کی بات کا میرے دل پر اتنا برا اثر ہوا کہ میں اس کمرے میں نہ جا سکی۔

تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جب لوگوں نے میری دادی کو بستر سے اٹھا کر زمین پر لٹا دیا تو وہ چادر جس پر وہ لیٹی تھیں پھٹ گئی۔ تب وہ عورت جو دادی کی دیکھ بھال کر رہی تھی میرے پاس آئی اور کہنے لگی، ’تم نے اسے چھوا، اسی لیے ایک آدمی اسے اٹھاتے ہوئے لڑکھڑا گیا۔‘

مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کیا سن رہی ہوں۔ وہ بتا رہی تھی کہ میرے دادی کو چھونے سے وہ اگلے جنم میں ’ملعون‘ ہوں گی۔ میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ جو کچھ ہو رہا تھا اسے دیکھ کر میں اس قدر جذباتی ہو رہی تھی کہ میں عورت کو بتا بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ غلط ہے۔ یا وہ نہیں جانتی کہ میں اپنی دادی سے کتنا لگاؤ رکھتی ہوں۔

میں ایک ایسے گھرانے میں پلی بڑھی ہوں جہاں بیٹے اور بیٹیوں کو برابر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ میں اور میرا بھائی زندگی میں جو بھی کرنا چاہتے تھے، میرے والدین نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی۔ حتیٰ کہ میری دادی نے بھی ہم میں کوئی فرق نہیں کیا۔

ایسے میں کسی اجنبی سے یہ سن کر میرے دل کو ٹھیس پہنچی کہ میں اپنی دادی کو ہاتھ نہ لگاؤں۔ یہ ایک دوہرے وار کی طرح تھا۔ مجھے نہ صرف اپنی پیاری دادی سے بچھڑنے کا درد برداشت کرنا پڑا بلکہ اس مردانہ سماج کے متعین کردہ امتیازی اصولوں سے بھی نمٹنا پڑا۔

ہرشیتا

’دادی ایک مضبوط ارادے والی خاتون تھیں‘

میں بچپن سے ہی مضبوط قوت ارادی والی عورتوں کے سائے میں رہی ہوں۔ میں اپنی ماں اور دادی کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہوں۔

میری دادی نے بہت چھوٹی عمر میں اپنے شوہر کو کھو دیا۔ لوگ انھیں بار بار دوبارہ شادی کرنے کا کہتے رہے۔ لیکن، دادی نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے فیصلے پر ڈٹی رہیں۔ وہ پڑھنا چاہتی تھیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ ان کی محنت رنگ لائی اور وہ ایک سکول کی پرنسپل بن گئیں۔

میری دادی کے کبھی بچے نہیں تھے۔ لیکن وہ میرے والد سے اپنے بیٹے کی طرح بہت پیار کرتی تھیں جو ان کی بہن کے بیٹے ہیں۔ ہم انھیں بڑی دادی کہتے تھے۔ وہ ایک مضبوط ارادے والی عورت تھیں، جن کی خوشی کسی مرد پر منحصر نہیں تھی۔

’میرے والد مجھے لوہے کی سلاخ سے مارتے تھے اور کئی گھنٹوں تک میرا خون بہتا رہتا تھا‘

بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کے لیے 29 سال بعد دوبارہ شادی کرنے والا جوڑا کون ہے؟

’بیٹے کو ڈانٹا کہ تیری شادی کی عمر ہے اور میں شادی کر لوں تو لوگ کیا کہیں گے‘

انھوں نے اپنی زندگی اپنی شرائط پر گزاری اور اس دور میں کام کرنے والی عورت کی مثال تھیں جب خواتین کو گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

ان کی موت نے مجھے کئی سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ آخری رسومات ادا کرتے وقت مردوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن حقوق نسواں کی حامی ہونے کے ناطے، کیا میری دادی نے اس سے اتفاق کیا ہوگا؟ اگر میں ان کے مرنے سے پہلے ان کے قریب ہوتی اور ان کی آخری سانس لینے سے پہلے انھیں چھو لیتی، تو کیا غلط ہوتا؟

ہرشیتا

صرف بیٹوں کو ہی آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت کیوں ؟

جب میں ہسپتال میں ان کی دیکھ بھال کر رہی تھی تو مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا کہ میں بیٹا ہوں یا بیٹی۔ پھر ان کی موت کے وقت اچانک سب کچھ کیوں بدل گیا؟ مجھے یاد ہے کہ ان کے آخری سانس لینے سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ ان کے منہ میں گنگاجل ڈالا تھا۔ میرے والدین جانتے تھے کہ میں ان سے کتنا جذباتی لگاؤ رکھتی ہوں۔ اس لیے انھوں نے مجھے کبھی کسی کام سے نہیں روکا۔ لیکن جیسے ہی دوسرے لوگ ہمارے ارد گرد جمع ہوئے، حالات یکایک بدل گئے۔

قریب ہی رہنے والی ایک خاتون نے مجھے اور میری کزن کو شمشان گھاٹ جانے سے منع کیا اور کہا کہ گھر میں رہ کر گھر کی صفائی کریں۔ لیکن میری والدہ اور میری خالہ نے ہمیں کو شمشان گھاٹ جانے کی اجازت دے دی۔ اگر ہمارا خاندان ہمارے ساتھ نہ کھڑا ہوتا تو ہم سب اپنی دادی کی آخری رسومات نہ دیکھ پاتے۔

جب میں نے پوچھا کہ صرف بیٹوں کو ہی والدین کی آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت کیوں ہے تو مجھے مختلف جواب ملے۔ ان میں سے کوئی بھی جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ بہت سی جگہوں پر خواتین کو آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ انھیں شمشان گھاٹ میں جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

کیا اس لیے کہ لوگ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد آخری رسومات ادا کرنے کے لیے بیٹا پیدا ہو؟ کیا یہی چیز انھیں موت کے بعد سکون دیتی ہے؟ کیا خدا مردوں اور عورتوں میں فرق کرتا ہے جنہیں اس نے خود پیدا کیا ہے؟

جب کسی کا پیارا مر جاتا ہے تو آپ صرف ان کے کمرے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو اب خالی ہوگا۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس کی آواز دوبارہ کبھی نہیں سن پائیں گے، اور نہ ہی آپ اس کے پیار بھرے لمس کو دوبارہ محسوس کریں گے۔ شاید اپنی دادی کو آخری بار چھونا اور ان کی آخری رسومات میں شامل ہونا مجھے ان کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے کی طاقت دیتا۔

مجھے صرف ایک بات کا یقین ہے کہ اگر میری دادی اس وقت ہوش میں ہوتیں تو وہ مجھے چھونے سے روکنے پر سب کی سرزنش کرتی۔

(پروڈیوسر: خوشبو ساندھو، ’بی بی سی شی‘ سیریز کی پرودیوسر: دیویا آریہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments