”تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط“


عام پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میں بھی یہ طے کرنے کے ہرگز قابل نہیں ہوں کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 30 اپریل کے دن کروانے کا فیصلہ کتنے ججوں کے حکم سے ہوا تھا۔اس سوال کو زیر غور لانے کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے لیا ازخود نوٹس ”واجب“ تھا یا نہیں۔قضیہ بہرحال ا±ٹھ کھڑا ہوا ہے۔ٹی وی سکرینوں پر ”ماہرین قانون“ کا انبوہ مذکورہ سوالات کی بابت توجیہات کے طومار باندھ رہا ہے۔میری دانست میں تاویلات کے طوفان میں دو بنیادی سوالات اگرچہ اٹھ چکے ہیں۔ان کا جواب کسی نہ کسی صورت ڈھونڈنا ہی پڑے گا۔

پہلا سوال”ازخود نوٹس“ کی حدود وقیود طے کرنے کا خواہاں ہے۔اس کے علاوہ سنگین سیاسی معاملات کا حل ڈھونڈنے کے لئے ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے بنچ کی تشکیل کا طریقہ کار بھی طے کرنا ہوگا۔ دلوں کی الجھنیں وگرنہ بڑھتی رہیں گی جن کے تدارک کے لئے عزت مآب ججوں ہی کو باہمی مشاورت کرنا ہوگی۔ مجوزہ مشاورت کو میں سپریم کورٹ کی ساکھ اور وقار کو اجاگر کرنے کے لئے لازمی تصور کرتا ہوں۔

پیر کے دن سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے جو سوالات اٹھے ہیں ان کے بارے میں رائے زنی کے قابل نہ ہونے کے اعتراف کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرنے کو جی مچل رہا ہے۔اس جانب توجہ موڑی تو منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ گیا : تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط-اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا۔”آغاز“پر غور کریں تو 1950 کی دہائی میں جسٹس منیر کی جانب سے دستور ساز اسمبلی کو گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں فراغت کو ”نظریہ ضرورت“ کے تحت جائز ٹھہرانے کو یاد رکھنا ہو گا۔ یہ نظریہ بعدازاں اکتوبر 1958 میں لگے پاکستان کے پہلے مارشل لا کا باعث بھی ہوا۔کامل دس برس کی حکمرانی کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان 1969 میں عوامی تحریک کے دباﺅ کے تحت استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے تو ان دنو ں کے دستور کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر کو قائم مقام صدر کا منصب سنبھالنا چاہیے تھا۔ جنرل یحییٰ نے مگر ایک اور مارشل لاء لگا دیا۔ 1962 کا دستور ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ملک میں پہلی بار ہر بالغ شہری کو ووٹ کا حق دیتے ہوئے ایک اور ”دستور“ کی تشکیل کے لئے عوامی نمائندوں کے چناﺅ کا فیصلہ ہوا۔ 1970 میں ہوئے انتخاب کے نتائج مگر ہماری اشرافیہ کو ہضم نہ ہوئے۔ نتیجہ اس کا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت برآمد ہوا۔”نیا پاکستان“ برقرار رکھنے کی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد ہوئی۔ دریں اثناء یحییٰ خان کے لگائے مارشل لاء کے خلاف مشہور زمانہ ”اسما جیلانی کیس“ کی سماعت بھی شروع ہو گئی۔ ان دنوں کے سپریم کورٹ نے اسے بالآخر ”غاصب“ قرار دیا۔ ”غاصب“ مگر کسی سزا سے محفوظ رہا۔ راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ میں واقع اپنے گھر ہی میں تاحیات ”نظربند“ رہا۔ یحییٰ خان کی عافیت دکھتی ”نظربندی“ کے اسباب جاننے کے لئے آپ کو امریکی وزارت خارجہ کی ان دستاویزات سے بھی رجوع کرنا ہو گا جو اب تحقیق کے خواہاں افراد کے لئے کانٹ چھانٹ کے بعد ”اوپن“ کر دی گئی ہیں۔ ان دستاویزات میں پاکستان کے حکمران اور سفارت کاروں سے نکسن حکومت کے کارندوں کی جانب سے ہوئی ملاقاتوں کے تذکرے بھی ہیں۔ واشنگٹن تواتر سے بھٹو حکومت کو یاد دلاتا رہا کہ جنرل یحییٰ نے امریکہ کو چین سے دوستی بڑھانے کے عمل میں قابل ستائش کردار ادا کیا تھا۔ مذکورہ ”احسان“ کی وجہ سے موصوف کو سزا اور جزا کے عمل سے محفوظ رکھا جائے۔

بالآخر 1973 میں وطن عزیز کو ایک ”تحریری“ دستوربھی مل گیا۔مارشل لاء کا راستہ روکنے کے لئے اس میں شق نمبر6 بھی ڈالی گئی۔ یہ شق مگر جنرل ضیاء کو 5 جولائی 1977 کا مارشل لاء لگانے سے روکنے میں ناکام رہی۔ موصوف کے لگائے مارشل لاء کو بھی ہمارے سپریم کورٹ نے ”نظریہ ضرورت“ کے تحت ”جائز“ قرار دیا۔ قوم کو ”سیدھی راہ“ پر رکھنے کے لئے جنرل ضیاء شریف الدین پیرزادہ کی معاونت سے 1993 میں منظور ہوئے ”متفقہ آئین“میں اپنی ترجیح کے مطابق نئی شقیں متعارف کرواتے رہے۔ جو تبدیلیاں متعارف ہوئیں انہیں 1985 کے ”غیر جماعتی“ انتخابات کی بدولت ”بحال“ ہوئی پارلیمان نے من وعن اپنا لیا۔

آئین کی شق 58-2/B اس ضمن میں اہم ترین تھی۔ اس نے صدر کو یہ اختیار بخشا کہ اگر ضرورت محسوس ہو تو ملک کو آئینی یا سیاسی بحران سے بچانے کے لئے منتخب اسمبلیوں کو گھر بھیج دے۔ آئین کی اس شق کو بروئے کار لاتے ہوئے مئی 1988 میں جنرل ضیاءنے اپنے ہی نامزد کردہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو گھر بھیجا تھا۔ اگست 1988 کے فضائی حادثے کی وجہ سے وہ دنیا میں نہ رہے تو سپریم کورٹ نے مئی 1988 میں ہوئے اقدام کا جائزہ لینے کی ٹھان لی۔ میں بطور رپورٹر ان دنوں علی الصبح اٹھ کر موٹرسائیکل پر اسلام آباد سے سپریم کورٹ میں سماعت کا مشاہدہ کرنے راولپنڈی کے پشاور روڈ جاتا۔ سماعت کے دوران بنچ سے متواتر ایسے ریمارکس آتے رہے جنہوں نے مجھ سمیت کئی سادہ لوح پاکستانیوں میں یہ امید جگائی کہ غالباََ محمد خان جونیجو کی حکومت اور اسمبلی کو ”بحال“ کیا جا رہا ہے۔ بالآخر جو فیصلہ آیا اس نے جونیجو حکومت کی برطرفی کو ناجائز ٹھہرایا مگر اسے بحال نہ کیا۔ ایسا حیران کن فیصلہ کیوں آیا اس کے بارے میں بھی سو طرح کی کہانیاں مشہور ہوئیں۔ انہیں دہرانے سے اجتناب ہی میں عافیت ہے۔ مکدی گل البتہ یہ رہی کہ آئین کی وہ شق اپنی جگہ برقرا ر رہی جو ایوان صدر میں براجمان شخص کو منتخب اسمبلی اور حکومت برطرف کرنے کا اختیار فراہم کرتی تھی۔ غلام اسحاق خان نے اس کے اطلاق سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو فارغ کیا تھا۔

صدر اسحاق نے مگر اسی ا ختیار کے تحت نواز شریف کی پہلی حکومت کو بھی اپریل 1993 میں فارغ کر دیا تو نسیم حسن شاہ کی سربراہی والا سپریم کورٹ چراغ پا ہوگیا۔روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعتوں کے اختتام پر نواز حکومت بحال کردی گئی۔ بحالی کے باوجود وہ مگر ا پنا وجود برقرار نہ رکھ پائی۔ ”کاکڑ فارمولے“ کی بدولت اس برس نئے انتخابات کی مشق سے گزرنا ہی پڑا۔ ان کی بدولت محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے منصب پرلوٹ آئیں۔ انہیں مگر 1996 میں ان ہی کے لگائے صدر فاروق لغاری نے 58-2/B کے تحت میسر اختیارات کو بروئے کار لا تے ہوئے فارغ کردیا۔ نسیم حسن شاہ کی جگہ اب سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔انہوں نے مذکورہ برطرفی کو واجب ٹھہرایا۔

میں آج تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں 58-2/B کا اطلاق 1993 میں ”ناجائز“ اور 1996 میں ”جائز“ کیوں ٹھہرایا گیا تھا۔ اس ضمن میں تسلی بخش جواب مل جاتا تو ان دنوں ا±ٹھے قضیے کی بابت بھی تبصرہ آرائی کی جرات آزما لیتا۔ ”سفر کی رائیگانی“ نے عمر کے آخری حصے میں ذہن کو مفلوج بنا دیا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments