یوسفیات کی ادبی کرامات کی نفسیات


(1)
مزاح کیا ہے؟
مزاح نگار کون ہے؟
مزاح نگار کی کون سی خصوصیت اسے دوسرے ادیبوں ’شاعروں اور دانشوروں سے متمیز کرتی ہے؟

میں نے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات کی طرف رجوع کیا تو مجھے۔ خاکم بدہن۔ کے دیباچے میں ان کا جواب ان الفاظ میں ملا۔ یوسفی فرماتے ہیں

’ یوں تو مزاح‘ مذہب اور الکحل ’ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں‘ بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے ’اپنے ادب آداب ہیں۔

شرط اول یہ کہ برہمی ’بیزاری اور کدورت دل میں راہ نہ پائے۔ ورنہ یہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کر دیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ‘ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟ ’مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیر لب کا سزاوار نہیں جب تک اس نے دنیا اور اہل دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ (رج کے۔ پنجابی۔ جی بھر کے )‘

میری نگاہ میں یوسفی کی مزاح نگار کی یہ تعریف ادب دوستی ہی نہیں انسان دوستی کے معیار پر بھی پوری اترتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مزاح نگار کو لفظوں سے ہی نہیں انسانوں سے بھی رج کے پیار ہونا چاہیے۔ اس تحریر میں مزے کی بات یہ ہے کہ یوسفی کو اردو زبان پر عبور حاصل ہونے کے باوجود پنجابی سے لفظ۔ رج۔ مستعار لینا پڑا۔

انسانوں سے پیار۔
ان کے دکھوں سے پیار۔
ان کے سکھوں سے پیار۔
ان کے عذابوں سے پیار۔
ان کے خوابوں سے پیار۔
ان کی مصیبتوں سے پیار۔
ان کی معصیتوں سے پیار۔
پارساؤں سے پیار
اور پاپیوں سے بھی پیار۔

یوسفی کی یہ تحریر پڑھ کر میرے ذہن میں ایک سوال نے سرگوشی کی کہ کیا یوسفی کی یہ تعریف اور یہ معیار صرف مزاح نگار کے لیے ہی ہے یا اس کا اطلاق ادب عالیہ تخلیق کرنے والے ہر شاعر ’ادیب اور دانشور پر بھی ہوتا ہے؟

جب کوئی ادیب انسانوں سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے تو اسے انسانوں سے ہمدردی ہو جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان کا مسیحا بن جاتا ہے۔ محبت کرنے والا مسیحا۔

یوسفی کے انسان دوستی کے فلسفے کو مرزا غالب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا

غالب جانتے تھے کہ کسی بھی قوم کا کوئی بھی مذہبی رہنما چاہے وہ مولوی ہو یا پادری ’پنڈت ہو یا رہبائی منبر پر بیٹھ کر نصیحت‘ وعظ اور تقریر شروع کر دیتا ہے جبکہ اسی قوم کا شاعر اور دانشور ’فنکار اور مزاح نگار انسانوں کا دوست بن کر ان سے محبت کرتا ہے اسی لیے وہ ان کا چارہ ساز‘ غم خوار اور غم گسار بن جاتا ہے۔

میری نگاہ میں ادب عالیہ کے تمام ادیبوں ’شاعروں اور دانشوروں کی طرح ادب دوستی اور انسان دوستی کی قدریں شاعر مرزا غالب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی دونوں میں مشترک ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
2) )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یوسفی انسانی نفسیات ہی نہیں سماجیات سے بھی واقف تھے۔ ’دست زلیخا‘ میں رقم طراز ہیں

’ خود دیباچہ لکھنے میں وہی سہولت اور فائدے مضمر ہیں جو خود کشی میں ہوتے ہیں۔ یعنی تاریخ وفات‘ آلہ قتل اور موقع واردات کا انتخاب صاحب معاملہ خود طے کرتا ہے اور تعزیرات پاکستان میں یہ واحد جرم ہے جس کی سزا صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ملزم ارتکاب جرم میں کامیاب نہ ہو۔ 1961 میں پہلی ناکام کوشش کے بعد بحمد للہ ہمیں ایک بار پھر یہ سعادت بقلم خود نصیب ہو رہی ہے۔

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد ’

نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناتے میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ خودکشی میں ناکام ہونے والے کو سزا کیوں دی جاتی ہے؟

انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خودکشی کو صدیوں سے انسانوں نے غیر مذہبی ’غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل سمجھا ہے۔

بعض مذاہب میں خود کشی کرنے والے انسان کے لیے نہ تو پادری مغفرت کی دعا کرتا ہے اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھاتا ہے اور یہ فتویٰ بھی دیتا ہے کہ چونکہ خودکشی مذہب میں حرام ہے اس لیے وہ شخص مرنے کے بعد سیدھا جہنم میں جائے گا۔

انگریزی زبان میں خودکشی کو SUICIDE کا نام دیا گیا ہے جو قتل HOMICIDE کا ہم قافیہ ہے۔

اسی لیے بہت سے لوگ خودکشی کو قتل اور خود کشی کرنے والے کو اپنا قاتل سمجھتے ہیں اور اقدام خودکشی میں ناکامی پر اسے سزا دیتے ہیں۔

جب ہم مذہبی لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی زندگی کو خدا کا تحفہ سمجھتے ہیں اور خودکشی کرنے والے انسان کو اس تحفے کی ناقدری کرنے کا سزاوار سمجھتے ہیں۔

پچھلی دو صدیوں میں جب سے ڈارون ’فرائڈ‘ مارکس اور سارتر جیسے غیر مذہبی اور لا مذہبی فلسفیوں کی تخلیقات کی وجہ سے سیکولر نظریات ساری دنیا میں مقبول ہوئے ہیں انسانوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ نظریہ قبول کیا ہے کہ انسانی زندگی کا مالک خدا نہیں انسان خود ہے اور اسے پورا حق ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزارے اور جس طرح چاہے اسے ختم کر دے۔

سیکولر فلسفیوں نے خود کشی کرنے والوں کو فتویٰ لگا کر دونوں دنیاؤں میں سزا دینے کی بجائے اس سے ہمدردی کی۔

جرمن فلسفی شوپنہار نے فرمایا۔
’جب کسی انسان کی زندگی کے دکھ موت کے دکھوں سے تجاوز کر جاتے ہیں تو وہ خود کشی کر لیتا ہے‘

میری ایک مریضہ کے شوہر نے خودکشی کی اور پادری نے آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کیا تو میں نے اسے ایک خط لکھا اور بتایا کہ وہ انسان بہت دکھی تھا کیونکہ وہ ڈپریشن کے ذہنی مرض کا شکار تھا اور اپنے معالج سے نفسیاتی علاج کروا رہا تھا۔ وہ ہماری ہمدردی کا مستحق ہے۔ میرا خط پڑھ کر پادری نے اپنا موقف بدلا اور میری مریضہ کے شوہر کی آخری رسومات ادا کیں اور میری مریضہ نے میرا تہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

مغربی دنیا میں سیکولر نظریات کی مقبولیت کے بعد خودکشی کرنا جرم نہیں رہا۔ اب تو ان انسانوں کے لیے ’جو کسی طویل اور تکلیف دہ لاعلاج مرض کا شکار ہوں‘ ہسپتالوں میں میڈیکلی ایسسٹڈ ڈیتھ MEDICALLY ASSISSTED DEATH کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ ایسے ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ ہم ایسی موت کے لیے خودکشی کی اصطلاح استعمال نہ کریں کیونکہ اس کے ساتھ منفی جذبات و احساسات منسوب ہیں۔

یوسفی مزاح کے پردے میں ہماری توجہ اس سنجیدہ مسئلے کی طرف مبذول کرتے ہیں کہ پاکستان کے قوانین میں خودکشی اب بھی جرم ہے کیونکہ اس ملک کے قوانین پر اب تک مذہبی اعتقادات کے سائے لرزاں ہیں جنہیں خودکشی کرنے والے دکھی انسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(3)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یوسفی مذہبی روایات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور مذہبی لوگوں کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے انہوں نے ایک مذہبی انسان کی ادبی تحلیل نفسی ان الفاظ میں کی۔ فرماتے ہیں

’ جوانی میں خدا کے قائل نہیں تھے۔ مگر جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ایمان پختہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اب وہ اپنی تمام نالائقیوں کو سچے دل سے من جانب اللہ سمجھنے لگے تھے۔ طبیعت ہی ایسی پائی تھی کہ جب تک چھوٹی سے چھوٹی بات پر بڑی سے بڑی قربانی نہ دے دیتے انہیں چین نہیں پڑتا تھا۔ بقول مرزا‘ وہ ان الحق کہے بغیر سولی پر چڑھنا چاہتے تھے۔ تجارت کو انہوں نے وسیلہ معاش نہیں حیلہ جہاد سمجھا اور بہت جلد شہادت کا درجہ پایا ’

اس عبارت میں یوسفی نے نجانے کتنے مسلمانوں کی شخصیت کی ترقی یا تنزل کا نقشہ کھینچ دیا۔ جوں جوں بڑھاپے میں وہ لاچار و مجبور و کمزور ہوتے جاتے ہیں ان کا ایمان مضبوط ہوتا جاتا ہے۔

یوسفی نے واضح کر دیا کہ ایسے انسان کیسے منافقت کا شکار ہو کر خود فریبی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

یہ پیراگراف پڑھتے ہوئے مجھے سگمنڈ فرائڈ یاد آئے جو کہا کرتے تھے کہ انسان ریشنل سے زیادہ ریشنائزنگ ہے۔ وہ فیصلے جذبات کی بنیاد پر کرتا ہے اور پھر ان جذباتی فیصلوں کو منطق کی بیساکھیاں پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے اعمال کی جب ذمہ داری خود لینا نہیں چاہتا تو ان کا ذمہ دار خدا کو ٹھہرانے لگتا ہے۔

اس طرح وہ انسان سنجیدہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
یوسفی اپنے کرداروں کی شخصیت کی کجی کو ایسے مزاحیہ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ
سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یا بقول یوسفی
’مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ
’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(4)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یوسفی جانتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کا آپس میں اور دونوں کا عوام کی فلاح و بہبود سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے دونوں کو علیحدہ علیحدہ رہنا چاہیے کیونکہ اگر وہ یکجا ہو جائیں تو وہ عوام کا بہت نقصان کر سکتے ہیں۔ یوسفی کا مشورہ ہے کہ مذہب اور سیاست دونوں معاملات میں انسانوں کو اپنے تبادلہ خیال میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ اگر غلط بیانی ہو گئی تو نفسیاتی اور سماجی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں

’ مرزا تو بقول کسے‘ غلط استدلال کے بادشاہ ہیں۔ ان کی حمایت و وکالت سے معقول سے معقول ’کاز‘ نہایت لچر معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے ہم انہیں تبلیغ دین اور حکومت کی حمایت سے بڑی سختی سے باز رکھتے ہیں۔ ’

۔ ۔ ۔ ۔
(5)

یوسفی اس حقیقت سے باخبر تھے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف قومیں بستی ہیں اور ہر قوم کی مادری زبان مختلف ہے۔ ان حالات میں سرکاری زبان ’قومی زبان اور مادری زبان کا عجیب و غریب جائز اور ناجائز رشتہ استوار ہو سکتا ہے۔ زرگزشت میں رقم طراز ہیں

’ پاکستان تازہ تازہ نقشہ پر ابھرا تھا اور خط تقسیم کی روشنائی ابھی اچھی طرح خشک نہیں ہوئی تھی۔ بینک میں لکھتے سب انگریزی میں تھے گفتگو اردو میں لیکن گالی ہر شخص اپنی مادری زبان میں ہی دیتا تھا

زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے ’

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں مادری زبانوں کا مسئلہ پچتر سالوں کے بعد بھی حل نہیں ہوا اور نہ اس کے حل ہونے کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں۔

ساری دنیا کے مختلف ممالک میں بچے جب اپنے سکول میں داخلہ لیتے ہیں تو انہیں ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچے سکول اور مدرسہ میں اپنی مادری زبان کی بجائے اردو ’انگریزی یا عربی میں سبق پڑھتے ہیں۔ سکول ہی نہیں جب کوئی پاکستانی شہری عدالت میں حاضری دیتا ہے تو اس کا مقدمہ اس کی مادری زبان کی بجائے انگریزی میں لڑا جاتا ہے اور وہ اپنے حق میں بیان اپنی مادری زبان میں نہیں دے سکتا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(6)

یوسفی زندگی کے دیگر مسائل کے بارے میں مزاحیہ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب وہ شادی اور میاں بیوی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کے قلم میں کاٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے وہ شادی کے ادارے سے کافی دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔ ان کی شادی سے مایوسی اور محبت کے فقدان کا اظہار کئی خاکوں میں دکھائی دیتا ہے۔ لکھتے ہیں

’بھری جوانی میں بھی میاں بیوی 62 کے ہندسے کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیرے رہے اور جب تک جیے ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار رہے‘ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(7)

یوسفی جانتے ہیں کہ وہ جس معاشرے میں پلے بڑھے وہاں لوگ شادی کر کے بھی جنسی ناآسودگی کا شکار رہتے ہیں کیونکہ اکثر میاں بیوی کو ایسا تخلیہ نہیں ملتا جو محبت اور رومانس کے پروان چڑھنے کے لیے اشد ضروری ہے۔

مشرقی معاشرہ ایک حبس زدہ معاشرہ ہے جہاں محبت کا سانس رکنے لگتا ہے اور دھیرے دھیرے وہ دم توڑ دیتی ہے۔

یوسفی اس نفسیاتی حقیقت سے بھی باخبر ہیں کہ جہاں عاشقی کو پروان چڑھنے کا موقع نہ ملے وہاں عیاشی و بدمعاشی پروان چڑھتے ہیں۔ لکھتے ہیں

’ جو دن دل کو بے مہار چھوڑنے کے تھے اس زمانے میں قریبی اور دور کے بزرگوں نے دعاؤں اور پند و نصائح سے ہماری جنسی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ مرد بھی عشق عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بد معاشی‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(8)

یوسفی ازدواجی رشتے کے ساتھ ساتھ مختلف خاکوں میں تعدد ازدواج اور بڑھاپے کی شادی کی نفسیات پر بھی اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں رائے زنی کرتے ہیں۔ جہاں شادی دو انسانوں کی محبت کی آئینہ دار نہ ہو وہاں چاہے وہ جوانی کی شادی ہو یا بڑھاپے کی اس میں اعتماد کا فقدان ہوتا ہے اور بہت سے میاں بیوی حسد کی آگ میں جلتے رہتے اور جتنا اس آگ کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اتنی ہی اور بڑھتی جاتی ہے۔ جب کسی چاہنے والے کے دل میں شک کا بیج بو دیا جائے وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ محبت کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے کھا جاتا ہے اور اس عاشق کا محبوب سے ہی نہیں محبت سے بھی یقین اٹھنے لگتا ہے۔ زر گزشت میں یوسفی لکھتے ہیں

’ ایک دن کہنے لگا کہ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔ اور چٹیا پہ ہاتھ رکھ کے سونا پڑتا ہے۔ ہم نے گجراتی میں مثل سنائی کہ جوانی کی بیماری‘ ضعیفی کی مفلسی ’جاڑے کی چاندنی اور بڑھاپے کی شادی پہ حقے کا پانی (یعنی لعنت) بولا۔ میں تو حقہ ہر دفعہ تازہ کر کے پیتا ہوں۔ ہم نے کہا چاچا! تم نے تین شادیاں کیں اور کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ بولا کیوں نہیں کیا۔ آئندہ بیوہ یا پکی عمر کی عورت سے شادی نہیں کروں گا۔ میری توبہ ہے‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(9)
ایک دن میں نے مرزا سے کہا
کیا آپ اپنی زندگی میں کسی انارکسٹ سے ملے ہیں؟
مرزا نے سراپا تعجب بن کر کہا
ہو سکتا ہے انجانے میں ملا ہوں لیکن انارکسٹ ہوتا کون ہے؟
میں نے کہا
وہ شخص انارکسٹ کہلاتا ہے جو مذہب ’شادی اور ریاست پر یقین نہ رکھتا ہو۔
کہنے لگے
نہیں میں نہیں ملا۔ آپ ہی کچھ مشورہ دیں
میں نے کہا

یوسفی کو پڑھیں۔ اپنی تحریروں میں وہ مذہب ’شادی اور ریاست‘ تینوں پر اپنے مخصوص انداز سے اعتراض ہی نہیں کرتے ادبی طور پر حملہ آور بھی ہوتے ہیں۔ مجھے کبھی کبھار یوں لگتا ہے جیسے یوسفی اردو زبان اور روایت کے ادبی انارکسٹ ہوں۔

مرزا نے پوچھا
آخر یہ انارکسٹ چاہتے کیا ہیں؟
میں نے عرض کی

یوسفی ساری دنیا کے انارکسٹوں کی طرح انسان کی آزادی پر ایمان رکھتے تھے اور ان تمام اداروں اور روایتوں کے خلاف تھے جو انسان کی آزادی پر پابندی لگاتے ہیں۔ یوسفی جانتے تھے کہ انسان کی خوشی اور خوشحالی کے لیے آزادی اہم ہے اور ایک ادیب کی کامیابی کے لیے اور بھی اہم۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments