تختی سے تخت تک۔ پری مارکہ سیاہی اور گاچی کے نام


کوارٹر نمبر 54۔ اے ریلوے کالونی سے دو جڑواں بھائی اپنے بابا کا ایک ایک ہاتھ تھامے ریلوے سکول ملکوال میں روہانسی شکلوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ وہ منظر بھولتا نہیں۔ وہ جو ہاتھ انہوں نے تھامے تھے اس سکول سے نکل کر ان کے بازو بننا تھا لیکن وہ ہمیں سکول چھوڑ کر نہ جانے کہاں گئے۔ جلدی میں تھے۔ زندگی میں اگر کوئی حسرت ہے تو یہ ایک۔ دوبارہ ملیں گے تو پوچھیں گے بابا! سکول سے لینے ہی نہیں آئے۔ پوچھ پچھا کر گھر لوٹنا پڑا۔

سکول میں الف انار ب بکری پ پنکھا ت تختی۔ پڑھتے پڑھتے دوسری جماعت آ گئی۔ اور ایک لکڑی کی تختی ہمارے سکول کے بستے میں شامل ہو گئی۔ اس کے ساتھ ”کانے“ کی قلم اور پری مارکہ سیاہی کے دانوں کی دوات۔

جماعت میں تین قسم کے بچے تھے گاؤں سے آنے والے چند ایک تھیلا لے کر آتے۔ یہ تختی اس تھیلے میں آ جاتی۔ دوسرے شہر کے متمول گھرانوں کے سکول بیگز لاتے۔ تیسرے کثیر تعداد والے جن کی ماؤں نے ان کے باپوں کے ساتھ نکاح کے ساتھ ساتھ ان کی آمدن کے ساتھ نباہ کیا تھا۔ گھر کا ادارہ نکاح سے زیادہ نباہ سے بنتا ہے لیکن یاد رہے یہ نباہ دو طرفہ نہ ہو تو صنفی جبر ہے جسے مشرقیت کا نام دیا جاتا ہے۔

ہم تیسری قسم میں آتے تھے سو ہمارے بستے اور رستے ہماری ماؤں نے ہاتھوں سے بنائے ہوتے تھے۔ محبوبہ کو محبوب سے ماں کے وہ ہاتھ بھلانے کی شرط رکھتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھنا تو چاہیے جن کا حسن بھی ان بستوں اور رستوں میں سینچا جانا ہے۔

وہ رات شاید قبولیت کی رات تھی۔ شدید جاڑے کا موسم سارا دن بارش۔ فکر مندی سے ایک بھائی نے دوسرے سے تقریباً روتے ہوئے کہا۔ او یار تختی تو لکھی ہی نہیں۔ گیلی لکڑیوں کے دھویں میں اپنی جوانی اڑاتی ماں نے اپنے مخصوص انداز میں سرزنش کرتے ہوئے تختیاں دھوئیں اور انہیں گیلی لکڑیوں کے چولہے کے پاس رکھ چھوڑا۔ دونوں بچے تختیوں کی جانب یوں دیکھنے لگے کہ جیسے تختیاں نہ ہوں بخت کے تخت ہوں۔

معدوم سی روشنی، دھوئیں اور گیلی لکڑیوں کو ماں کی پھونکوں سے ہوتے سرخ چہرے اور بھیگتی آنکھوں کے درمیان ان تختیوں پر ”گاچی“ کے سوکھنے سے بننے والے سفید نشان گویا افق پر سویرے کی وہ کرنیں معلوم ہوتیں شب زدہ آنکھیں جن کی منتظر ہوں۔ اب سمجھ آیا ماں لکڑیوں کو پھونکیں نہیں مارتی تھی حیات کی صبح نو کی سی پی آر کرتی تھی۔ صبح آنے پر اس کی باد نسیم میں آکسیجن ماں کے پھیپھڑوں کی ہے۔ کون بھول سکتا ہے۔

تختیاں سوکھیں تو بجلی چلی گئی۔ تب سے اب تک نہیں آئی۔ ایک لالٹین ہوتی تھی اور ایک لیمپ۔ زندگی میں روشنی کا پہلا ماخذ گھر کا سردار اپنی محبوبہ اخبار کا مینار بنا کر اس پر رکھ دیا کرتا۔ اس سے روشنی بڑھ جاتی۔ اتنی بڑھی کہ آج تک ماند نہیں پڑتی۔ ارتقاء کے اگلے عہد میں پاکستان میں یو پی ایس اور بیرون ممالک میں بجلی کی بہتات ہوئی۔

ماں نے لالٹین سے زیادہ حوصلے کی روشنی میں تختیاں لکھوائیں۔ تختیاں دونوں اطراف سے مکمل ہوئیں۔ میرے بچو! تمہیں کیسے بتاؤں کہ تمہارے جیون کی راہوں میں جلتے قمقمے اس لالٹین کی پھڑپھڑاتی لو کا خراج ہیں۔ جس میں لکھتے ہوئے فیصلہ مشکل ہوتا تھا کہ روشنی لالٹین کی چمنی سے آ رہی ہے یا ماں کے چہرے سے۔

یہ تختیاں لکھنے کی وجہ کوئی علم سے محبت یا احساس ذمہ داری نہیں تھا بلکہ یہ تختیاں خالی ہونے کی صورت میں استادوں کا ہتھیار بن جایا کرتی تھیں۔ آج کے بچوں میں تعلیم کے ہنگام وہ خوف نہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ عورت نے اس ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔ سلام بنتا ہے۔

تختیاں ارتقاء کے اگلے عہد میں اسی لکڑی کا کاغذ ہوئیں ”کانے“ کے قلم جی اور زیڈ کی نبوں والے ہولڈرز میں تبدیل ہو کر وہاں سے ایگل اور ڈالر کے پین کب بنے پتا ہی نہیں چلا۔ پری مارکہ سیاہی کے دانوں میں پانی زیادہ ڈل جانے کی صورت میں بستے کے کونوں کھدروں سے پری مارکہ کے دانے جمع کر کے دوبارہ گھولنے کا جھنجھٹ ختم ہو کر ایلائیٹ سیاہی کے ساشے میں آ گیا کیونکہ ڈبی مہنگی ہوا کرتی۔ پیارے بچو! تم ہزاروں لاکھوں صرف کر کے وہ خوشی نہیں پا سکتے جو وہ ایک روپیہ بچانے میں ملتی تھی۔ یوں لگتا کہ یہ ایک روپیہ ریلوے اسٹیشنوں پر چلتے چٹانی پیروں کے آبلوں کا مرہم ہے یا چولہوں میں پھونکی گئی سانسوں کی ہوا۔

اس مرحلے میں استاد مضمون نویسی کا مقابلہ کرواتے۔ کریٹو رائیٹنگ تب ”اپڑیں کولوں لکھو“(اپنے پاس سے لکھو) ہوا کرتی۔ کہیں لکھائی کا مقابلہ تو کہیں کٹے ہوئے پین مارکر سے لکھنے کا۔ ان جنتی ہاتھوں میں پکڑا ہوا کبھی ایک ننھا ہاتھ آگے ہوتا کبھی دوسرا۔

اس ارتقاء کا اگلا مرحلہ مگر سحر کن ہے۔ وہ رات کیا واقعی ایسی قبولیت کی رات تھی۔ اسٹیشن ماسٹر صاحب کی حق حلال کی تنخواہ میں واقعی خیرارازقین نے وہ برکت ڈالی کہ وہ تختیاں اب کیا سے کیا ہو گئیں؟

قلم بناتے ہوئے انگلی پر لگنے والے چاقو کا زخم اپنی کتاب میں قلم کی قسم کھانے والے ”میرے خدا میرے خدا“ سبق والے اس پروردگار کو اتنا بھایا کہ اس نے اسے مندمل ہی نہ ہونے دیا۔ کہ انگلی قلم ہو گئی۔ ماں کی ممتا کے ایندھن سے جلتے چولہے کے پاس سوکھتی تختی پر ابھرنے والی گاچی کی سفیدی حساس خدا کے قدرت کو یوں ٹچ کر گئی کہ اس موبائل فون کی ٹچ سکرین بن گئی۔ کیا خدا کے ہر چیز پر قادر ہونے کا یہی مطلب ہے۔

تختیاں ایک دوسرے پر رکھ کر مقابلہ کرنے والے اسٹیشن ماسٹر جی مرحوم کے دونوں بازو گاہے ایک دوسرے سے ان موبائل فونوں پر مضامین تحریروں کلاموں اور شاعری کا تبادلہ کرتے ہیں تو راقم الحروف کو وہ منظر یاد آتے ہیں۔ کون کافر انہیں بھولے۔

پچھلی باری بیرون ملک سے آیا خدا کا بندہ مجھے بنا بتائے میرے بیٹے کو بھی مکمل رازداری کی تختی لکھوائے ساتھ لے کر اسکندر آباد سے واپس پنڈی گیا اور دو تختیاں خریدیں۔ زیادہ مہنگی والی خود رکھنے کی میری آخری درجے کی لیچڑ قسم کی ضد کے آگے آخرکار ہتھیار ڈالتے ہوئے واپس چلا گیا۔ میں نے اسے کہا میرے یار تختیوں کا ارتقاء ہوا ضرور خیرہ کن ہوا۔ جادوئی ہوا مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔ تخت پر تختیاں بھولنی نہیں چاہئیں۔ لیجیے تختی مکمل ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments