عرفان جاوید کی کتاب: دروازے


پاکستان لٹریری فیسٹیول کے آخری روز الحمرا میں کافی زیادہ رش تھا، بھانت بھانت کے لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ بڑے بڑے ہالز میں مختلف سیشنز جاری تھے جبکہ صحن میں محفل موسیقی اپنے جوبن پہ تھی۔ برآمدے میں کتابوں کے چند سٹالز بھی مطالعہ کا ذوق رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ سنگ میل کے سٹال پر مجھے عرفان جاوید صاحب کی کتابیں سلیقے سے دھری دکھائی دیں تو میں بے ساختہ ادھر لپکا اور ”آدمی“ کی ورق گردانی میں مصروف ہو گیا۔

اچانک مجھے سیلز مین نے آواز دے کر کہا ”جناب! جن صاحب کی آپ کتاب دیکھ رہے ہیں، وہ آ گئے ہیں“ ۔ اس وقت عالم یہ تھا کہ میرا بھتیجا عزیر زاہد موبائل فون کے کیمرے کے ذریعے میری تصاویر بنا رہا تھا۔ عرفان جاوید صاحب نے سیلز مین سے کہا ”ارے ارے وہ تو تصاویر بنا رہے ہیں“ ۔ میں نے یہ بات سنی تو فوراً عرفان جاوید صاحب کی طرف بڑھا اور انھیں سلام کیا، انھوں نے مسکراتے چہرے کے ساتھ نہایت گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔

میں نے بتایا کہ میں نے آپ کی کتاب ”عجائب خانہ“ پڑھی ہے، جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور میں اس پر اپنا ایک ریویو آرٹیکل بھی لکھ چکا ہوں، یہ سن کر انھوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ میں نے بتایا کہ مجھے یہ کتاب پڑھنے میں ایک ماہ لگا تو وہ فی البدیہ بولے ”اور مجھے لکھنے میں پورے پانچ سال لگے تھے“ میں نے کہا کہ اب میں آپ کی کتاب ”آدمی“ پڑھنا چاہتا ہوں تو انھوں نے کہا کہ پہلے آپ ”دروازے“ پڑھو۔

میرے بچپن کے دوست محترم سجاد امین جو بسلسلہ روزگار اسلام آباد میں مقیم ہیں، وقتاً فوقتاً مجھے قیمتی اور نایاب کتابوں سے نوازتے رہتے ہیں، انھیں اس واقعے کی نجانے کیسے خبر ہو گئی کہ انھوں نے مجھے نصف درجن کتابیں بذریعہ ڈاک بھیجیں تو ان میں ”دروازے“ بھی شامل تھی۔ میں اس کتاب کو پاکر خاص طور پر بہت زیادہ خوش ہوا کہ اس کا مطالعہ تعمیل حکم بھی تھا اور تکمیل شوق بھی۔

خاکوں پر مبنی اس کتاب میں عرفان جاوید صاحب نے علم و دانش کے میدان کے کئی شہسواروں کے ساتھ گزرے شب و روز کے احوال کو نہایت تفصیل کے ساتھ کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ قاری خود کو ان محفلوں کا حصہ بنتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔ منظر کشی کا حسن دیکھیے کہ یوں لگتا ہے کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ علمی و ادبی طور پر قد آور اور بھاری بھرکم شخصیات کو بیان کرنے کا ڈھنگ بڑا ہی نرالا ہے۔ سیدھے سادے اور سچے انداز میں باہمی تعلقات کا ذکر، روزمرہ کی باتیں، عادات و اطوار، ٹوٹتے بنتے تعلقات، دلچسپی کے امور، زندگی کے نشیب و فراز، کمزوریاں، باریکیاں، کچھ دیکھے، سنے اور محسوس کیے گئے باریک نقطے سب کچھ بڑے دلنشیں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کچھ ایسی نادر شخصیات کے خاکے بھی ہیں جو اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں مگر ان تذکروں کی صورت میں وہ زندہ ہوتے نظر آتے ہیں۔ کیا شاندار طرز کے جیتے جاگتے نرالے انسان تھے۔

نصیر کوی کا خاکہ قاری کو اداسی کے جنگل میں دھکیل دیتا ہے، وہ اپنی آنکھیں بند کر کے عالم تحیر میں چلا جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ ایک سچا، کھرا، بے باک اور بہادر انسان کیسے اپنے ہی خوابوں کے سیل آب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔ بھٹو، بی بی اور پارٹی سے دیوانہ وار محبت کرنے والا نصیر کوی معصوم بچے کی طرح خواب دیکھتا دیکھتا جوان پھر بوڑھا ہو گیا مگر کسی ایک خواب کو بھی تعبیر کی دولت عطا نہ ہوئی۔ وطن عزیز کو ہرا بھرا اور روشن دیکھنے کی آرزو میں مچلنے والے نصیر کوی کا اپنا ہی آنگن ویران ہوتا چلا گیا مگر کسی نے اس کا حال تک نہ پوچھا۔ مملکت خداداد کے ہر باسی کے لیے مساوی حقوق کی جنگ لڑنے والا یہ جری سپاہی اپنے بیٹے کو ایک معمولی ملازمت نہ دلوا سکا۔ اپنی جگر سوز نظموں میں انقلاب کی روشنی دکھانے والا یہ خوش الحان مغنی سگریٹ اور بوتلوں کے اپنے کھوکھے پر بیٹھ کر

یہ بازی جان کی بازی ہے اور تم یہ بازی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے

جیسا لافانی کلام کہتے ہوئے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گیا اور پھر اس سے لڑتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر دی مگر کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ نصیر کوی مر گیا مگر اپنے پیچھے ایک پیغام چھوڑ گیا کہ جذبات کی رو میں بہنے والے نادان سیاسی کارکن صرف دھکے کھانے، جیلیں بھرنے، آنسو گیس کے شیل برداشت کرنے، اندھی گولیوں کو نشانہ بننے اور کسمپرسی میں مرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کے صحنوں میں خوشی اور خوشحالی کا سورج کبھی طلوع نہیں ہوتا۔ یقین مانیے نصیر کوی کا خاکہ پورا کیس اسٹڈی ہے جس میں فہم و ادراک رکھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو کتنے ہی نصیر کوی اپنی آنکھوں میں صبح انقلاب کا خواب سجائے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزاح نگاری کے بے تاج بادشاہ عطا الحق قاسمی جیسی شگفتہ شخصیت کا خاکہ دلچسپ اور یادگار واقعات سے بھرپور ہے۔ ان کے کچھ جملے کئی کتابوں کے مطالعے پر بھاری ہیں ”بچپن کے دوستوں سے تب تک دوستی بھرپور انداز میں قائم رہتی ہے جب تک ذہنی سطح ایک رہے یا دلچسپی کا شعبہ اور سلسلہ روزگار ایک ہو۔“

قاسمی صاحب کے دوستوں میں ایک نواب ناطق دہلوی تھے جو خود کو عروض اوزان کا سکہ بند عالم سمجھتے تھے، وہ اپنی ہی ایجاد کردہ مخصوص زبان میں شاعری کیا کرتے تھے، قاسمی صاحب ان کا ایک عجیب شعر مزے لے کر سناتے ہیں۔

ناطق کہ سخن تیرا ہے تریاق تریہا
زمباق تریہا لقا زمباق تریہا

احمد فراز کی شرارتوں بھری پر آشوب زندگی کا بھرپور احاطہ کرتے ہوئے ان کی حیات کے تنگ و تاریک گوشوں کو بڑی شگفتگی کے ساتھ کھنگالا گیا ہے ”سر سبز پہاڑوں، میدانوں اور ویرانوں میں سمٹے کوہاٹ کا بچہ قدرت کی گود میں کھیل کر جوان ہوا۔ ابتدا میں اپنا شعری نام ’شرر برقی‘ رکھا جسے بعد ازاں احمد فراز میں بدل دیا۔ وہ نٹ کھٹ طالب علم جو اشعار بیت بازی کے لیے گھڑنا شروع ہوا تھا، بہت جلد تعلیمی اداروں میں شہرت حاصل کرتا علاقائی مدار سے نکلا اور اپنے پہلے شعری مجموعے“ تنہا تنہا ”کے منظر عام پہ آنے سے پچاس کی دہائی میں قومی افق پر دمکنے لگا۔“

شہرہ آفاق ناول ”اداس نسلیں“ کے خالق عبداللہ حسین کا بہت خوبصورت خاکہ رقم کیا ہے۔ خاص طور پر وہ حصہ جس میں وہ سیمنٹ فیکٹری میں کام کر کے فارغ ہوتے تو وقت گزاری کے لیے چھوٹے چھوٹے جملوں پر مبنی تحریریں لکھا کرتے، یہ سوچے بنا کہ آنے والے دنوں میں انھی حروف کی بدولت وہ اردو ادب میں اپنی ایک علیحدہ پہچان قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

معروف ناول نگار، سفرنامہ نگار اور افسانہ نویس مستنصر حسین تارڑ کا خاکہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی سحر انگیز شخصیت کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ ایک کامیاب کاروباری شخص پر تکلف دعوت کے بعد عرفان جاوید صاحب پر یہ راز آشکار کرتا ہے کہ وہ آج جو کچھ بھی ہے مستنصر حسین تارڑ کی وجہ سے ہے، حالانکہ وہ تارڑ صاحب سے کبھی ملا ہے نہ دیکھا ہے، بس ان کی ایک کتاب کے چند جملوں نے وہ تحریک عطا کی کہ اس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

احمد ندیم قاسمی جیسی سلیس، شستہ اور نستعلیق شخصیت کے خاکے کی شروعات ایسی سحر انگیز ہے کہ قاری خود کو کوٹھی نرسنگھ داس کے کسی دریچے میں کھڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مجلس ترقی ادب کے دفتر میں عرفان جاوید صاحب کی بے شمار صبحیں، شامیں، دوپہریں اس طرح گزریں کہ احمد ندیم قاسمی صاحب اپنے پرانے دوستوں اور معاصر ادیبوں کے قصے سناتے اور وہ انھیں یکسو ہو کر سنتے رہتے، ایسے میں یوں لگتا ہے جیسے ٹھنڈے میٹھے پانی کا ایک دریا اپنی موج میں بہے چلا جا رہا ہے۔ قاسمی صاحب سعادت حسن منٹو سے اپنی آخری ملاقات کا احوال سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ آخری عمر میں کثرت سے مے نوشی کیا کرتے تھے، میں نے انھیں منع کیا تو وہ زہر خند لہجے میں بولے ”احمد ندیم قاسمی! میں نے تمہیں اپنے ضمیر کی مسجد کا امام مقرر نہیں کیا۔“

رئیس امروہوی اور جون ایلیا جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی صحبت میں پروان چڑھنے والے شکیل عادل زادہ کی زندگی کا ہر گوشہ حیرت کا ایک نیا در وا کرتا ہے۔ خداوند قدوس کی عطا کردہ صلاحیتوں پر بھرپور یقین اور اعتماد کی بدولت یہ مرد آزاد ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے اور کٹھنائیوں سے نکلنے کی سبیل تلاش کر لیتا ہے۔

زبان و بیان کی ندرت تو اس کتاب کا طرہ امتیاز ہے ہی مگر ایک عام قاری کو تحریک کی طاقت عطا کرنا اس کا ایک علیحدہ اور منفرد وصف ہے۔ کتاب میں مذکور تمام شخصیات نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کا مردانہ وار سامنا کیا، زیرو سے اپنے سفر کا آغاز کیا، بے پناہ دقتوں کے باوجود عزم راسخ اور جہد مسلسل کی بناء پر کامیابیوں کی منازل کو طے کیا۔

بقول شمس الرحمان فاروقی ”عرفان جاوید صاحب کی یہ تحریریں دراصل اصطلاحی معنوں میں خاکے نہیں ہیں بلکہ مصنف کی اپنی شخصیت کی بھرپور آمیزش، صاحب خاکہ کے بارے میں دوسروں کے تاثرات کی عکاسی کی بناء پر یہ تحریریں افسانوی رنگ رکھتی ہیں۔ یعنی یہ افسانے ہیں لیکن سچے افسانے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں کبھی اس کے انداز تحریر میں کھو گیا تو کبھی اس میں بیان کردہ واقعات اور حقائق کا تماشائی بن گیا۔ ایسی کتابیں کم ہوتی ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments