میٹھی عید


ابھی چند دن بعد میٹھی عید آنے والے والی ہے جس پر لوگ سویاں پکاتے ہیں۔ لیکن اب وہ پہلے زمانے والی عید نہیں رہی۔ پہلے بچے بچیاں ہاتھوں پر مہندی لگاتے تھے اور صبح دوسروں کو فخر سے دکھاتے تھے۔ پہلے دور میں بچے اٹھتے ہی سویاں کھانے کی فرمائش کرتے تھے۔ آج کے بچے جاگتے ہی دکان ہر آئس کریم یا ایسی کسی چیز پر لپکتے ہیں۔ عموماً ایسی چیزیں صحت کے لیے مضر ہوتی ہیں جس سے وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہم ایک ایسے بچے سے واقف ہیں کہ جسے پانچ سات سال کی عمر میں ذیابیطس قسم اول لاحق ہوئی اور یک دم طبیعت بگڑ گئی۔

ہزاروں، لاکھوں کا علاج ہوا اور آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ملازم کو رشوت دے کر میٹھی چیزیں کھاتا ہے۔ لیکن یہاں پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے یہ رقم کون دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ والدین۔ تو اگر وہ یہ رقم کسی غریب کو دے دیں تو ان کا بھی فائدہ اور بچے کا بھی۔ یہ انکم سپورٹ کارڈ اور دیگر رعایتیں تو امیر لے جاتے ہیں۔

پہلے زمانے میں گھر میں ہاتھ کی مشین سے تیار کردہ سویاں، دیسی گھی اور شکر ڈال کر کھائی جاتی تھیں۔ ہم نے بھی اپنے بچپن میں نانی اماں کے ساتھ چارپائی پر مشین باندھ کر یہ سویاں تیار کی ہوئی ہیں۔ اب تو بس کوئی خال خال ہی ان مشینوں کو استعمال کرتا ہے۔ آج کل انتہائی گھٹیا درجے کا گھی اور چینی مل جائے تو غنیمت ہے۔ موجودہ دور کی کارخانوں میں بنی سویاں نہ تو وہ ذائقہ رکھتی ہیں اور نہ اتنی آسانی سے پکتی ہیں۔

ایک طرف ہم ایسی خبریں سنتے ہیں کہ کوئی بھوک کی وجہ سے خودکشی یا چوری پر مجبور ہوا تو دوسری طرف عید پر لوگ اتنی زیادہ چیزیں پکا لیتے ہیں کہ کھا نہیں سکتے اور کوڑے دانوں پر پھینک دیتے ہیں۔ پھر وہاں اس خوراک کو جانور جیسے کتے، گدھے کھاتے ہیں ساتھ ہی نیم پاگل یا معذور قسم کے افراد بھی یہ چیزیں کوڑے سے اٹھا کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ اور لوگ ان کی طرف کوئی دھیان دیے بغیر منہ پھر کر گزر جاتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو معذور ہوتے ہیں، انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کیسے کھانا ہے۔

لیکن کیا وہ اشرف المخلوقات نہیں ہوتے۔ ؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ کچھ لوگ تو کوڑے سے کھا اٹھا جر کھائیں اور کچھ جان بوجھ کر کھانا خراب کر کے پھینک دیں۔ ؟ سچی بات تو یہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگ اصل میں اپنے برے حالات و واقعات کے ستائے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا دماغ اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اگر ایسے غریبوں کے لیے ہر کچھ گلیوں کے فاصلے پر کوئی جگہ مختص کردی جائے جہاں لوگ اپنا فالتو پکایا گیا کھانا دے جائیں تو کتنے معذوروں، غریبوں کی مدد ہو جائے۔

آج کل تو غربت اتنی بڑھ گئی ہے کہ آپ پچھلے چند دنوں خبروں میں سن رہے ہوں گے کہ لوگ دس کلو آٹے کا مفت تھیلا لینے کی کوشش میں کچل کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کی خبریں دیتے ہوئے صحافی حکام پر خوب برستے ہیں لیکن خود تو اتنے خود غرض ہوتے ہیں کہ اگر ان کے ہی ہم پیشہ کسی دوسرے صحافی یا اخبار یا چینل کے ساتھ کوئی واردات ہو جائے تو خبر میں ایک صحافی، ایک اخبار یا ایک نجی چینل جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ انہیں اپنی برادری کے ایک فرد کی جان جانے سے زیادہ مفت میں کسی دوسرے اخبار یا چینل کی مشہوری نہ ہو جانے کی فکر ہوتی ہے لیکن دوسروں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ سب کی خبر لیں گے۔

چلو غریبوں کو کھانا تو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے مل جاتا ہے لیکن فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے افراد کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہوتی۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن اتنا کما نہیں پاتے کہ کرائے کا کوئی گھر لے سکیں۔ مجبوراً فٹ پاتھ پر سوتے ہیں لیکن وہاں بھی انہیں چین نہیں ملتا۔ کبھی کوئی ان ہر گاڑی چڑھا دینا ہے تو کبھی سیریل کلر انہیں اینٹیں مار مار کر قتل کر دیتا ہے۔ لیکن وہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا۔

ہم نے چھوٹے اور بڑے شہروں اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، لاہور میں غربت کے ایسے مناظر دیکھے ہیں۔ اس عید پر اپنی خوشیوں میں ایسے غریبوں کو شامل کریں۔ آپ ہر عید پر نئے مہنگے جوڑے اور جوتے خریدتے ہیں تو ناداروں پر بھی توجہ دیں جن کے پیروں میں جوتے نہیں ہوتے اور جسم پر چیتھڑے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی سستا سا جوڑا کپڑے اور جوتے ہی خرید کر دلا دیں۔

گوروں کی دیکھا دیکھی لاکھوں کے کتے پال سکتے ہیں تو غریب انسانوں کی رہائش کے لیے کچھ ذرائع کیوں نہیں فراہم کرتے۔ ہم اہل وطن سے التجا کرتے ہیں کی اس عید کے موقع پران غریبوں کی دیکھ بھال کی طرف دھیان دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments