کفن چور: نعمان فاروق کا بچوں کے لیے ناول


بچوں کے عظیم ادیب ہانس کرسچن اینڈرسن نے کہا تھا ”زندگی خود سب سے حیرت انگیز کہانی ہے۔“ کہانیاں بنانا اور سنانا ان چند چیزوں میں سے ایک ہیں جو ہمیں دیگر جانداروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ انسان چاہے تو اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے یا واقعہ کو کہانی میں ڈھال لے۔ زندہ چیزوں کے ارتقاء کی مانند کہانیاں بھی مسلسل ارتقاء کے عمل سے گزرتی ہیں۔ جن علاقوں میں جانداروں کو موافق حالات میسر آئیں وہاں وہ بہتر ارتقائی عمل کا حصہ بنتے ہیں اور وہ جاندار جو ارتقاء کو قبول نہ کر سکیں وہ مٹ جاتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں ادب بھی تیزی کے ساتھ نت نئی شکلیں اختیار کر چکا ہے۔ یہ کہانی ہی ہے جو کبھی ہیر بنی، کبھی گلی محلوں میں سنائی گئی، کبھی تھیٹر بنی تو کبھی فلم، کبھی یہ مختصر ہوئی اور کبھی طویل، خیر کہانی کا یہ سفر جاری ہے۔

ہمارے ملک میں اکثر چیزوں، خاص کر فنون لطیفہ سے منسلک چیزوں کی حالت جہاں دگرگوں ہی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی اصناف میں بہت سا کام ہو رہا ہے۔ بچوں کے ادب میں بھی بہت سے لکھاری بغیر کسی لالچ کے خاموش خدمت میں مصروف ہیں اور انہیں جس نوعیت کی پذیرائی ملنی چاہیے، اس سے تقریباً محروم ہیں۔ نعمان فاروق کا نام بھی اسی گروہ کا حصہ ہے جن کے اردگرد زندگی جیسے مرضی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے وہ مسلسل بچوں کے ادب کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔

وہ اپنے اردگرد کے اتار چڑھاؤ کو اپنے ننھے منے اور نوجوان قارئین کے لیے اپنے قلم سے پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران نعمان فاروق کے بچوں کے لیے تین ناول شائع ہو چکے ہیں۔ امسال ”کفن چور“ شائع ہوا ہے جو ان کا تیسرا ناول ہے۔ نعمان فاروق کا تعلق ضلع چکوال کی تحصیل چوآ سیدن شاہ کے گاؤں وعولہ سے ہے اور یہ گاؤں اور اس کے اردگرد کے علاقے اور ان کا تاریخی تہذیبی پس منظر ان ناولوں کا بنیادی حصہ ہے۔

سوزن سونٹاگ سے منسوب ہے کہ ”ایک لکھاری وہی ہے جو دنیا پر توجہ اور دھیان دے، لکھاری ایک پیشہ ور نگران ہوتا ہے۔“ نعمان فاروق کا قلم بھی اپنے علاقے، اس کی تاریخ و تہذیب کا زبردست نگران ہے۔ جہاں وہ اپنے علاقے میں لگنے والی سیمنٹ فیکٹریوں سے اس علاقے کو پہنچنے والے نقصان پر بات کرتے نظر آتے ہیں وہیں یہاں کی تاریخی عمارتوں اور ان کی حالات زار کا نوحہ پڑھتے ہیں اور اس سب کے لیے وہ کہانی کا انتخاب کرتے ہیں اور کہانی بھی بچوں کے لیے ، وہ اپنی کہانی سے اس نسل کی ذہن سازی کرتے ہیں جنہوں نے آئندہ باگ ڈور سنبھالنی ہے۔

”کفن چور“ کی کہانی وجدان کی کہانی ہے۔ وجدان جو ملک کے لاکھوں نوجوانوں کی طرح ایک پڑھا لکھا بیروزگار نوجوان ہے۔ معاشرے کے ہزاروں گھرانوں کی طرح اس کے والدین نے بھی اسے اسی امید پر پڑھایا ہے کہ وہ پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی ان کے سامنے دولت کے انبار لگائے گا۔ نعمان فاروق یہاں بہت باریکی سے مشرقی خاندان کی ٹاکسک پیرنٹنگ (Toxic parenting) پیش کر رہے ہیں، جس پر ہمارے یہاں شاذ و نادر ہی بات ہوتی ہے۔ والدین کی امیدوں کا دباؤ ہی بنیادی وجہ ہے جو وجدان کو ایسی دلدل میں دھکیلتا ہے جس سے اس کا نکلنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف وجدان کے عزیز دوست دانش کی خاندانی زندگی اس کے برعکس ہے اور اسے اپنے والدین کا بھرپور تعاون میسر ہے۔ دانش مختلف مواقع پر وجدان کی راہنمائی اور مدد کرتا نظر آتا ہے۔

روپے پیسے کی قدر ایک بیروزگار سے بہتر کون جان سکتا ہے اور وہ بھی ملک کے موجودہ حالات میں جب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے جس کے باعث ملک میں بڑے پیمانے پر چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ واضح ہے۔ وجدان جو قدرتی ماحول سے محبت کرنے والا نوجوان ہے ایک دن ایک معمولی چوٹ سے ہونے والے انفیکشن کا شکار ہوتا ہے اور علاج کے لیے ، والدین کے رویے کے باعث ان سے پیسے لینے کی جھجک اسے ایسے مسائل میں جھونکتی ہے جو روز بروز بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

اس کی محلہ دار ثمینہ جہاں ادھار پیسوں کی بروقت واپسی نہ ہونے پر اسے کفن چوری کی طرف دھکیلتی ہے وہیں اس کا مددگار داود اسے سمگلنگ جیسے جال میں پھنسا لیتا ہے۔ ناول کی کہانی تاریخی عمارتوں سے نوادرات کی چوری، سمگلنگ، سیمنٹ فیکٹریوں سے پہنچنے والے نقصان، جادو ٹونے اور جھوٹے تعویز گنڈے کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب کرتی ہے، وہیں والدین کی ناک تلے ان کی لاپرواہی اور ان کا رویہ کیسے انہیں اپنے بیٹے سے دور کرتا ہے اسے قارئین کے لیے پیش کرتی ہے۔

ایک مضبوط گھرانا ہی معاشرے کو ایک موثر فرد دے سکتا ہے اور ایک مضبوط گھرانے میں کتاب خاص کر بچوں کے لیے کتاب بہت ضروری ہے تاکہ وہ صحیح غلط کے متعلق جان سکیں لیکن بدقسمتی سے بچوں میں کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے جس کے ذمہ دار بھی والدین ہی ہیں جو ہزاروں روپے کے قیمتی تحائف تو بچوں کو دے سکتے ہیں لیکن چند سو روپوں کی کتاب بچوں کو نہیں دیتے۔

واپس ہانس کرسچن اینڈرسن کی طرف چلتے ہیں جس کا یوم پیدائش 2 اپریل بچوں کی کتب کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ میں نے ”کفن چور“ اسی دن پڑھنا شروع کیا تاکہ کرسچن اینڈرسن کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔ عظیم قومیں دنوں کو اپنے عظیم لکھاریوں سے منسوب کرتی ہیں، ان کے ناموں سے انعامات کا اجراء کرتی ہیں۔ لیکن ہماری اس میدان میں حالت بھی مخدوش ہے۔ خیر سفر جاری رہنا چاہیے شاید کہ منزل آ ہی جائے اور مجھے خوشی ہے کہ ہم نعمان فاروق کی کہانی کے ساتھ اس سفر میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments