کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف ایک اور آپریشن: ’ہم قرآن لے کر ڈاکوؤں کے ڈیرے پر گئے مگر انھوں نے بچے کو رہا نہ کیا‘


چار اپریل کی صبح 11 بجے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قصبہ گڑھی خیر محمد جھک میں کسان مرد اور خواتین گندم کی فصل کی کٹائی میں مصروف تھے جب اچانک دو موٹر سائیکلوں پر سوار چھ مسلح افراد وہاں پہنچے اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں پر جدید اسلحہ تان لیا۔

کسان مرد اور خواتین کو ڈرانے دھمکانے کے بعد ڈاکوؤں نے وہاں موجود ایک 16 سالہ بچے کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ بچے کے بوڑھے والد موقع پر موجود تھے اور ڈاکوؤں کے یہ تیور دیکھ کر انھوں نے مزاحمت کی اور مقامی روایت کے مطابق انھیں قرآن پاک کے واسطے دیے۔

انھوں نے ڈاکوؤں سے التجا کی کہ ان کے کم عمر بیٹے کو ساتھ لے جانے کے بجائے انھیں لے جایا جائے مگر ڈاکوؤں نے ایک نہ سنی۔

بوڑھےوالد پر تشدد کیا گیا اور لڑکے کو قریب ہی واقع کچے کے علاقے میں اپنے ڈیرے پر لے گئے۔

مغوی لڑکے کے کزن جام احمد نواز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی انھوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی اور تھوڑی ہی دیر میں علاقہ پولیس وہاں پہنچ گئی مگر ڈاکوؤں کے ڈیرے پر جانا پولیس کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔

ان کے مطابق ’پھر ہم سارے کچھ معزز دیہاتیوں کو لے کر ڈاکوؤں کے ڈیرے پر چلے گئے۔ ہمارے ہاتھ میں ایک قرآن پاک بھی تھا۔ مقامی روایت کے مطابق اگر ہاتھ میں قرآن ہو تو ڈاکو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ ڈاکوؤں نے ہمیں عزت سے بٹھایا اور ہماری بات سنی۔ ہم نے اپنے بچے کی رہائی کا مطالبہ کیا جس پر ڈاکوؤں نے کہا کہ وہ بچہ ہم آپ کو نہیں دے سکتے۔ ہماری پولیس سے لڑائی ہے اور اس لڑائی میں ہمیں مزید بندے بھی اٹھانے پڑے تو اٹھائیں گے۔‘

جام احمد کے مطابق اس موقع پر ڈاکوؤں نے الزام عائد کیا کہ رحیم یار خان پولیس نے حال ہی میں اُن کی خواتین کو اٹھایا ہے اور وہ اپنے پاس موجود مغویوں کو اس وقت تک رہا نہیں کریں گے جب تک خواتین کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔ تاہم رحیم یار خان پولیس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

جام بتاتے ہیں کہ ’ہم تھک ہار کے واپس آ گئے مگر یہ بات ڈاکوؤں نے ویڈیو بنا کے سوشل میڈیا پر بھی اپلوڈ کر دی۔‘

بچے کے ماموں محبوب جھک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے ڈی پی او رحیم یار خان ، آر پی او بہاول پور اور آئی جی پنجاب سے بھی رابطہ کیا۔ لوکل سرداروں سے بات بھی کی ۔ ہم نے ہر در کھٹکھٹایا ۔ ہماری شکایت پر آئی جی پنجاب نے ایک پولیس ٹیم تشکیل دی، ایس ایچ او کی سربراہی میں اس ٹیم نے ’کراچی کچے‘ میں ڈاکوؤں کے ٹھکانے پر ریڈ کیا جس کے باعث ہمارے بچے کی رہائی ممکن ہو پائی۔‘

پولیس

ترجمان رحیم یار خان پولیس کے مطابق انٹیلیجنس کی بنیاد پر پولیس نے ٹارگیٹڈ کارروائی کی اور اس موقع پر فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس کے بعد مغوی بچے کو بازیاب کروایا گیا جبکہ ڈاکوؤں کی کمین گاہیں مسمار کر دی گئیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ چند دن پہلے ضلع رحیم یار خان سے ہی ڈاکٹر کے بیٹوں کو اغوا کیا گیا جس کے بعد ہونے والے پولیس مقابلے میں اغوا کرنے والے چار ڈاکو ہلاک ہوئے۔

تاہم جھک فیملی کے کم عمر بچے کی طرح کچے کے علاقے میں اغوا اور دیگر جرائم کے بعد پہنچائے جانے والے تمام مغویوں کی بازیابی اتنی آسان نہیں ہوتی اور پنجاب میں حکام کے مطابق کچے کے علاقے میں جرائم کی اسی نوعیت کی بڑھتی کارروائیوں کے باعث بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔

مگر رمضان کے مہینے میں کچے کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کیوں کیا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ اس کے علاوہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کچے کے علاقوں میں جرم ہونا کوئی نئی بات نہیں تو ایک ایسے موقع پر جب سپریم کورٹ پنجاب میں الیکشن کے احکامات دے چکی ہے تو مبینہ طور پر جانتے بوجھتے ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل نفری کو اب ہی کیوں اس آپریشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت کا موقف یہ رہا ہے کہ چونکہ سکیورٹی صورتحال کے باعث پولیس آپریشنز میں مصروف ہے اس لیے انتخابات کے لیے سکیورٹی کے لیے درکار وسائل دستیاب نہیں ہیں۔

آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر نے بی بی سی کے لیے صحافی شیر علی خالطی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والی قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں کچہ سندھ اور کچہ رحیم یار خان میں موجود ڈاکوؤں اور فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث دہشت گردوں کی موجودگی پر گہری تشوش کا اظہار کیا گیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ کچے کے علاقوں سے ان شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کیا جائے گا۔

عامر میر کے مطابق اس میٹنگ کے فوراً بعد پنجاب کے کچے کے علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کچے کے علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث افراد کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملنے کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے ایک ہی وقت میں کچہ سندھ میں بھی آپریشن کیا جا رہا ہے تاکہ پنجاب کے علاقوں سے فرار ہونے والے ڈاکو سندھ کے کچے میں موجود ٹھکانوں کی جانب فرار نہ ہوں۔

آپریشن کن علاقوں میں ہو رہا ہے اور کتنے اہلکار اس کا حصہ ہیں؟

اس آپریشن میں حصہ لینے والے سینیئر پولیس افسران کے مطابق گذشتہ دنوں شروع ہونے والے آپریشن کا دائرہ کار کچہ کراچی، کچہ روجھان، بنگلہ اچھا، کچہ ماچکہ تک ہے جبکہ کچی عمرانی، کچی جمال اور کچہری عمرانی میں پیش قدمی کی جائے گی۔ انھوں نے بتایا ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحے کی موجودگی کے باعث پولیس کو اے پی سی آرمرڈ، پر سنل کریئر اور دیگر بکتر بند گاڑیاں بھی فراہم کی گئی ہیں۔

اس آپریشن کے آغاز پر انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ پنجاب کے سائیڈ سے ہونے والے آپریشن کو وہ خود لیڈ کر رہے ہیں اور یہ آپریشن نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے حکم پر کیا جا رہا ہے۔

رحیم یار خان میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس آپریشن میں گیارہ ہزار پولیس کے جوان اور حساس اداروں کے جوان حصہ لے رہے ہیں۔ پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ویلفیئر غازی صلاح الدین نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب پولیس میں اہلکاروں کی مجموعی تعداد لگ بھگ 2 لاکھ 20 ہزار ہے جس میں پولیس کی ذیلی فورسز بھی شامل ہیں۔

رمضان یا اپریل کے مہینے میں آپریشن کا آغاز کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں موجود دریا اور آبی گزرگاہیں اپریل کے مہینے میں یا تو خشک ہوتی ہیں یا ان میں پانی سال کے دیگر مہینوں کے برعکس کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے آپریشن کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر فوجی اور سیاسی قیادت ایک صفحے پر ہیں جبکہ سندھ پولیس نے بھی کچہ سندھ میں پولیس آپریشن شروع کر دیا ہے۔

ایس پی سندھ فیضان علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے علاقوں گھوٹکی، شکار پور، کشمور میں آپریشن جاری ہے مگر آپریشن میں جدید ہتھیاروں کے نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ ’ہمیں امید ہے کہ سندھ حکومت ہمیں جلد جدید ہتھیار فراہم کرنے گی۔ ابھی ہم انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کرنے ہیں۔ اپنی پکٹس کو مضبوط کر کے اپنا دفاع کی حکمت عملی کو مضبوط کر رہے ہے ۔ ڈاکوؤں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے تاکہ وہ بلوچستان یا پنجاب میں نہ فرار ہو جائیں۔‘

دوسری جانب سندھ پولیس کے مطابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن بھی ضلع کشمور کے کچے کے علاقے درانی مہر میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری پولیس آپریشن کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ سندھ پولیس آپریشن میں شامل اہلکاروں کو ایک ماہ کی اضافی بنیادی تنخواہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

پنجاب پولیس ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ’مطلوبہ نتائج’ حاصل نہیں کر لیے جاتے۔

پولیس آپریشن اور پنجاب میں الیکشن

پاکستان

تاہم دوسری جانب چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس آپریشن پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی رحیم یار خان کے صدر عبدالکریم مزاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ آپریشن صرف پنجاب میں الیکشن کو التوا میں رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

’اب حکومت سپریم کورٹ کو یہ جواز پیش کرے گی کہ پنجاب پولیس آپریشن میں مصروف ہے اس لیے الیکشن میں ڈیوٹی نہیں دی جا سکتی۔

گذشتہ دو عشروں سے کچے کے علاقوں میں قتل، اغوا برائے تاوان، ہنی ٹریپ جیسے واقعات ہو رہے ہیں اور اس دورانیے میں درجنوں چھوٹے بڑے پولیس آپریشن کیے گئے مگر ڈاکوؤں کا صفایا نہیں ہو سکا۔‘

سردار ریاض محمود مزاری پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی ہیں جو فی الحال حکومت کے اتحادی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ آپریشن بھی ماضی میں ہونے والے آپریشن کی طرح ناکام نظر آ رہا ہے ۔بقول ان کے پولیس کراچی کچہ ، لنڈا موڑ، نوز بند، وغیرہ تک نہیں پہنچی۔ بنوں، عمرانی، دولانی، لٹھانی، لنڈ ، سکھانی گینگز تک نہیں پہنچی اور نہ ہی ان کی کمین گاہوں تک۔‘

سردار ریاض محمود مزاری کے مطابق کچے میں ہونے والے پولیس آپریشن کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلات پنجاب عامر میر نے بی بی سی کو بتایا کہ الیکشن کا تعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ہے۔ ’یہ پولیس آپریشن صرف ریاست کی رٹ بحال کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں اغوا کی وارداتیں بڑھ گئیں تھیں جس کی وجہ سے پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے لوگ پریشان تھے۔

انھوں نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس آپریشن نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے حکم پر کیا جا رہا ہے۔

کیا ماضی میں ہونے والے آپریشن ناکام رہے؟

نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس آپریشن کے آغاز پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کا انجام اسی وقت ہو گا جب تمام جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع نہیں کر لیا جاتا۔

تاہم دوسری جانب سوال پوچھا جا رہا کہ ہر دور حکومت میں اسی نوعیت کے دعوؤں کے ساتھ کچے کے علاقوں میں پولیس آپریشنز شروع کیے جاتے ہیں مگر تھوڑے ہی وقت بعد جرائم کی بازگشت دوبارہ شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک نئے آپریشن کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔

سکیورٹی ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقوں میں موجود ڈاکوؤں کے پاس ہمیشہ پولیس کے مقابلے میں جدید اسلحہ رہا ہے جس کا مقابلہ کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں ہے۔ ’پولیس کے پاس اتنے وسائل دستیاب نہیں کہ وہ اپنی فورس کو جدید اسلحہ اور وسائل فراہم کر سکیں اور اس کا اظہار ہمیشہ آپریشن کے دوران پولیس افسران اور اہلکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’رپورٹس کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس ٹی ٹی پی کی طرز کا جدید اسلحہ موجود ہے، نگرانی کرنے والے ڈرونز ہیں جبکہ دوسری جانب پولیس کی ایسی ٹریننگ ہی نہیں کی جاتی کہ وہ کچے جیسے خطرناک علاقوں میں جا کر جرائم پیشہ افراد کا مقابلہ کر سکیں۔‘

یاد رہے کہ مئی 2021 میں ہونے والے اسی نوعیت کے ایک آپریشن کے دوران ڈاکوؤں نے جدید اسلحے سے پولیس کی بکتر بند گاڑی پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ناصرف بکتر بند گاڑی مکمل تباہ ہوئی بلکہ اس واقعے میں دو پولیس اہلکار اور ایک فوٹوگرافر ہلاک ہو گیا تھا۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید نے کہا کہ مبینہ طور پر اس معاملے میں پولیس میں بدعنوانی کا فیکٹر بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے اور پولیس عموماً کمپرومائزڈ نظر آتی ہے۔ ’آپریشن سے قبل اور اس کے دوران ہی پولیس اہلکار ڈاکوؤں کو اہم اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور اُن کے فرار کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ماضی میں دیکھا گیا کہ کیسے ان علاقوں کے سیاستدان ایک دوسرے پر ڈاکوؤں کے مختلف گروہوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے دیکھے گئے۔

مبینہ طور پر ’سندھ میں وڈیرے اور پنجاب میں جاگیردار اور سردار ان جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں اور جب آپریشن ہوتا بھی ہے تو پولیس پر ان کی رہائی کے لیے مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‘

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار نذیر لغاری کہتے ہیں کہ کچے کے علاقے میں دہشت ایک اکانومی ہے اور پولیس اور اس سے متعلقہ ادارے اس اکانومی کے سٹیک ہولڈر ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پہلے مختلف ذرائع سے دہشت پیدا کی جاتی ہے چاہے وہ چھوٹو گینگ کے نام پر ہو یا خدا بخش لنڈ کے نام پر اور پھر آپریشن کے نام پر اس اکانومی کو فروغ دیا جاتا ہے۔

ان کا تجزیہ چند مقامی افراد کے ان دعوؤں کے پس منظر میں تھا کہ اس نوعیت کے پولیس آپریشن ہر دوسرے سال اس موقع پر کیے جاتے ہیں جب گندم کی کٹائی ہو چکی ہوتی ہے جسے ضبط کر لیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ماضی کے آپریشنز کے نتائج کو دیکھا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ پولیس کی کبھی یہ نیت رہی ہی نہیں کہ جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments