تاریخ سے چنندہ’ آئینی لطیفے‘ (مکمل کالم)


اللہ کی شان ہے کہ آج ہم اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو آئین کا مرثیہ پڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں جنہوں نے کبھی آئین کی کتاب ہی کھول کر نہیں دیکھی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ معجزہ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھ لیا ورنہ شاید معجزوں پر ہمارا ایمان ڈگمگا جاتا۔ ڈیوڈ ہیوم نے معجزوں کے بارے میں کہا تھا کہ ایک غیر متوقع واقعہ کو صرف اس صورت میں معجزہ سمجھا جاسکتا ہے جب واقعہ کی دیگر تمام ممکنہ وضاحتوں کے مقابلے میں اس کا معجزے کے طور پر ظہور ہونا زیادہ قرین قیاس معلوم ہو۔

اب یہ بات کیا کسی معجزے سے کم ہے کہ آج کل ہر شخص آئین، قانون اور جمہوریت کا دعویدار بن کر گھوم رہا ہے، بنیادی انسانی حقوق کا علمبردار بنا بیٹھا ہے اور فسطائیت کے ہجے بھی اس نے سیکھ لیے ہیں! تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ، جو آئین کی بالا دستی کے حوالے سے خوبصورت اور لچھے دار گفتگو کرتے نظر آ رہے ہیں، آئین پر یقین بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ آئین، جمہوریت اور انتخابات کی باتیں تو اس ملک میں آمروں نے بھی کی تھیں، تو کیا ان کے گلے میں بھی آئین کا ہار پہنا دیا جائے؟ ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ تاریخ سے کچھ ’آئینی لطیفے‘ چن کر آپ کو سنا دیے جائیں۔

سکندر مرزا کو اس ملک کا پہلا آئین منسوخ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، یہ اور بات ہے کہ ان سے یہ اعزاز ایوب خان نے چھین لیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے بعد سکندر مرزا کو ہی فارغ کر دیا۔ مارشل لا کی غیر آئینی حکومت نے The Laws (Continuance in Force) Order، 1958 جاری کیا جس کے الفاظ تھے کہ پاکستان کو منسوخ شدہ آئین کے تحت چلانے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے گی۔ یہ حکم نامہ کسی لطیفے سے کم نہیں تھا کیونکہ حکم نامہ جاری کرنے والا صدر آئین کی منسوخی کا حکم دے رہا تھا، اسی آئین کی منسوخی کا جس کا بطور صدر وہ خود بھی حصہ تھا، گویا آئین منسوخ کرنے کے بعد اس کی صدارت تو ختم نہیں مگر آئین ختم ہو گیا!

دوسرا مارشل لا جنرل یحییٰ خان نے لگایا، یہ مارشل لا لگاتے وقت موصوف نے آئین اور جمہوریت کے حق میں جو باتیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’میرا ایمان ہے کہ معاشرے میں مثبت اور تعمیری سیاسی تبدیلی کی داغ بیل ڈالنے کے لیے موثر اور دیانتدار انتظامیہ کا ہونا اولین شرط ہے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کو اقتدار کی ہموار منتقلی کو یقینی بنائے جا سکے۔

‘ اس لطیفے پر آپ جی کھول کر قہقہہ لگا سکتے ہیں۔ اس کے بعد آئے ہمارے ہر دلعزیز جنرل ضیا الحق، پہلے تو انہوں نے کل پانچ سطروں کے حکم نامے کے ذریعے آئین کو (آرٹیکل چھ کے ڈر سے ) منسوخ کی بجائے معطل کر کے مارشل لا نافذ کیا اور پھر اسی سانس میں حسب توفیق آئین اور جمہوریت کا راگ الاپا۔ اسی دن 5 جولائی 1977 کو انہوں نے CMLA Order No۔ 1 جاری کیا جس میں انہوں نے بھی سکندر مرزا والے الفاظ لکھے کہ قطع نظر اس بات سے کہ آئین معطل کیا جا چکا ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہر ممکنہ انداز میں آئین کے قریب ترین رہ کر چلانے کی کوشش کی جائے گی، مگر ساتھ ہی حکم نامے میں وہ تمام باتیں بھی گنوا دیں جو آئین میں درج ہونے کے باوجود غیر موثر رہیں گی جیسے کہ اعلیٰ عدالتوں کا اختیار، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی وغیرہ۔

اسی قسم کا ایک اور لطیفہ جنرل ضیا نے 1981 میں بھی سنایا تھا، CMLA Order No 1 of 1981 میں وہ لکھتے ہیں کہ درحالیکہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک جمہوری ملک قرار دیا تھا، درحالیکہ پاکستان کا آئین 1973 میں منظور کیا گیا تھا مگر چونکہ آئینی اور انتظامی مشینری ٹوٹ پھوٹ چکی تھی لہذا مجھے جولائی 1977 میں ملک کو بچانے کے لیے آگے آنا پڑا تھا۔ اپنی ہنسی روک کر رکھیں کیونکہ آنجہانی جنرل پرویز مشرف نے بھی ’ملک بچانے کی خاطر‘ یہی انگریزی ’کاپی پیسٹ‘ کی۔

1999 کے اپنی عبوری آئینی حکم نامے ( PCO) کے تحت موصوف نے فرمایا کہ بھول جائیں کہ ملک کا آئین معطل ہے، مملکت کا کاروبار آئین کے نزدیک رہ کر ہی چلانے کی کوشش کی جائے گی البتہ سب کچھ اس حکم نامے کے تابع ہو گا۔ یہ ’رعایت‘ پرویز مشرف نے ضرور دی کہ بنیادی انسانی حقوق، جو کہ آئین کے باب اول حصہ دوم میں درج ہیں، اگر وہ اس حکم نامے سے متصادم نہ ہوئے، تو ان کا نفاذ بدستور جاری رہے گا۔ جنرل ضیا نے یہ لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی، تاہم یہ اور بات ہے کہ دونوں آمروں کے حکم ناموں میں جوہری طور پر کوئی فرق نہیں تھا فقط لکھنے کا طریقہ مختلف تھا، کیونکہ 1977 سے ہم 1999 میں آچکے تھے۔ اور پھر 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا حکم نامہ تو ایسا لطیفہ تھا جسے پڑھ کر ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔

ان چاروں آمروں نے عوام کو جمہوریت کے فوائد گنوائے، لولے لنگڑے انتخابات کروائے، آئین سے چمٹے رہنے کا جھانسا دیا، عدلیہ کی آزادی کا وعدہ کیا اور آزادی صحافت کا ڈھونگ رچا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ان سے زیادہ جمہوریت پسند اور آئین کی بالادستی کا حامی کوئی نہیں حالانکہ ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ یہ سب فریب تھا۔ دنیا کی کسی بھی جمہوری اور آئینی مملکت میں آمریت کی گنجایش نہیں ہوتی کیونکہ ڈکٹیٹر شپ تو آتی ہی آئین کو منسوخ کر کے ہے۔

جس طرح کسی ڈکٹیٹر کی جمہوریت پسندی پر اعتبار کرنا حماقت ہے بالکل اسی طرح کسی ایسے شخص کی آئین کی بالا دستی کی دہائی دینا بھی بے معنی ہے جسے آئین صرف اس وقت یاد آتا ہے جب اس کے مفادات پر زد پڑتی ہے۔ دو دن پہلے 10 اپریل 2023 کو ملک میں آئین کی منظوری کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی، دیکھنا یہ ہے کہ ان پچاس برسوں میں کون آئین کے ساتھ کھڑا رہا اور کون غیر جمہوری قوتوں کا ترجمان اور آلہ کار بنا رہا۔ جو لوگ پچاس برس تک غیر آئینی اقدامات کی حمایت میں زبانیں لٹکا لٹکا کر بھاشن دیتے رہے آج اگر وہ یکایک ’آئینی‘ ہو گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئیں، انہوں نے فقط اپنی دکان کا بورڈ تبدیل کیا ہے، اندر مال وہی ہے۔

ایک بندہ جو پچاس سال سے منشیات بیچ رہا ہو اور وہ اچانک دعویٰ کرے کہ گزشتہ برس سے اس نے آب زم زم بیچنا شروع کر دیا ہے تو اس کے دعوے کی تصدیق کرنے سے پہلے تحقیق کرنی پڑے گی۔ یہی تحقیق آئین کی بالا دستی کے دعوے داروں کے بارے میں بھی کرنی پڑے گی اور وہ بے حد آسان ہے۔ آپ صرف ان لوگوں کے ایک سال پہلے کے بیانات، تجزیے اور مضامین اٹھا کر دیکھ لیں، ایک سال پہلے یہ کہاں کھڑے تھے اور آج کیا فرما رہے ہیں۔ اگر ایک برس والی بات کسی کی طبیعت پر گراں گزرتی ہے تو اس کا حل بھی موجود ہے۔

آپ صرف یہ دیکھ لیں کہ آئین کی دہائی دینے والے کہیں آئین کی من پسند شقوں کے نفاذ کا مطالبہ تو نہیں کر رہے۔ مثلاً آئین کی شق 224 کی ذیلی شق 2 کہتی ہے کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے نوے دن میں انتخابات کروانے لازمی ہیں، اس بات کو جیسے بھی پڑھا جائے یہی مطلب نکلتا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں مگر اسی شق 224 کی ذیلی شق 4 بھی ہے جو کہتی ہے کہ اگر اسمبلی کی کوئی نشست خالی ہو جائے تو وہاں ساٹھ روز میں انتخابات کروانے لازمی ہیں، یہ شق بھی بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں۔

مگر یہ کیسا لطیفہ ہے کہ اس شق کے تحت قومی اسمبلی کی نوے خالی نشستوں پر ساٹھ دن میں انتخابات ہونے تھے جو اب تک نہیں ہوئے اور آئین کے مرثیہ خوان اس خلاف ورزی پر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ کیوں ہمارے دوست ایک شق پر عمل کرنے کا کہتے ہیں اور دوسرے کا ذکر کرنے پر بغلیں جھانکنے لگتے ہیں! اگر صرف اس بات کی تحقیق کرلی جائے تو ان کی آئین سے محبت آشکار ہو جائے گی۔

اشفاق احمد کے افسانے گدڑیا کا اختتام یاد آ گیا۔ ”پھر اس نے ( رانو ) داؤ جی کی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے ہوئے کہا ’کلہ پڑھ پنڈتا۔‘ اور داؤ جی آہستہ سے بولے ’کون سا؟‘ رانو نے ان کے ننگے سر پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ گرتے گرتے بچے اور بولا ’سالے کلمے بھی کوئی پانچ سات ہیں!“ میرے دوستوں کو بھی آج کل رانو کی طرح ایک ہی کلمے کا پتا ہے، باقی پانچ کلمے شاید وہ بھول چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments