اپنوں کو پڑھاؤں گا: (پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے نام)


یہ سندھ کی دھرتی ہے۔ اسے باب الاسلام یعنی سلامتی کے دین کا دروازہ کہتے ہیں۔ تعلیم کو مردوزن پر فرض قرار دینے والا مذہب اسی دروازے سے اس خطے میں داخل ہوا تھا۔ اور پھر نہ جانے علمیت کا فلسفہ کہاں کھو گیا۔

اس سندھ میں شالو خان کندھ کوٹ کے علاقے کا ایک پسماندہ گاؤں ہے۔ یہاں ایک دیوانہ پیدا ہوا۔ دیوانہ اس لیے کہ اسے اس روشنی سے محبت تھی۔ ظلمت کدے میں روشنی کا خواب دیوانگی نہیں تو کیا ہے۔ اس کی ننھی آنکھوں میں صبح نو کی کرنیں ٹمٹماتی تھیں۔ وہ صبح جس کے انتظار میں نہ جانے کتنے قبر کی سیاہ رات اوڑھ کے جا سوئے۔

دیوانے نے کاندھے سے بستہ لٹکایا اور کچے راستے سے ہوتا ہوا سکول پہنچا۔ اس کے پیروں سے اڑنے والی دھول وہی مٹی تھی جس سے اس کا خمیر اٹھایا گیا تھا۔ وہ اس مٹی کو سونا بنانا چاہتا تھا علم کی بھٹی سے گزارا گیا کندن۔ کہ جس سے آنے والی نسلوں کے خمیر اٹھائے جائیں تو انسانوں کے دل و دماغ زیور ہوں۔

سکول میں اس نے آغاز ہی میں بتا دیا کہ علم اس کی دیوانگی ہے۔ دیوانے کو کتابوں سے محبت ہو گئی۔ علم وہ شے ہے جس کی بنیاد پر انسان کو خدا نے فرشتوں کا مسجود قرار دیا۔ عالم الغیب خدا نے اس کی جو ترتیب اور ترغیب قائم کی وہ بھی ایک کتاب اور معلم کے گرد گھومتی ہے۔

دیوانہ اس روشنی کی تلاش میں علم کی منازل طے کرتے کرتے پردیس جا پہنچا۔ پردیس میں بھی یوں لیاقت کے جھنڈے گاڑے کے روئے زمین پر علمیت کا سب سے بڑا سنگ میل طے کر لیا۔ شالو خان کے گوٹھ کا وہ بچہ پیرس میں انسان کے اپنی ہیئت کی نقل ”کمپیوٹر“ کے علم کی معراج تلک پہنچ گیا۔ روشنی کا دیوانہ ڈاکٹر بن گیا۔

وہاں کی علم شناس نگاہیں جانتی تھیں کہ اس کے سپید ہوتے بالوں میں اترتی روشنی سر کے اندر موجود آفتاب کی کرنیں ہیں۔ وہ اپنی سر زمین پر اس دماغ کی چکاچوند کے لیے ہر کرن کی قیمت دینے کے تیار تھے کہ خوشبوؤں کا شہر علم کی روشنی سے بھی بہرہ مند رہے۔ مگر دیوانہ ان بالوں میں پڑی اس دھول کا حق ادا کرنا چاہتا تھا جو بستہ اٹھائے سکول کے رستے سے اٹھی تھی۔ اس نے کہا ”میں اپنوں کو پڑھاؤں گا“ ۔ اور وہ ظلمت کدے میں علم کا چراغ تھامے لوٹ آیا۔

پاکستان سے ایک دنیا اس پیرس میں جانا چاہتی ہے دیوانہ پروفیسر جہاں سے اپنے دیس واپس آیا۔ دنیا مصنوعی ذہانت کے ایک انقلاب کے دروازے پر کھڑی ہے۔ پروفیسر نے اسی ”آرٹیفیشل انٹیلی جنس“ میں ڈاکٹریٹ کیا وہ اپنے دیس کے قدرتی ذہانت والوں کو یہ پڑھانا چاہتا تھا۔ کہ اس کے اپنے پڑھیں، دنیا کے ساتھ آگے بڑھیں۔

دیوانہ پروفیسر ڈاکٹر سکھر میں آئی بی اے یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن کر اپنے خواب کی آبیاری کرنے لگا۔ یہ جنون اس کے خون میں رچا بسا تھا کہ میں ”اپنوں کو پڑھاؤں گا“ ۔

شالو خان میں دو قبیلے بستے تھے ایک سندرانی دوسرا ساوند۔ جن کی ”کاروکاری“ کے سلسلے میں یہاں دشمنی چل رہی تھی۔ پچھلے سال ستمبر سے شروع ہونے والے اس خونی کھیل کی بھینٹ اب تک پانچ افراد چڑھ چکے تھے۔ یاد رہے کہ اسلام تو عورت و مرد کو نکاح کی اجازت دیتا ہے لیکن باب الاسلام سندھ میں اس کا مطلب کاروکاری کی سزا ہے یعنی سزائے موت۔ آئے روز جو چاہے جس کو چاہے جہاں چاہے کاروکاری کہہ کر موت کے گھاٹ اتار دے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

دیوانہ پروفیسر جمعرات کے روز اپنی آبائی زمین کا معائنہ کرنے شالو خان گیا۔ اس نے سوچا ہو گا اس کا تو اس قتل و غارت سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں اس کو بھلا کیا خطرہ۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ نام نہاد غیرت کے اس جہالت سے اٹے ہوئے کھیل میں وہ جتنا بھی پڑھ جائے، ہے وہ مخالف قبیلے کی گنتی کرنے کو محض ایک اور لاش۔

اسکی گاڑی سے اڑتی دھول اسے وہ منظر یاد کروا رہی تھی جب وہ اس سر زمین پر پیدل سکول جایا کرتا تھا۔ ایک سرشاری اس کے رگ و پے میں بھر رہی تھی۔ نہ جانے کیا کیا خواب وہ دیکھتا تھا اس علاقے کے بچوں کو پڑھانے لکھانے کے۔ یہ وہ مٹی تھی جس سے اسے دیوانگی کی حد تک عشق تھا جسے سونا کرنے کا عزم دل میں لیے وہ فرانس سے پاکستان آیا تھا۔

اچانک اس کی گاڑی کے سامنے سندرانی قبیلے کے چند مسلح افراد آئے اور انہوں نے دیوانے پروفیسر کو گاڑی سے اتار کر اس زمین پر بٹھایا جس سے اس کو عشق تھا۔ آخری تصویر لی تو اس میں بھی دیوانہ پروفیسر مسکرا رہا تھا۔ انسانی بے حسی اور جہالت کی کوئی الگ ہی داستان رقم کرتی ہے وہ تصویر۔

پہچان ”ساوند“ ہونے پر جاہلوں نے علم کے ایک پیکر پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ایک گولی سر میں جا لگی اور مصنوعی ذہانت کے علم سے لبریز قدرتی ذہانت کا ماخذ دماغ اس خون کے ساتھ بہہ کر اسی مٹی میں بہنے لگا جو کبھی سکول جاتے ہوئے ننھے پیروں سے اڑتی تھی۔ جہاں سے اس کا خمیر اٹھایا گیا تھا۔ دیوانہ جسے جوانی میں علم کے نور سے کندن بنانے آیا تھا۔ وہ تو عمر بھر اپنے خون پسینے سے اسے سیراب کرنے آیا تھا مگر ظالموں نے ایک ہی باری میں وہ سارا خون اس مٹی میں ملا دیا جس خون میں یہ مٹی پہلے ہی ملی ہوئی تھی۔

خوشبوؤں کا شہر چھوڑ کر آنے والے دیوانے کی متعفن لاش اس کی مٹی پر پڑی تھی۔ وہ اپنے جنہیں وہ پڑھانے آیا تھا وہ اس کی لاش کے گرد ہوائی فائرنگ کر کے جشن منا رہے تھے۔ اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر بھی ڈال رہے تھے۔ یہ جشن تھا روشنی کی موت کا، دیوانگی کی موت کا، شعور کی موت کا، احساس کی موت کا، اخلاص کی موت کا۔ سوچ کی موت کا۔

جن اپنوں کو اس نے پڑھانا تھا آگے بڑھانا تھا انہوں نے اسے سبق پڑھا دیا کہ یہاں دیوانگی کی سزا موت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند نے روئے زمین کی اعلی ترین تعلیم حاصل کی لیکن وہ نامکمل تھی۔ جن اپنوں کو اس نے پڑھانا تھا، انہوں نے اسے آخری سبق دے اس کی تعلیم مکمل کر دی۔

نظم۔ ”سبق“
وہ اک دیوانہ پروفیسر
وہ یہ کہتا تھا گھر جا کر
میں اپنوں کو پڑھاؤں گا
انہیں آگے بڑھاؤں گا
بڑی دولت کو ٹھکرایا
یہاں اپنوں میں وہ آیا
کہ دیوانے کے سپنوں نے
یہاں گھر پر کل اپنوں نے
اسے آگے بڑھایا ہے
سبق اس کو پڑھایا ہے
کہ اک تفہیم دینے کی
ہمیں تعلیم دینے کی
کوئی حامی بھرے گا تو
کوئی جرات کرے گا تو
ہے اپنی دشمنی اس سے
وہ جس پر وارا جائے گا
یہاں وہ مارا جائے گا۔
(وقاص رشید)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments