ممتا کا نوحہ


آئیے سب مل کے نوحہ پڑ ہیں، ماتم کریں، گریہ زاری کریں۔
نوحہ! اپنے ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہونے کا ۔
ماتم! اس معاشرہ کا ، معاشرتی بے حسی کا ۔
گریہ! معاشرے کے گونگے، بہرے، اندھے قوانین کا ۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ بنانے والے نے مرد کو ماں کیوں نہیں بنایا، ایسا ہوتا تو شاید آج وہ یہ سب نہ کر رہا ہوتا جو آج مردانگی اور مرد ہونے کے نام پر کرتا ہے۔

جب اسے بھی نو ماہ تک آنے والے کو اٹھا کر چلنا پڑتا تو اسے پتا چلتا کہ ابتدا حمل میں صبح سویرے متلی، قے اور چکر پے چکر بندے کو کیسا ادھ موا کر دیتے ہیں، کھانے پینے کی خوشبوؤں سے کیسے جان پر بن آتی ہے اور دل کیسے ہنڈولے میں ہلتا ہے۔

ایکس وائی کے ملاپ سے بننے والا خون کا لوتھڑا جیسے جیسے زندگی کی طرف بڑھنا شروع کرتا ہے، شکم میں کیسی دھما چوکڑی مچتی ہے۔ یہ ہی نہیں اس رنگ و بو اور لہو، لہو دنیا میں آنے کے لئے درد او درد کے جن کرب آزما مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ جس پے گزرتی ہے وہ ہی جانتا ہے۔ اور اکثر تو جان سے بھی گزر جانا پڑتا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ اپنا خون جگر پلا کے گوشت کے لوتھڑے کو لمحہ لمحہ، ایک ایک دن بڑا کیا جاتا ہے۔ بچپن، کم سنی، نوجوانی اور جوانی تک پہنچنے کے لئے حیات کے کن، کن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ ہر ماں تو جانتی ہی ہے باپوں کو بھی خوب پتا ہوتا ہے اور جو بنانے والا ان کو حمل دے کر ماں کا نام دے دیتا تو پھر خوب ہی پتا چلتا۔

گزشتہ دو دن سے میں اس گتھی کو سلجھانے کے چکر میں کہ بنانے والا مرد کو حمل ٹھہراتا اسے ماں بناتا بار، بار ادھیڑ بن رہی ہوں، سوچتی ہوں، سوچ کو دھکے لگاتی ہوں لیکن وہ جیسے دماغ کی تہوں سے چپک گئی ہے۔

جب بھی آنکھیں بند کرتی ہوں، گندمی رنگت، کھڑے ناک نقوش، ہراساں آنکھیں، قرآن کو دونوں ہاتھوں میں دبوچے، سینے سے چمٹائے، جیسے کوئی ماں بچہ چھن جانے کے خوف سے جکڑے ہوتی ہے، حیران پریشان قریب آنے والے ہر چہرے کو بر حواسی سے تکتی وہ ماں کسی صورت ذہن کا پردہ نہیں چھوڑ رہی۔

اس کا مادی نام ”نور“ تھا لیکن دراصل وہ ایک ماں تھی، جس کا تئیس سالہ جوان جہان بیٹا ڈھائی ماہ قبل 27 جنوری کی سرد شام کو پہلے لاپتا ہوا پھر لاپتا کرنے والوں نے کوئی دو ہفتے قبل قبول لیا کہ انہوں نے مغوی کو گردن دبا کے مار دیا اور اس کی لاش کو روہڑی کنال میں بہا دیا ہے۔

یہ قصہ، سانحہ، حادثہ، واقعہ، جو بھی نام دیں سندھ کے شہر لاڑکانہ ڈسٹرکٹ وارہ گوٹھ قمبر شہداد کوٹ کا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دو ماہ سے زیادہ کا وقت گزر جانے کے باوجود اس قتل کا پرچہ نہیں کٹ رہا کہ قانونی کاروائی کا یہ عمل ڈی آئی جی اور ایس پی لاڑکانہ۔ کے درمیان رگ رول بنا ہوا ہے۔ کبھی ایس پی سیٹ پر نہیں ہوتا تو کبھی ڈی آئی جی دفتر نہیں آتا اور کبھی دونوں مل کے نام نہاد وی آئی پی کے پیچھے جھاڑو لگا رہے ہوتے ہیں اور کبھی گھنٹوں بٹھا کے شام ڈھلے چلتا کر دیتے ہیں۔

مقتول کی ماں ( نور بی بی) نے جذبات کو دباتے ہوئے کہا تو صرف اتنا کہا کہ مجھے ”انصاف دو ، انصاف دلاؤ، میرے بیٹے کی لاش دو ، مجھے انصاف چاہیے“ ۔

مقتول کے بھائی منصور احمد بروہی نے واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ”اس کا بھائی احمد علی بروہی شہر کے کوچ اڈے پر جز وقتی نوکری کرتا تھا کیوں کہ وہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ چند ماہ قبل اس نے اپنے کزن سے کہا کہ وہ اس کی منگیتر لڑکی کو پسند کرتا ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنی منگیتر کو چھوڑ دے“ ۔

پسندیدگی کے اس اظہار کا پہلا خمیازہ لڑکی کو میڈیکل چیک اپ کی صورت میں بھگتنا پڑا کہ کہیں ان کے درمیان کوئی جسمانی تعلق تو نہیں تھا۔ میڈیکل رپورٹ منفی آنے کے بعد لڑکی کے اہل خانہ نے پہلے احمد علی اور اس کے اہل خانہ کو زبانی تشدد کا نشانہ بنایا پھر جسمانی اور بعد ازاں احمد علی کو اغوا کر لیا۔

اس قصے میں لڑکی کے اہل خانہ نہ صرف یہ کے کھاتے پیتے ہیں، اثر و رسوخ والے بھی ہیں ان کا آنا جانا سرکار کی راہ داریوں تک ہے۔ اپنی پہنچ اور علاقائی رسم رواج کے مطابق وہ لڑکے کے گھر والوں پر دباؤ بڑھاتے رہے اور انھیں بروہی برادری کے جرگے میں مجبور کیا کہ وہ بطور تاوان دو لاکھ روپے اور زمین دیں تو بات ختم ہوگی اور لڑکا ملے گا۔ ارکان جرگہ نے لڑکے کے اہل خانہ کی معاشی حالت کے پیش نظر جرمانہ کی رقم کو کم کرتے ہوئے، پچاس ہزار کروایا لیکن لڑکا پھر بھی نہ آیا۔

اس دوران بات قمبر گوٹھ سے نکل کے وکلاء کے کمروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں تک پہنچنے لگی تو لڑکی کے گھر والوں نے اپنی شرائط میں اضافہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ احمد بروہی کے گھر والے یہ علاقہ چھوڑیں اور اپنا گھر زمینیں ان کے نام کر دیں تو لڑکا مل جائے گا۔ بات اور آگے نکلی تو لڑکی کے اہل خانہ نے 19 مارچ کو احمد کو گردن دبا کے مارنے، لاش کو ٹھکانے لگانے کے جرم کا اقرار کیا علاقے سے غائب ہو گئے اور ہنوز غائب ہی ہیں۔

ایک ماں کے پلے پلائے بچے کی گمشدگی اور قتل کا دردناک پہلو ہمارے معاشرتی رویے ہیں۔ جیسے
1۔ ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔

2۔ سپریم کورٹ برادریوں، جاگیرداروں، ویڈروں کے خود ساختہ جرگوں پر پابندی لگا چکا ہے۔ اس کے باوجود اندرون سندھ نہ صرف جرگوں کا انعقاد ہو رہا ہے ان کے طے کردہ فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔

3۔ ان جرگوں کو در پردہ حکومتی حمایت بھی حاصل ہے کہ صوبے کی حکومت کا گزارہ ان برادریوں، وڈیروں کے بغیر نہیں۔ لوگ مرتے ہیں مر جائیں، ماؤں کی گود اجڑتی ہے تو اجڑ جائے، قانون کا جنازہ نکلتا ہے تو نکل جائے، کوئی و ڈیرہ یا جاگیردار نہ ہاتھ سے نکلے۔

4۔ ان جرگوں میں نہ تو عورت کو فیصلے کا اختیار ہوتا ہے، نہ ہی اسے سنا جاتا ہے اور نہ ہی بلایا جاتا ہے۔

5۔ ان غیر قانونی جرگوں کی آڑ میں کارو کاری کا کاروبار بھی چل رہا ہے۔ اسی کی آڑ میں لوگ اپنی دشمنیاں بھی نمٹا رہے ہیں۔

یہ سب کچھ حکومت سندھ کی عین ناک اور آنکھ کے نیچے ہو رہا ہے۔ ایسے معاملات میں صوبے کے سارے وزیر، مشیر اندھے، گونگے، بہرے ہو جاتے ہیں اور ان علاقوں کے ایم پی اے، ایم این اے جیتے جی مر جاتے ہیں، غریبوں، لاچاروں کی داد رسی کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھتا حتی کے ان علاقوں کی پولیس قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں آگے آگے ہوتی ہے اور دھجیاں اڑنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔

یہ بات بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اندرون سندھ کے علاقوں میں ایس ایچ او سے اوپر کے ہر پولیس عہدیدار کا تقرر اس علاقے کے بدمعاش شرفا کی اجازت اور مرضی سے ہوتا ہے۔

احمد علی بروہی کا اغوا اور قتل اندرون سندھ کی زندگی کا ایسا واقعہ ہے جیسے شہروں میں دیر سے آنے والے طالب علم کو ڈانٹ پڑتی ہے اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

ان علاقوں کے مکیں نامعلوم خوف کے زیر اثر قاتلوں کے ساتھ تو کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن مقتول کی جانب دیکھتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔

پولیس اہلکار نہ صرف یہ کہ سیاسی اور جاگیرداری دباؤ کا شکار ہوتے ہیں پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی زیرو ہوتے ہیں۔ ان کی قابلیت اور معلومات کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں ہر وقت استعمال ہونے والی دفعات 302 اور 365 کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھوں نے کرنا وہی ہوتا ہے جو علاقے کا طاقتور خاندان کہے گا۔

سندھ کے تمام سیاسی مجرم بشمول وڈیروں جاگیرداروں کے سب کے سب اندرون خانہ جرگہ نظام کے حامی ہیں کیوں کہ اسی نظام کی بدولت وہ اپنے اپنے علاقوں کے مائی باپ بنے ہوتے ہیں۔ جب جس کو چاہیں سولی چڑھا دیں یا دریا برد کر دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

شیریں جوکھیو سے لے کر درجنوں واقعات اور حادثات ہیں جن کا کوئی جواب دہ نہیں۔

نور بی بی کو دیکھ کر لگتا ہے آنسو ساکت ہو گیا ہے۔ اس ساکت آنسو میں ایک اور آنسو ڈاکٹر اجمل ساوند کی ماں کا شامل ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر اجمل کشمور کے نزدیک کندھ کوٹ کا ایک بہت ہی پڑھا لکھا لائق نوجوان تھا۔ اسے بھی برادریوں کی دشمنی کھا گئی۔ گو کے احتجاج اور مذمتی بیانات کا سلسلہ پورے زور شور سے جاری ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ ہو گا وہی جو علاقے کا وڈیرہ چاہے گا۔ جن کے گھر، گود اجڑنے تھے اجڑ گئے ان کی دل داری یا آنسو پوچھنے کوئی نہیں آئے گا۔

ایک اور ماں روتی رہے گی، روز جیتی مرتی رہے گی، ماتم کرتی رہے گی، انصاف مانگتی رہے گی اور یہ ہی کرتی کرتی ایک دن چپ ہو جائے گی۔

ایک بار پھر ذہنی رو بھٹکی اور یہ خیال شد مد سے آنے لگا کہ ”مارنے والوں کو ماں ہونا چاہیے تھا تاکہ انھیں پتا چلے کہ قطرہ قطرہ لہو پلا کے، سیکنڈ سیکنڈ کا حساب لگا کے مائیں اپنے وجود کے ٹکڑوں کو کیسے چھپر چھاؤں بناتی ہیں، کیسے کیسے پاپڑ بیلتی ہیں اپنے سپوتوں کو برابر لانے کے لئے اور یہ اندھے، گونگے، بہرے، بے حس، بے غیرت، انسانی شکل کے درندے، لمحوں میں سب کچھ اجاڑ دیتے ہیں، آگ لگا دیتے ہیں، تہس نہس کر دیتے ہیں، ممتا کے کلیجوں کو چھلنی اور دل کو لہو لہو کر دیتے ہیں۔

سب کو بنانے والے مرد نامی جنس کو ماں بنایا ہوتا نا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments