کشمکش


وہ دونوں میاں بیوی رات کو صحن میں چارپائیاں ڈالے، آسمان پہ دمکتے تاروں کو دیکھ کر، اپنے ماضی کو یاد کر رہے تھے۔ رات کے اس سمے مہتاب کبھی بادلوں میں چھپ کر تو کبھی سامنے آ کر ان سے آنکھ مچولی کر رہا تھا۔ دونوں کے درمیان ذریعہ کلام خاموشی ہی تھا، کہ ایک ہی آنگن میں اکٹھے رہتے اب دونوں وہ ایک دوسرے سے اکتا چکے تھے۔ یہ اس کی محبت کی شادی ضرور تھی، مگر تھی دوسری محبت جس میں رنگینی کا عنصر غائب تھا اور نہ ہی کوئی اولاد تھی جو اس محبت میں کشش کا رنگ بھرتی۔

وہ اپنی اپنی دنیاؤں میں مگن پوری دلجمعی اور انہماک سے سیر کر رہے تھے کہ اچانک بادلوں کے گرجنے کی آواز آئی۔ تب دونوں نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے گھنے سیاہ بادلوں نے کسی جادوگرنی کی طرح زلفیں بکھرائے، مہتاب کو جب چھپا لیا، تو صحن میں عمیق اندھیرا چھا گیا۔ وہی جامن کا درخت جس کے پتے چاند کی روشنی میں چمک رہے تھے، اب ایک خوفناک دیو کی طرح نظر آ رہا تھا، جس کے بہت سے ہاتھ اور کئی زبانیں ہوں۔

وہ جلدی جلدی اٹھے، چارپائیاں اٹھائیں اور کمرے میں آ گئے۔ آن کی آن میں چھم چھم بارش برسنے لگی اور ہر طرف پانی کا شور سنائی دینے لگ پڑا۔ وہ چارپائی پہ پھر لیٹے بارش کی آواز سن ہی رہے تھے، کہ زور سے بادل کے گرجنے کی جو آواز آئی، تو اس کی بیوی سہم کر، اس کے پاس چارپائی پر آ کر اس سے لپٹ گئی۔ ”مجھے اس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے انور! خدا کے لئے مجھے اپنے سے جدا نہ کرنا“ ۔ وہ روہانسی آواز میں اپنے خاوند سے لپٹ کر، اپنے ڈر کو بھگانے کی کوشش کر رہی تھی۔

مگر انور اس کے وجود کی موجودگی سے بے نیاز، پڑوس کے ایک کچے گھر کے بارے میں سوچ رہا تھا، جہاں کوئی اکیلا اداس، بارش کے پانی میں بھیگ رہا تھا۔ اس کچے گھر کی چھت اب اس قدر بوسیدہ ہو چلی تھی، کہ وہ مکین کے واسطے اب بوجھ بن چکی تھی۔ جوں جوں بجلی کوندتی اور بادل زور سے گرجتے، اس کی بیوی مزید زور سے اس کے ساتھ ایسے چپٹ جاتی، جیسے کوئی شیر خوار بچہ رات کو اپنی ماں کے ساتھ چپٹ کر سوتا ہے۔

” بارش کے پانی سے اب تک اس کا سارا کمرہ بھر چکا ہو گا“ انور نے دل ہی میں دل اس کے بارے میں سوچا۔ ”وہ اکیلی کس قدر ڈر رہی ہوگی۔ وہ تو بلی کی میاؤں میاؤں سے سہم جاتی تھی، اور یہ تو بادلوں کے گرجنے کی خوفناک آواز ہے“ انور نے دیوار کی طرف دیکھا جہاں لالٹین کی روشنی میں دو سائے ایک دوسرے سے ملے نظر آرہے تھے۔ وہ اپنی بیوی کے جسم کی گرمی، سانسوں کی حرارت اور قربت کی خوشبو سے لاپرواہ، بس اسی کچے گھر کے مکین کے بارے میں سوچتا جا رہا تھا، جو کسی زمانے میں اس کی پہلی محبت تھی۔ وہ محبت جو غرض سے پاک، ہوس سے نا آشنا اور پیار کی مٹھاس سے بھرپور تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو بے حد چاہنے اور ایک دوسرے کو پانے کی خواہش کے باوجود بھی نہ پا سکے۔

اچانک کسی سوچ کے ساتھ اس نے بیوی کے وجود سے اپنے وجود کو زور سے الگ کیا، چارپائی سے اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا۔ ”اتنی بارش اور بجلی میں کہاں چلتے ہو؟ یہاں میں اکیلی کیسے رہوں گی؟“ ۔ اس کی بیوی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی، تو اٹھتے قدم پھر رک گئے۔ اس نے جب پیچھے دیکھا تو بیوی سہمی حالت میں آنسو بہائے کھڑی تھی، اور جب آگے دیکھا تو بارش کا پانی زور زور سے برس کر کچے مکانوں کو ڈھا رہا تھا۔ ایک عجب سی کشمکش تھی، جو اسے بے چین کیے جاتی تھی اور وہ یہ سمجھنے سے عاجز آ چکا تھا کہ وہ کیا کرے؟ کس جانب جائے اور کس کو سنبھالے۔ اتنے میں ایک کچے مکان کے چھت کے گرنے آواز آئی، اور پھر ایک دلدوز انسانی چیخ سنائی دی، جو لمحے بھر کو فضا میں گونجی اور پھر خاموش ہو گئی۔ بارش کی آواز اب بھی جاری تھی اور کچے مکان ڈھے ڈھے کر ملبے میں تبدیل ہو رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments