ڈاکٹر سہیل زبیری اور ڈاکٹر خالد سہیل: کتاب مذہب، سائنس اور نفسیات


مترجم: نعیم اشرف

(اپنے عہد کے عظیم سائنسدان نیوٹن سے منسوب)

”میں نہیں جانتا کہ دنیا میرے بارے میں کیا خیال کرتی ہے مگر میں اپنے آپ کو ایک کم سن لڑکا سمجھتا ہوں جو ساحل سمندر پر کھیل میں مشغول ہے۔ وہ خوبصورت سے خوبصورت ترین کنکریوں کی تلاش میں ہے اور بہترین سے بہترین سیپی کی کھوج میں دنیا سے بے خبر ہے جب کہ پوشیدہ حقائق کا بحر بیکراں اس کے سامنے موجزن ہے۔ ”

یہ پیراگراف ادبی چاشنی لطافت اور دانائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جب بابائے کتب ڈاکٹر خالد سہیل اپنے بچپن کے دوست ڈاکٹر سہیل زبیری سے ایک سوال پوچھتے ہیں کہ آپ طبیعات کے میدان کے عظیم سائنسدان ہونے کے باوجود اس قدر منکسرالمزاج کیسے ہیں تو ڈاکٹر سہیل زبیری جنہیں صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سمیت متعدد بین الا اقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے حتیٰ کہ امریکہ، چین، جرمنی، ایران اور سعودی عرب نے اپنے اپنے ممالک کے اعلیٰ ترین انعامات سے نواز رکھا ہے، جب ان سے منکسرالمزاجی کے ضمن میں سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ مندرجہ بالا پیراگراف کو جو عظیم سائنسدان نیوٹن سے منسوب ہے اپنے لیے بھی دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔

ان سطور کو پڑھنے کے بعد قاری جان جائے گا کہ کتاب کا مزاج کیا ہے۔ عالی دماغوں کا انداز فکر کیا ہے۔ اور مترجم کرنل نعیم اشرف صاحب جو اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو زبان میں انتہائی شستہ ادبی چاشنی سے بھرپور سلیس اور رواں ترجمہ کرتے ہیں، میں ان کی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس سنجیدہ ادبی مکالمے کو جو محترم استاد عبدالباسط صاحب کے دو شاگردوں کے بیچ انگریزی زبان میں کتاب کی شکل میں شائع ہو چکا تھا اسے اردو زبان کے قارئین کے لیے پڑھنا ممکن بنا دیا۔

یہ کتاب ریاضی کے معلم کے دو ہونہار شاگردوں کے بیچ سوالات اور جوابات پر مبنی ہے جو بے حد روانی سے مکالمہ کرتے ہیں۔ وقت کے دو بہترین ماہر اور اپنے میدان کے شہسوار جن کے بیچ نوعمری سے گہری دوستی ہے، ایک طویل وقفے کے بعد جب دونوں میں دوبارہ رابطہ ہوتا ہے تو کیسے کیسے فلسفیانہ سوال اٹھتے ہیں اور کیسے مختلف زاویہ نگاہ کے جواب ملتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل یقیناً کسی تعارف کے محتاج نہیں کہ ہم سب انہیں ’ہم سب‘ سائیٹ پر لکھے کالمز کی وجہ سے جانتے ہیں۔ وہ اب تک قریباً چھ سو کالمز لکھ چکے ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی کے مختلف گوشوں سے ہے۔ یہ اپنے قارئین میں بے حد مقبول اور شائستہ ہیومنسٹ لکھاری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ معروف نفسیات دان ہونے کی شناخت بھی رکھتے ہیں اور ان بیسیوں کتابوں کے خالق بھی ہیں جو علم نفسیات، طب، فلسفہ، ادب، افسانے، مکالمے، خطوط اور شاعری پر مشتمل ہیں۔ ان کی ایک ادا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے تمام ملنے جلنے والوں کو لکھنے اور کتاب کی شکل دینے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ انہوں نے نفسیاتی مریضوں کے لیے روایتی طریقہ علاج کی بجائے گرین زون سسٹم متعارف کرایا ہے جس کا تعلق بحالی صحت بذریعہ خود شناسی سے ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ اس کتاب کی وساطت سے قارئین سائنس کی ایک دوسری شاخ یعنی فزکس کے میدان میں کوانٹم آپٹکس کے مصنف سے متعارف ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کے احوال سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ایک قاری ہونے کے ناتے میں نے بھی ایک پاکستانی سائنسدان کی علمی تحقیقی کاوشوں کو جانا اور جیسے کہ نعیم اشرف صاحب پہلے باب عہد حاضر کے رول ماڈل میں اپنے احساسات رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

” ایک اور احساس مجھے طبیعات کے حوالے سے جدید تحقیق دیکھ کر ہوا خاص کر کوانٹم آپٹکس جیسی سائنس کی نئی شاخ میں ڈاکٹر سہیل زبیری کی خدمات کو دیکھ کر بطور پاکستانی فخر بھی محسوس ہوا“

بلاشبہ مجھے بھی ان کے بارے میں جان کر ایسے ہی فخر محسوس ہوا۔ کیوں نہ ہو ڈاکٹر سہیل زبیری ایک ایسی کتاب کے مصنف ہیں جسے دنیا کی تمام جامعات میں نصاب کی کتاب کے طور پر شامل کیا گیا ان کی اس کتاب نے بین الاقوامی شہرت پائی۔ بہت سی طلباء کی نسلوں نے اس مشکل مضمون میں اس سے استفادہ کیا اور اس کی روشنی میں سائنسی تحقیق کے میدان میں نئی راہیں استوار کیں۔

حصہ اول جو کہ محمد سہیل زبیری کے سوانحی خطوط پر مشتمل ہے، اس کے باب نمبر دو ’عظیم معلمین کی یادیں‘ میں رقم طراز ہیں۔

”ایک استاد کا کام صرف معلومات دینا نہیں ہوتا بلکہ شخصیت سازی اس کا اصل کام ہے۔“
کتاب کو اپنے دو معلمین کے نام انتساب کیا ہے جو آج کے دور میں ایک پرخلوص اور مؤدبانہ روایت ہے۔

اپنے ایک معلم جو کہ ڈاکٹر خالد سہیل کے بھی استاد اور والد صاحب ہیں، ان کا ذکر انتہائی ادب اور احترام سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

”میں نے اپنی زندگی میں عبدالباسط صاحب جیسے علیم، حلیم، اور شفیق انسان بہت کم دیکھے ہیں، وہ لفظ دیانت داری کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔“

پی ایچ ڈی کے بارے میں لکھتے ہیں۔

”پی ایچ ڈی کی ڈگری ایک ٹریننگ کا نام ہے جو انسانی دماغ کو نا حل شدہ سائنسی مسائل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور علمی ہتھیار استعمال کرنا سکھاتی ہے تاکہ الجھی ہوئی سائنسی پہیلیوں کو سمجھا جا سکے“ اس کتاب سے میرے جیسا آرٹ اور ادب کا طالبعلم یہ جان گیا کہ کوانٹم آپٹکس فزکس کا شعبہ ہے جس کا تعلق روشنی اور ایٹمز کی مقداری خصوصیات سے ہے۔ کوانٹم آپٹکس کا جنم لیزر کی دریافت سے ہوا۔ ڈاکٹر سہیل زبیری نے مواصلاتی رابطوں میں برقی ذرات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرائے بغیر دو لوگوں کے درمیان رابطہ کروانے پر تحقیق کر کے ایک حیرت انگیز نظریہ پیش کیا جسے ’غیر منطقی کوانٹم‘ کا نام دیا۔ خوردبینی کے شعبے میں فاصلوں کو درستگی سے ناپنے کے لیے کوانٹم آپٹیکل

طریقے استعمال کر کے اس حد کو عبور کیا جو پہلے سے متعین تھی۔ لیتھو گرافی کے شعبے میں ان کی تحقیق ہے جس کی عملی افادیت مائیکرو الیکٹرانکس انڈسٹری کے لیے اہم ہے۔ ان کی ٹیم نے نیورل نیٹ ورک ماڈل بنائے جس کا تعلق کسی شے کو پہچاننے کی دماغی صلاحیت سے ہے۔

روشنی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”ایک ہزار برس سے ہم نے ذرات اور لہروں کو الگ الگ اشیاء مانا اور سمجھا ہے۔ ہمارے نزدیک روشنی لہروں پر مبنی ہے اور توانائی کا گولہ ایک بڑا ذرہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گولہ لہروں کی طرح کام نہیں کرتا اور نہ لہریں گولے کی طرح“

(ان کوٹ)

اس بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روشنی دو مزاج رکھتی ہے اور وہ کبھی تو لہروں کی شکل میں سفر کرتی ہے اور کبھی گولوں کی شکل میں۔

ڈاکٹر سہیل زبیری کی خدمات میں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں نہ صرف یہ کہ الیکٹرانکس ڈپارٹمنٹ قائم کیا بلکہ نامساعد حالات میں سینکڑوں طلباء کے لیے ایم ایس، ایم۔ فل اور پی ایچ ڈی کی تحقیقاتی ڈگری ممکن بنائی۔

کتاب نہ صرف طبیعات مابعد الطبعیات جیسے مضامین کی حد بندیوں پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ سائنس، اور مذہب اور اس کے پس منظر پر بحث کرتی ہے ان علاقوں میں جاتی ہے جہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل اپنے دوست کے سامنے چند مشکل سوالات رکھتے ہیں جن کا جواب وہ علمی دلائل سے اپنی آرا کے مطابق دیتے ہیں۔

کامیابی کیا ہے؟
کیا خدا موجود ہے؟
بنی نوع انسان میں کیا خاص بات ہے؟

اس کے بعد ڈاکٹر سہیل زبیری ڈاکٹر خالد سہیل سے علم نفسیات اور تحلیل نفسی کے متعلق تھراپیز اور گرین زون کے متعلق سوالات کرتے ہیں جس کا تسلی اور تشفی بخش جواب پاتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا یہ نفسیات کے علم کا مکمل خلاصہ ہے جسے آسان زبان میں سمجھا دیا گیا ہے۔

یہ کتاب مذہب سائنس اور نفسیات کے متعلق مشکل سوالات اٹھاتی ہے اور مصنفین اپنے علم کے مطابق بھرپور جوابات دیتے ہوئے قاری کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا وہ زندگی کو جس نظر اور نظریے سے دیکھتے ہیں کیا وہ درست اور حتمی ہے یا اسے نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پوری کتاب علم کا ایک گہرا سمندر ہے جسے ایک مختصر مضمون کے کوزے میں بند کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ معروضات محض ایک قاری کے فوری تاثرات ہیں تجزیات نہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل کتاب کے اختتام پر ایران کی نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی جو پہلی مسلمان خاتون ہیں جن کو دو ہزار تین میں امن کا نوبل انعام دیا گیا کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لیکچر میں سعدی شیرازی کی اس نظم کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ایسے معاشرے کا خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں جہاں پوری انسانیت ایک بڑے قبیلے کی طرح مل جل کر رہے۔ تمام مصنوعی حد بندیوں اور تقسیم سے بالا تر ہو کر پرامن انداز میں جیون بسر کرنے کا خواب

نظم
آدم کی اولاد ایک ہی جسم کے اعضا ہیں
جو ایک ہی خمیر سے بنے ہیں
جب وقت کسی ایک کو زخمی کرتا ہے تو باقی اعضا بے تاب ہو جاتے ہیں

کتاب کی طباعت غیرمعمولی طور پر دیدہ زیب ہے۔ اچھے سٹینڈرڈ کا عمدہ کاغذ ہے۔ آواز پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

منگوانے کے لیے فون نمبر : 5211201-0300


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments