حسرت


آدھی رات گزر چکی تھی اور شہر کی اس گلی میں اکا دکا افراد ہی اٹکھیلیاں کرتے گزرتے جا رہے تھے۔ سٹریٹ لائٹس کی روشنی میں گلی کا ایک سرے سے دوسرا سرا آسانی سے دکھائی دے رہا تھا۔ کہیں کہیں چند آوارہ کتے تھڑوں کے نیچے بیٹھ کر اونگھ رہے تھے، تو کچھ کوڑے پہ منہ مار کر پیٹ کی بھوک کو مٹانے میں مگن تھے۔ اگرچہ کچھ گھروں کے اندر سے بلب کی روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی، مگر زیادہ تر گھر اندھیرے میں ڈوبے تھے، جہاں مکیں گرم لحاف اوڑھے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔

یہ ایک درمیانے درجے کی آبادی والا علاقہ تھا، جہاں نچلا متوسط طبقہ سفید پوشی کی زندگی جیسے تیسے کر کے گزار رہا تھا۔ غربت اور عسرت کسی شکوہ کناں بیوہ کی طرح گزرنے والوں کا منہ چڑاتی تھی۔ گھر کے مکینوں نے اگرچہ پردے لٹکا کر اپنی خانماں بربادی کو چھپانے کی کوشش تو کر رکھی تھی، مگر لاکھ بار چھپانے کے باوجود پھر بھی گھروں کی حالت ان کی غربت کی چغلی کھاتی تھی۔ کسی گھر کے کواڑ نہایت خستہ تھے، تو کہیں دیوار کا پلستر آدھے سے زیادہ غائب تھا۔ کسی کے گھر کے آگے لگے پردے میں جابجا پیوند تھے، تو کسی نے روشن دان میں گتے گھسا کر اپنے لئے سردی سے بچاؤ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ الغرض گلی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلے جائیے، سب کے ہاں یہی عالم تھا۔

وحیدالدین پچاس کے پیٹے میں پہنچا ہوا ایک شخص، جس کے بال برف کی طرح سفید اور پیشانی سے جھڑ چکے تھے، شہر کے کسی دوسرے حصے سے یہاں ایک گاڑی میں آیا اور اتر کر ایک سمت کو چلنا شروع ہو گیا۔ اس کی مونچھیں بڑی بڑی اور اس قدر بے ترتیب تھیں کہ کسی خوفناک ڈاکو کا گمان ہوتا تھا۔ اگرچہ جوانی میں وہ ایک جوان رعنا تھا، جس کی وجاہت کے تذکرے گھر گھر میں عورتوں کی زباں پر تھے۔ مگر اب چہرے کا حلیہ اور سراپا اس قدر بگڑ چکا تھا، کہ دیکھنے والے کو گھن آتی تھی۔

ایام شباب میں وہ ایک خوش پوشاک، خوش گفتار اور بذلہ سنج طبعیت کا مالک تھا، جو محفل میں نمایاں رہتا تھا۔ مگر رات کے اس لمحے ایک لنڈے کا اوور کوٹ پہنے، داہنے ہاتھ میں سگریٹ سلگائے، آنکھوں میں ایک موہوم سی امید کا دیا روشن کیے ہوئے، پھٹے پرانے کھڑاؤں چٹخاتے، ایک بے ہنگم اور مخمور چال کے ساتھ، اس گلی میں یوں آگے بڑھ رہا تھا، جیسے وہ کسی مکیں کے گھر کی تلاش میں ہو۔ وحیدالدین گو اسی شہر کا باسی تھا، مگر اس کے چھوٹے بھائی نے اسے لندن بلا بھیجا تھا، اور وہ اب ہمیشہ کے لئے اس دیس کو چھوڑ کر، پرائے دیس جا رہا تھا۔

” پپو پان والے کی دکان سے چوتھا گھر تو تھا اس کا“ ۔ وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔ اور پھر وہ سب سوچوں کو بغل میں دبائے، پپو کی دکان کو ڈھونڈنے لگ پڑا، جہاں وہ ہر روز سرشام آ کر بیٹھ جایا کرتا تھا، اور پان چباتے ہوئے گاہکوں کی نفسیات اور گلی کے ماحول کا جائزہ لیتا رہتا تھا۔ وہ ایک ایک کر کے دکانوں کے بورڈ پڑھ ہی رہا تھا، کہ اچانک ایک کتا اس کے قریب آ کر اس زور سے غرایا کہ وہ ڈر کے مارے کانپ اٹھا۔ کتے کی اس اچانک اور بیجا مداخلت نے اسے بہت ہی ناگوار محسوس ہوئی، مگر وہ اب کیا کر سکتا تھا۔ کتے کے بھونکنے کی آواز سن کر، گلی کا چوکیدار بھی چوکنا ہو گیا۔ اس نے سراسیمگی میں دیدے پھاڑ کر دائیں بائیں دیکھا، تو اس کی نگاہ ایک ادھیڑ عمر والے شخص پہ پڑی جو سردی سے کانپ بھی رہا تھا اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ سگریٹ پیتے، گلی کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔

” جی فرمائیے! آپ نے کس کے ہاں جانا ہے؟“ چوکیدار نے وحیدالدین سے درد مندانہ انداز میں استفسار کیا، جو ایک دکان کے بورڈ کو غور سے پڑھ رہا تھا۔ اس کے لبوں کی جنبش سٹریٹ لائٹ میں صاف نظر آ رہی تھی۔ وحید الدین نے مڑ کر چوکیدار کو دیکھا تو اس کی پیشانی پہ بل پڑ گئے اور چہرے پر کچھ ایسے تاثرات نمایاں ہو گئے کہ گویا وہ چوکیدار کسی اجنبی جزیرے کا باشندہ ہو۔ ”جی! وہ۔ مجھے پپو پان والے کی دکان کی تلاش تھی۔ کیا آپ میری مدد کر سکیں گے؟“ وحیدالدین نے چوکیدار سے مصافحہ کرتے ہوئے پوچھا۔

”پپو شاپ والے کی دکان تو وہ رہی“ اس نے جلتی ٹارچ کی مدد سے اشارہ کیا ”وہ جو ہینڈ پمپ آپ کو نظر آ رہا ہے نا، اس کی دکان کے آگے تو لگا ہے“ ۔ یہ سننا تھا کہ وحیدالدین کی آنکھوں کے سارے مدھم چراغ، یک دم سے روشن ہو گئے اور وہ چوکیدار کا شکریہ ادا کیے بغیر ہی اس طرف دوڑ پڑا۔ ”عجیب شخص ہے یہ بھی۔ رات کے اس پہر بھلا پپو کی بند دکان ڈھونڈنے کا کیا مقصد ہے؟“ چوکیدار جی ہی جی میں بڑبڑایا، اور پھر واپس اپنی کرسی کی جانب چلا گیا، جو ایک دکان کے تھڑے پر دھری تھی۔

وحیدالدین جب پپو پان والے کی دکان پر پہنچا، تو دکان بند تھی مگر دیواروں پہ جمی پیک اور نالی میں گرے بوسیدہ پان کے پتے گواہی دے رہے تھے کہ یہی دکان ہے۔ اب اس دکان سے آگے وہ جو چلا تو گن کر چوتھے مکان کے سامنے جیسے ہی پہنچا، تو دل کی دھڑکن میں ایک عجیب سا بھونچال آ گیا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دل سینے کو چیر کر باہر نکل آئے گا۔ یہ گھر اس کی محبت اور آرزووں کی محور سکینہ کا تھا، جو چلتے چلتے راہ گزرتے ایک شان بے نیازی کے ساتھ اپنے پلو کو مروڑتے، وحیدالدین کو کنکھیوں سے دیکھتے، شرما کر خاموشی سے جب گزرتی تھی تو وحیدالدین وہیں پان کا پتہ منہ میں رکھے، اسے دیکھنے میں یوں مگن ہوجاتا، کہ اسے پان چبانا تو چھوڑ، سانس لینے کا بھی ہوش تک نہ رہتا۔ الغرض ایک عجب سی رونق اور چہل پہل ہوتی تھی، جہاں گلی کے بازار کے ساتھ ساتھ اس کے دل کا بازار بھی آباد تھا، اور اس بازار کے ہر گوشے میں بس ایک ہی مکیں رہتا تھا، جس کا نام سکینہ تھا۔

ان دونوں کی محبت سمندر کی مانند گہری، مگر خاموش تھی، جس میں تلاطم کبھی کبھار ہی آتا تھا۔ تاہم دونوں سرگشتہ خمار رسوم و قیود تھے اور ان تلاطم خیز موجوں کی شدت کو وہ اپنے ہی اندر سما کر، آنسوؤں کے ساتھ خاموشی سے باہر نکال دیا کرتے تھے، جس کی خبر کسی کو کانوں کان بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایک ہی محلے میں رہنے اور محبت کرنے کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے کو پا نہ سکے، کیونکہ خاندانی روایات کا پاس دونوں گھرانوں کو اس قدر زیادہ تھا، کہ اس کے آگے وہ بڑی سے بڑی قربانی بھی دینے کو تیار رہتے تھے۔ اور یہاں تو محض بیٹی کی پسند کا معاملہ تھا، جس کو ٹالنا یا رد کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ اور پھر وہی ہوا کہ سکینہ کی شادی اس کے اپنے ہی گھر چچا کے لڑکے سے ہو گئی اور وحیدالدین نامراد رہ گیا۔

” میں تم سے آخری بار ملنے آیا ہوں سکینہ“ وحیدالدین نے ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ، دل ہی دل میں سکینہ کو پکارا۔ ”اس کا دل شدت سے اس بات کا متمنی تھا کہ کاش! ایک بار اس گھر کے کواڑ کھل جاتے اور اندر سے سکینہ اسے رخصت کرنے دروازے تک آجاتی، مگر۔ یہ الفاظ ادا ہونے کی دیر تھی کہ اس کی ہچکی اب باقاعدہ بندھ گئی۔ اس نے سکینہ کے گھر کی دیوار کو دونوں ہاتھوں سے یوں چھوا، جیسے کوئی مجاور اپنے پیر کی قبر کو احترام اور ادب سے چھوتا ہے اور پھر چھوٹے بچوں کی طرح رونا شروع ہو گیا، جس کے اندر ایک کرب کے ساتھ حسرت شامل تھی۔

یہ جدائی کا کرب اور محبوب کو ملنے کی حسرت تھی جو حسرت ناتمام تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنے آپ کو اس قدر کمزور محسوس کیا، کہ سکینہ کے گھر کی دیوار سے سہارا لے کر، زمین پر آلتی پالتی مار کر اس کے گھر کے سامنے یوں بیٹھ گیا، گویا وہ آج بغیر ملاقات یہاں سے جانے والا نہیں۔“ میں جانتا ہوں کتنی ہی بہاریں گزر گئیں، اور کتنے ہی سال آئے اور چلے گئے، مگر ہم نامراد ہی رہے۔ ہم دونوں گویا دریا کے دونوں سروں پر کھڑے وہ لوگ تھے، جو حسرت کے ساتھ بانہیں پھیلائے، ایک دوسرے کو دیکھ تو سکتے تھے، مگر مل نہیں سکتے تھے۔

”وحیدالدین ایک ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا، اور ساتھ ہی شدت کے ساتھ رو رہا تھا۔ اس کے رونے میں وہ درد تھا، جس میں ہجر کی تلخی کا شکوہ اور اپنوں کی بے اعتنائی کا ماتم تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے پلکوں پہ گرے موتی چنے اور پھر خیال ہی خیال میں واپس اپنی دنیا میں مگن ہو گیا۔“ ہر محبت کرنے والے کے لئے ہجر کا عذاب قبر کی سختی سے بھی زیادہ شدید اور المناک ہوتا ہے، مگر اس کائنات میں سکینہ کچھ چیزیں ہمارے بس سے باہر ہوتی ہیں۔

تمہارا اور اور میرا ملن بھی شاید کچھ ایسا ہی تھا۔ ”وہ دامن پہ گرے آنسوؤں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک وحیدالدین کو یوں لگا جیسے سکینہ، بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس، اس کے پاس زمین پر آ کر بیٹھ گئی ہے، اور اپنے آنچل کے ساتھ اس کے آنسو تو پونچھ رہی ہے، مگر سکینہ کے اپنے آنسو تھم نہیں پا رہے۔“ جاؤ! تمہیں اللہ کے حوالے کیا۔ جہاں بھی رہو گے، میری یاد اور میری محبت کا سایہ تم پہ تنا رہے گا۔ جاؤ! ”یہ کہہ کر سکینہ کا وجود ہوا میں یوں تحلیل ہو گیا، جیسے دھواں غائب ہوجاتا ہے۔ وحیدالدین نے بہتیری آنکھیں ملیں، اور اس خوش فہمی میں رہا کہ شاید سکینہ واپس لوٹ آئے، مگر وہ تو خیال کی دیوی تھی جو لمحہ بھر کے لئے ہوا کے جھونکے کے ساتھ آئی اور پھر واپس چلی گئی۔

وحیدالدین بالآخر مایوس ہو کر دونوں ہاتھوں کے سہارے بمشکل اٹھا، سکینہ کے گھر کی چوکھٹ کو بوسہ دیا اور پھر حسرت بھرے انداز میں وہاں سے روتے ہوئے اسی سمت واپس مڑ گیا، جہاں سے وہ آیا تھا۔ تاہم واپس جاتے ہوئے بھی وہ سکینہ کے گھر کی جانب بار بار مڑ کر یوں دیکھتا تھا، کہ شاید ابھی دروازہ کھلے گا اور سکینہ اسے روکنے کے لئے پیچھے سے صدا لگائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments