گلگت بلتستان: بلی تھیلے سے باہر آ گئی


گلگت بلتستان والو! مبارک ہو۔ عید کے ساتھ ساتھ سیلف گورننس آرڈر 2018 بھی۔ آپ بلاوجہ مہدی شاہ، حافظ حفیظ اور خالد خورشید سے برہم ہیں۔ ذرا دیر کو سوچیئے تو سہی۔ اس بیوروکریسی کے ساتھ ان لوگوں نے پانچ سال تک کیسے حکومت کی ہوگی۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہمارےمنتخب نمائندے حکومت کرتے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ وہ تو بچارے خادم حسین ہیں۔ نہ توکوئی قانون سازی کر سکتے ہیں نہ ہی کسی کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اور پی اے ایس والوں کو تو ہرگز چھو بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ اسلام آباد والوں کے لاڈلے ہیں۔ ووٹ لیجیئے۔ جوڑ توڑ سے حکومتیں بنائیے اور گریڈ ون کی بھرتیوں پر قناعت کیجیئے  اور پانچ سال بعد گلیوں میں لوگوں کی گالیاں کھائیے۔۔۔۔ خبردار اگر کوئی ڈویلپمنٹ سکیم لائے تو۔۔۔ورنہ مسلم لیگ نون کے پُلوں کی طرح پلاننگ کی گرد آلود فائلوں میں دبا دئیے جاٶگے۔ بابو لوگوں کی دانستہ نافرمانیوں کو بھی نظرانداز کرنا ورنہ صاحب لوگ گورننس آرڈر  کی ایسی ایسی تفسیریں لے آئیں گے۔۔۔رولز آف بزنس کی وہ وہ تاویلیں کریں گے کہ گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے آپ کے اگلے سارے سال الجھ جائیں گے۔ ہم نیشنلسٹ تو پہلے ہی کہتے تھے کہ سیلف رول کے اس ڈھکوسلے، سیلف گورننس 2018 کے تمام نسخوں اور اس سے متعلق تمام کتابچوں کو بتی بنا کر واپس  ادھر ہی دے دیں جدھر سے نکلے ہیں۔ مگر ہماری سنتا کون ہے؟ غداری کے الزامات، شیڈول فور کی پابندیاں اور اپنوں کی زہرآلود نظروں کی صورت میں جواب ملا۔ ہم پاکستان کے خیرخواہ ہیں مگر اپنی شناخت۔۔۔اپنا وطن۔۔۔۔اپنی مٹی۔۔۔ اور اپنے حقوق سب سے مقدم ہیں۔ سب سے پہلے گلگت بلتستان۔ ہماری دھرتی؛ ہماری حکومت۔۔۔ مگر صاحب لوگ کہتے ہیں کہ کرسی، گاڑی، گارڈ، دفتر اور شوشا پر اکتفا کرو۔ دھرتی تمہاری ہی رہے گی مگر حکومت اس بابو کی ہوگی جس کو ہم اسلام آباد سے مسلط کریں گے۔ نام تمہارا ہی چلے گا مگر حکم ہمارا ہوگا کیونکہ ہم قانون دینے والے ہیں۔۔۔ بلکہ ہم خود قانون ہیں۔ یہی رویہ تھا جس نے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔ اسی روئیے نے بلوچستان میں فراری اور لبریشن آرمی پیداکی ۔۔۔اسی روئیےکی بدولت پشتین پیدا ہوئے۔۔۔ بابو لوگ اب گلگت بلتستان کو بھی اسی نہج پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ عقلمندو !  ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو تو سہی کس حساس خطے میں یہ بچگانہ حرکتیں کر رہے ہو۔ سی پیک کا تو خیال کرو۔ ہر فر لانگ پر قبروں پر ایستادہ پرچم کی تو قدر کرو۔
کچھ روز قبل سوشل میڈیا میں برپا پرتعفن مباحث کے بعد کچھ وکلاء دوستوں سے  گورننس آرڈر 2018 اور رولز آف بزنس 2009 سے متعلق گپ شپ ہوئی۔ بڑا لطف آیا۔ گورننس آرڈر 2018 کا چلایا جا رہا ہے اور رولز 2009 کے بنے ہوئے ہیں۔ یعنی بیٹا باپ سے دس سال بڑا ہے۔ ساری دنیا میں ایکٹ، آرڈر اور آرڈیننس کے مطابق رولز بنتے ہیں مگر گلگت بلتستان میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ رولز پرانے ہیں اور آرڈر بعد کا۔۔۔مزے کی بات یہ کہ دونوں میں دور دور تک مماثلت ہے ہی نہیں۔ کہتے ہیں انتظامی صوبہ ہیں۔ تمام صوبوں میں صوبائی حکومت یہ تقرریاں اور تبادلے کرتی ہےمگر گلگت بلتستان میں عوامی منتخب حکومت نہیں۔۔۔ اسلام آباد سے آئے ہوئے بابو کا حکم چلے گا۔ تمام صوبے اپنی قانون سازی سے متعلق سبجیکٹس پر داخلی طور پر جب چاہیں قانون سازی کر سکتےبہیں۔ رولز آف بزنس میں ترمیم، کمی بیشی کر سکتے ہیں۔ بخاری صاحب کو کچھ خاص قانون دانوں نے شاید مشورہ دیا ہے کہ  صوبائی اور وفاقی قوانین میں تصادم کی صورت میں وفاقی قوانین موثر ہونگے۔ جناب سر آنکھوں پر۔۔۔ مگر جن قانون دانوں سے ہم نے گفتگو کی ان کے بقول آئین پاکستان میں FLL کے نام سے جو وفاقی سبجیکٹس کی لسٹ ہے صرف اسی سے متعلق قانون سازی وفاق کی مرضی یا اس کی مشاورت سے ہوتی ہے یا ہوگی۔۔۔ اور دیگر تمام امور جو صوبائی نوعیت کے ہیں ان سے متعلق صوبہ مختار و مجاز ہے۔۔۔ سو تصادم یا ٹکراٶکی تو بات ہی نہیں ہے ۔۔ گورننس آرڈر کے مطابق حکومت سے مراد حکومت گلگت بلتستان ہی ہے۔۔۔ لہٰذا صوبائی اسمبلی  FLL کے علاوہ تمام موضوعات پر بلا شرکت غیرے قانون سازی کر سکتی ہے  ۔۔مگر گلگت بلتستان میں بابو صاحب کے بقول ہر قانون سازی سے پہلے سیکرٹری فنانس جناب فرخ عتیق صاحب کا اجازت نامہ لازمی ہے۔ اگر حضور مسکرا کر سر ہلا دیں تو اسمبلی اجلاس بلا لیں اور اگر جناب کے ماتھے پر بل آئے تو گورننس آرڈر کی کتاب بغل میں دبا کر رفو چکر ہوں۔ تُف ہے ایسی حکومت پر! اور ساتھ میں ان مقامی سہولت کاروں پر جو اپنے وقتی مفاد کی خاطر تمام علاقے کا مستقبل داٶ پر لگا رہے ہیں۔ حقِ حاکمیت کا تو دفاع کر نہیں سکتے۔۔۔۔حقِ ملکیت اور سٹیٹ سبجیکٹ رول تو بہت دور کی بات ہے۔ دیوانے کے خواب ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ سمیٹنے کے نعرے ہیں اور بس ٹھس۔۔۔ صبح سے سوشل میڈیاپر گردش کرتی وہ دو چٹھیاں جو گلگت بلتستان کی منتخب حکومت سے بلا مشاورت لکھی گئی ہیں وہ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور غیور سیاستدانوں کے منہ پر 9 نمبر کا کپتان چپل ہیں جن میں یہ لکھا گیا ہے کہ گرانٹ پر گزر بسر کرنے والی گلگت بلتستان اسمبلی  قانون سازی نہیں کر سکتی۔ وہ مونچھوں کو تاٶ دے کر، آستین چڑھاکر مخالف سیاستدانوں کو گالیاں دینے والے طرم خان کہاں دبکے ہوئے ہیں۔ کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا مذمت تو دور کی بات۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments