بشیرے کی گھر والی۔ پروین کی ایک نثری نظم! پروین شاکر کی زندگی میں طبع ہونے والا آخری مجموعہ انکار تھا بعد ازاں انہوں نے ماہ تمام کے نام سے کلیات طبع کیں۔ انکار ان کا واحد مجموعہ ہے کہ جس میں انہوں نے نثری نظموں کا علیحدہ باب شائع کیا۔ ان کی مرحومہ بہن نسرین شاکر کے مطابق ایک ہندو نجومی جوتشی چوہان نے آ نہیں بتایا تھا کہ وہ صرف چار کتابیں ہی لکھ پائیں گی۔ تاہم پروین نے قوت ارادی کو مجتمع کیا اور ماہ تمام طبع ہو گئی۔

پروین نے جتنا بھی لکھا اور جو بھی لکھا وہ قارئین، ناقدین اور محققین کے لئے نہ صرف باعث توجہ ہے بلکہ اس کلام کے ذریعے ہمیں رجائیت پسندی، امید اور زندگی سے لگاؤ کا پیغام ملتا ہے۔ تاہم زندگی کے کھردرے اور تلخ حقائق کو بھی انہوں نے ایک نئی جہت سے محسوس کیا ہے اور اردو ادب نے خود کو ایک نئے سرے سے دریافت کیا۔ 1990 سے 1994 کے درمیان ان کی شاعری نے ارتقاء کا جو مرحلہ طے کیا اس طرز اظہار نے ان کی پذیرائی، ستائش اور فنی گراف کو بہت جلا بخشی۔

وہ راستہ اجل اور زندگی کے درمیان چند لمحوں کی مہلت مل جانے کی اس کا راستہ ہے وہ معلوم حقائق سے آگہی کے سفر پر روانہ ہوئیں۔ یہاں یہ بات سچ ہوتی نظر آتی ہے کہ نارسائی اور مشکل حالات میں تخلیق کار زیادہ اور بہت اچھا لکھتے ہیں۔ ان۔ کی ایک نظم بشیرے کی گھر والی ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں صنفی امتیاز کے خلاف ان کا انوکھا احتجاج نظر آتا ہے۔ بشیرے کی گھر والی ان۔ کی شاعری کے دیگر کرداروں کی طرح پیکر محسوس ہے۔

ہمارے معاشرے میں جو رویہ خواتین کے ساتھ روا رکھا جاتا اس کی بڑی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان۔ کی دیگر شاعری میں وہ ہمیں ایک مجاہدانہ شان کے ساتھ زندگی سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں جبکہ انکار میں ان کا انگاروں کی طرح سانس لیتا ہوا ذوق آگہی کچھ اور بھی سوا ہوجاتا ہے۔ خواتین کو اس دوہرے معیار کے حامل معاشرے میں ہر رخ سے آنے والی ہوا کو صبر، حوصلے اور ثابت قدمی سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اگرچہ ان کے ناقدین انہیں قادر الکلام شاعرہ کا رتبہ دینے کو تیار نہیں ہیں ناقدین کے اس متعصبانہ رویے کے جواب میں ہم ان کی یہ نظم پیش کرتے ہیں البتہ پروین شاکر نے ناقدین کو صحیح یا غلط ثابت نہ کر کے اپنے قارئین اور محققین پر بہت بڑا احسان کیا ہے جس طرح انہوں نے کم۔ عمری میں جبری مزدوری کے خلاف علم حق بلند کیا اسی طرح تیسری دنیا کی بے بس اور بے مایہ خواتین کے دکھ درد کی آواز بن گئیں۔ بشیرے کی گھر والی

ہے رے تیری کیا اوقات!
دودھ پلانے والے جانوروں میں
اے سب سے کم اوقات
پرش کی پسلی سے تو تیرا جنم ہوا
اور ہمیشہ پیروں میں تو پہنی گئی
جب ماں جایا پھلواری میں تتلی ہوتا
تیرے پھول سے ہاتھوں میں
تیرے قد سے بڑی جھاڑو ہوتی
ماں کا آنچل پکڑے پکڑے
تجھ کو کتنے کام آ جاتے
اپلے تھاپنا
لکڑی کاٹنا
گائے کی سانی بنانا
پھر بھی مکھن کی ٹکیہ
ماں نے ہمیشہ بھیا کی روٹی پہ رکھی
تیرے لئے بس رات کی روٹی
رات کا سالن
روکھی سوکھی کھاتے
موٹا جوٹا پہنتے
تجھ پہ جوانی آئی تو
تیرے باپ کی نفرت تجھ سے اور بڑھی
تیرے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے پر
ایسی کڑی نظر رکھی
جیسے ذرا سی چوک ہوئی
اور تو بھاگ گئی
سولہواں لگتے ہی
ایک مرد نے اپنے من کا بوجھ
دوسرے مرد کے تن پہ اتار دیا
بس گھر اور مالک بدلا
تیری چاکری وہی رہی
بلکہ کچھ اور زیادہ
اب تیرے ذمے شامل تھا
روٹی کھلانے والے کو
رات گئے خوش بھی کرنا
ہر ساون گابھن ہونا
پورے دنوں سے گھر کا کام سنبھالتی
پتی کا ساتھ
بس بستر تک
آگے تیرا کام!
کیسی نوکری ہے
جس میں کوئی دیہاڑی نہیں
جس میں کوئی چھٹی نہیں
جس میں الگ ہونے کی سرے سے کوئی ریت نہیں
ڈھوروں ڈنگروں کو بھی
جیٹھ اساڑھ کی دھوپ میں
پیڑ تلے سستانے کی آزادی ہوتی ہے
تیرے بھاگ میں ایسا کوئی سمے نہیں
تیری جیون پگڈنڈی پر کوئی پیڑ نہیں ہے
ہے رے!
کن کرموں کا پھل ہے تو
تن بیچے تو کسبی ٹھہرے
من کا سودا کرے اور پتنی کہلائے
سمے کے ہاتھوں ہوتا رہے گا
کب تک یہ اپمان
ایک نوالہ روٹی
ایک کٹورے پانی کی خاطر

دیتی رہے گی کب تک تو بلیدان! پروین نے اس نظم میں اپنی ہی دیرینہ روایت کو توڑا اور وہ طبقہ جسے سانس لینے کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، کے لئے ایک روزن بن گئیں ملک میں خواتین کی غالب اکثریت شادی کے بندھن میں بندھ جائے تو اسی طرح کے حالات کا شکار ہوجاتی ہیں حالانکہ ہمارے مذہب نے شادی جیسے مقدس ادارے کو خواتین کے لئے تحفظ اور پناہ گاہ بنایا ہے اور معاشرتی نقطۂ نگاہ سے بھی شادی انتہائی ضروری ہے تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں مفادات ٹکرا جائیں وہیں انسانی رویے اور رشتوں کا ایک اور روپ سامنے آتا ہے۔

جیسے اس نظم کا نچوڑ بس ایک فقرے میں ہے۔ تن بیچے تو کسبی ٹھہرے، من کا سودا کرے اور پتنی کہلائے۔ یہ حقیقت بلاشبہ ایک دلدوز منظر کی عکاسی کرتی ہے جہاں پوری زندگی ایک ایسے شخص کے حوالے کردی جاتی ہے جو ایک مکمل انسان کو ڈھوروں ڈنگروں سے زیادہ اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتا ہم دیکھتے ہیں پروین کا شیریں لہجہ درشتی اور شعلہ نوائی میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے یہی بڑے تخلیق کاروں کی پہچان ہے کہ وہ سچائی کو جوں کا توں بیان کر دیں۔

پروین نے زندگی کی محرومیوں کو ورد زباں بنا نے کی بجائے ان پر کیسا لطیف طنز کیا ہے۔ بشیرے کی گھر والی میں دنیا کی تمام محکوم خواتین ایک استعارے کے طور پر موجود ہیں۔ جن کو نامعلوم انا، ہٹ دھرمی، خود غرضی اور ظلم کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ پروین نے ایسے ظلم اور نا انصافی کے ساتھ کسی رعایت کے بغیر سچ کو براہ راست انداز میں بیان کیا ہے۔