جب قوم کی قابل فخر بیٹی کا لباس سرعام تار تار کیا گیا!


ایک ہمہ جہت ہستی جو پیشہ ور وکیل تھیں، انسانی حقوق کی علم بردار بھی، تشدد کا شکار عورتوں اور اقلیتی افراد پہ توہین مذہب کے الزامات کے ہدف افراد کے لئے قانونی لڑائی لڑنے والی جنگجو، مظلوموں کو پناہ فراہم کرنے والی ہمدرد، آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے والی خاتون آہن، سری لنکا، ایران اور فلسطین کے بارے میں بین الاقومی اداروں کے لئے ان کی ذمہ داریاں، اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی قوتیں ہر قدم پہ ان کو نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے پہ تلی ہوئی تھیں۔

انہوں نے اپنے پورے کیریئر کے دوران انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی وکالت کی، توہین رسالت اور خواتین کے خلاف تشدد کے متاثرین کو پناہ دی، ان کا دفاع کیا اور ان کے لئے قانونی لڑائی لڑنے میں کامیاب رہیں۔

انہیں 1983 میں قید کیا گیا تھا اور 2007 میں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ سنہ 2013 میں کچھ سرکاری دستاویزات منظر عام پہ آئیں جن سے پتہ چلا کہ کچھ انٹیلی جنس افسران نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس وقت انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان قوتوں کے خلاف کارروائی کریں جو انہیں خاموش کرانا چاہتی تھیں لیکن ان کی یہ اپیل بہرے کانوں تک پہنچ نہیں پائی۔

ایسے ناگفتہ بہ حالات کے باوجود انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں کسی بھی فکر کے بغیر پدر سری معاشرے میں تمام مشکلات کے باوجود اپنی سخت لڑائی جاری رکھی۔ وہ جہاں بھی اور جب بھی ناانصافی کے بارے میں سنتی تھیں، اس کے خلاف لڑنے کے لئے سامنے آ جاتیں، نہ صرف اپنی آواز سے، بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے اس کی مذمت کرتی تھیں، سڑکوں پر احتجاج کرتی تھیں، عدالتوں میں قانونی ذرائع استعمال کرتی تھیں، اور متاثرہ افراد کو مدد فراہم کرتی تھیں۔

1980 کی دہائی کے وسط میں ضیاء الحق کی طرف سے تشکیل دی گئی مجلس شوریٰ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے مذہب کی توہین کی ہے اور انہیں سزائے موت دی جانی چاہیے۔ لیکن انہیں اس توہین مذہب کا مجرم نہیں پایا گیا اور وہ سزائے موت سے بچ گئیں۔

کئی قدامت پسند اور موقع پرست تبصرہ نگاروں نے ان کی جدوجہد کے خلاف بڑے پیمانے پر لکھا۔ انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کی پیکر خاتون کو ان کی فعالیت اور انسانی حقوق کے کام کی وجہ سے بہت مالی اور نفسیاتی نقصان اٹھانا پڑا، اور خاص طور پر توہین مذہب کے ملزم 14 سالہ مسیحی لڑکے سلامت مسیح کا دفاع کرنے اور بالآخر 1995 میں مقدمہ جیتنے کے بعد ہائی کورٹ میں ایک ہجوم نے ان کی گاڑی کو توڑ پھوڑ دیا، ان پر اور ان کے ڈرائیور پر حملہ کیا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ وہ اور ان کے اہل خانہ پر حملے کیے گئے، انہیں یرغمال بنایا گیا، ان کے گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی لیکن انہوں نے انصاف کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھی۔

جب اس ہمدرد وکیل نے 1999 میں صائمہ سرور کا مقدمہ پیش کیا، جسے طلاق کی خواہش میں اپنے شوہر کو چھوڑ کر ’دستک‘ پناہ گاہ میں پناہ دی گئی تھی اور بعد میں صائمہ سرور کے اہل خانہ نے غیرت کے نام پر قتل کی کارروائی میں گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا تھا، تو ان کو طلاق کی کارروائی میں صائمہ کی نمائندگی کرنے پر بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔

مئی 2005 میں اس بہادر عورت نے اعلان کیا کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے لاہور میں ایک علامتی مخلوط صنف میراتھن کا انعقاد کریں گی۔ یہ اعلان مختار مائی جیسے مشہور مقدمات کے بعد کیا گیا تھا۔ کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب انتہا پسند گروہوں اور سیاسی اسلامی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے حامیوں نے آتشیں اسلحے، ڈنڈوں اور مولوتوف کاک ٹیل سے لیس ہو کر اس دوڑ کی پرتشدد مخالفت کی اور اس خاتون کو مقامی پولیس اور انٹیلی جنس ایجنٹوں کی جانب سے خاص طور پر سخت سلوک کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے سرعام ان کے کپڑے پھاڑنا شروع کر دیے۔

اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ ”بہت سے لوگوں نے میری پیٹھ ڈھانپنے کی کوشش کی کیونکہ میں صرف اسے محسوس کر سکتی تھی، میں اپنی پیٹھ نہیں دیکھ سکتی تھی۔ جب وہ مجھے پولیس وین میں بٹھا رہے تھے، تو پولیس نے بتایا کہ میری تصویر لے لی گئی ہے جس میں میری پیٹھ ننگی ہے۔ یہ صرف میری توہین کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ یہ صرف مجھے ذلیل کرنے کے لئے کیا گیا ہے .“ ایک پولیس افسر نے ان کو بتایا کہ پولیس کو سخت رویہ اختیار کرنے اور شرکاء کے کپڑے پھاڑنے کے لئے حکم دیا گیا تھا۔

ان کے کیریئر کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے :
·ایک وکیل کے طور پر تربیت حاصل کی اور 30 سال کی عمر سے پاکستان کی سپریم کورٹ میں کام کیا۔
·فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ناقد رہیں
· 1983 میں جمہوریت کی حامی سرگرمیوں کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔

· 2007 میں فوجی رہنما کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹانے کی مخالفت کرنے پر انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔

· پاکستانی انسانی حقوق کے کمیشن کی شریک بانی اور پاکستان میں پہلے مفت قانونی امداد کے مرکز کی بانی

·ویمن ایکشن فورم کی شریک بانی، جو اس قانون کی مخالفت کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی جس نے عدالت میں ایک عورت کی گواہی کو مردوں کے مقابلے میں نصف کر دیا۔

·پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون رہنما

· 1986 میں انہوں نے اپنی بہن کے ساتھ مل کر ’اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ‘ قائم کیا جو پاکستان کا پہلا مفت قانونی امداد کا مرکز تھا۔ لاہور میں اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ بھی چلاتا ہے، جسے ’دستک‘ کہا جاتا ہے۔

·ان کو اسٹیبلشمنٹ نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی سفارش کی لیکن اس کے خلاف قانونی جنگ کامیابی سے جیت لی۔

·انہوں نے سری لنکا اور ایران کے لئے مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

2005ء میں نوبل امن انعام کے لئے نامزد کیا گیا۔

1952 میں لاہور میں پیدا ہونے والی اس خاتون آہن عاصمہ جہانگیر نے بی اے کی ڈگری کنیرڈ کالج سے حاصل کی، 1978ء میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری لی۔ 1980ء میں انہیں لاہور ہائی کورٹ اور 1982ء میں سپریم کورٹ نے انہیں بلایا اور انہیں وہاں کام کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ 1980 کی دہائی میں جہانگیر جمہوری تحریک کی کارکن بن گئیں اور ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک میں حصہ لینے پر 1983 میں جیل گئیں۔ 1986 میں وہ جنیوا منتقل ہو گئیں  اور ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی نائب صدر بنیں، اور 1988 میں پاکستان واپس آنے تک اس عہدے پر رہیں۔

1987 ء میں عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کے پاکستانی کمیشن کی بنیاد رکھی اور اس کے سیکرٹری جنرل بنیں۔ 1993 ء میں انہیں کمیشن کی چیئرپرسن کے طور پر ترقی دی گئی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد نومبر 2007 میں انہیں دوبارہ گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ وکلاء تحریک کے ایک رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا عہدہ سنبھالنے والی پاکستان کی پہلی خاتون بن گئیں۔ وہ ساؤتھ ایشیا فورم فار ہیومن رائٹس کی شریک چیئرمین اور انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس کی نائب صدر بھی رہیں۔

عاصمہ جہانگیر نے اگست 2004 سے جولائی 2010 تک اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے مذہبی آزادی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جن میں سری لنکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے پینل اور مقبوضہ اسرائیلی نو آبادیوں میں اقوام متحدہ کے تلاش حقائق مشن میں بھی خدمات انجام دینا شامل تھا۔ 2016 میں انہیں ایران کے اندر انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا جو فروری 2018 میں ان کی موت تک برقرار رہا۔

عاصمہ کی بیٹی منیزے کہتی ہیں کہ بدترین وقت میں بھی جب وہ جیل میں تھیں یا گھر میں نظر بند تھیں، حملوں کا نشانہ بن رہی تھیں یا ہراسانی کا سامنا کر رہی تھیں، تب بھی ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، جو پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ ’میں لڑائی کے لیے تیار ہوں‘ ۔

وہ زندگی سے بڑھ کر ایک ہمہ پہلو عورت تھیں۔ ان کی روح انصاف کے حصول کے لئے بے قرار تھی۔

عاصمہ اب یہاں نہیں ہیں لیکن ان کا کام اے جی ایچ ایس اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ذریعے جاری ہے۔ سال 2019 میں قانونی ادارے اے جی ایچ ایس نے 902 مقدمات میں مفت قانونی خدمات فراہم کیں، 297 خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے ارکان کو ضمانتیں حاصل کر کے عبوری مدد فراہم کی۔ اس کے 16 پیرا لیگل کمیونٹی سینٹرز کے ذریعے 25,000 سے زیادہ خواتین کو قانونی طور پر با اختیار بنایا گیا۔

عاصمہ جہانگیر نے اپنی بہن حنا جیلانی کے ساتھ مل کر بہت سے عوامی مسائل کے حل کے لئے کام کیا۔ سنہ 2014 میں اس جنگجو وکیل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انھوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کے بارے میں سوچ میں مثبت تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کو کوئی مسؑلہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ”پھر قیدیوں کے حقوق ایک مسئلہ بن گئے۔ خواتین کے حقوق کو ایک مغربی تصور کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ اب لوگ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔“

عاصمہ جہانگیر نے بہت کچھ لکھا اور شائع کیا جن میں یہ دو کتب بھی شامل ہیں۔

Divine Sanction? The Hudood Ordinance (1988, 2003)
Children of a Lesser God: Child Prisoners of Pakistan (1992)

اس کے علاوہ انہوں نے 2 اکتوبر 2000 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والا مشہور مضمون ”Whither are We!“ بھی تحریر کیا۔

شرمناک بات یہ ہے کہ قوم کی اس انتہائی قابل بیٹی کو اپنی کامیابیوں کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ ان قوتوں نے عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد کے ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور یہاں تک کہ انہیں جسمانی، جذباتی، اور مالی طور پر بھی ہر ممکن نقصان پہنچایا۔ اسٹیبلشمنٹ، اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی مخالف قوتوں نے انہیں پاکستان مخالف، اسلام دشمن، اور بیرونی ممالک کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کرنے میں کوئی وقت یا موقع ضائع نہیں کیا۔

ساقی فاروقی نے اس بارے میں کیا خوب شعر کہا ہے
یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے

یہ مضمون ’تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے‘ کی پانچویں قسط ہے۔ اس سلسلے کی پچھلی قسط کے لئے رجوع کریں :

”قوم نے اس عظیم مفکر کو کیوں بھلا دیا!“

حوالہ جات:

1.In remembrance of Asma Jahangir: She had a twinkle in her eye even in the worst of times by Xari Jalil; Published February 12, 2020; https://www.dawn.com/news/1533917

2.Asma Jahangir: Pakistan human rights champion dies; Published 11 February 2018; https://www.bbc.com/news/world-asia-43023082

3.Asma Jahangir: https://en.wikipedia.org/wiki/Asma_Jahangir


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments