ادھوری خواہشات


رانیہ بہت گہری نیند میں تھی جب کسی عورت کی سسکیوں کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی اسے محسوس ہوا جیسے رونے کی آواز کہیں قریب سے آ رہی تھی شاید کوئی عورت اس کے کمرہ کی کھڑکی کے باہر رو رہی تھی وہ بے چین ہو گئی اور اپنے پہلو میں بے خبر سوئے شایان پر ایک نظر ڈالی جو گہری نیند میں تھا اس سے قبل کہ وہ اٹھ کر اپنے کمرہ سے باہر جا کر دیکھتی ایک دم ہی رونے کی آواز آنا بند ہو گئی مگر اس کے بعد رانیہ کو ساری رات نیند نہ آئی اور صبح ہوتے ہی اس نے شایان کو بتایا

آدھی رات کے وقت حویلی میں کوئی عورت رو رہی تھی
”اچھا“

مختصر سا جواب دیتا شانی باتھ روم میں چلا گیا مگر اس کے رویہ نے رانیہ کو مزید کوئی سوال کرنے سے روک دیا لیکن جب دوپہر میں وہ اپنی ساس کے ہمراہ لنچ کر رہی تھی تو خود کو روک نہ سکی اور انہیں بتانے لگی۔

امی جی رات حویلی میں کوئی عورت رو رہی تھی جس کی آواز میرے کمرہ تک آ رہی تھی اور میں۔ ۔ ۔
ہاں وہ شایان کی بوا ہیں
ساس نے رانیہ کی بات کاٹتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھری
پاگل ہیں بیچاری اس لئے تم ان سے دور رہنا ان کا غصہ بہت خطرناک ہے جو چیز ہاتھ میں ہو اٹھا کر مار دیتی ہیں۔

ساس کی ان باتوں نے رانیہ کو خوف زدہ کر دیا ساتھ ہی اسے شایان کا صبح والا رویہ یاد کر کے حیرت ہوئی جس کے بعد اس نے شایان سے کوئی سوال نہ کیا مگر اس کے بعد رات کے وقت حویلی میں ابھرنے والی سسکیوں کی آوازیں اسے سونے نہ دیتیں اور وہ ساری رات بے چین رہتی جب ایک رات اس نے بالکونی سے جھانک کر بوا جی کو بھی دیکھ لیا جو سفید لباس میں ملبوس بال کھولے نیچے صحن سے گزرتی اناج والی کوٹھڑی کی جانب جا رہی تھیں شاید وہ اس کوٹھڑی کے برابر والے کمرہ میں رہتی تھیں جس کے اطراف ملازمین کے کمرے بنے ہوئے تھے۔

اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد رانیہ کے سسر کا ماہانہ چیک اپ تھا جب شایان اپنے والد کے ساتھ شہر گیا ہوا تھا۔ اس رات رانیہ اپنے کمرہ میں اکیلی تھی جب اسے کمرہ کی کھڑکی سے ایک بار پھر سسکیوں کی تیز آواز سنائی دی جسے سنتے ہی رانیہ نے جلدی سے اپنے پاؤں میں سلیپر پھنسائے اور تیزی سے سیڑھیاں اترتی نیچے آ گئی اس کا اندازہ درست تھا رونے کی آواز اناج والی کوٹھڑی کی طرف سے آ رہی تھی وہ بنا سوچے سمجھے اس کمرہ کی جانب بڑھ گئی جہاں بوا جی رہتی تھیں پھر بنا کسی خوف کے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی جب رانیہ نے دیکھا خالی کمرے میں بان کی چارپائی پر تنہا بیٹھی بوا جی اپنے سامنے قرآن کریم رکھے رو رہی تھیں وہ ڈر کر اپنی جگہ رک گئی جب ایک دم ہی بوا جی کی نظر اس پر پڑی اور وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئیں

تم میرے شانی کی بیوی ہو نا
خوشی سے اسے دیکھتے ہوئے بوا جی اپنے آنسو صاف کر رہی تھیں
آؤ اندر آؤ میرے شوہر سے ملو

رانیہ کا جواب سنے بنا انہوں نے چارپائی کی جانب اشارہ کیا رانیہ نے دیکھا بوا جی کا اشارہ قرآن مجید کی طرف تھا وہ پوری جان سے لرز گئی اسے اپنی ساس کی باتوں پر یقین آ گیا بوا جی پاگل تھیں وہ یہ ہی سوچ رہی تھی جب اسے ایک بار پھر سے بوا جی کی آواز سنائی دی

جانتی ہو میں بھی تمہاری طرح جوان تھی دل میں بہت سی امنگیں اور خواہشات رکھتی تھی، جب ملک شہریار نے میرا رشتہ مانگا اور اپنی جائیداد بچانے کے لیے حویلی والوں نے مجھے اس قرآن سے بیاہ دیا

یہ کہہ کر بوا جی ایک بار پھر سسکیاں لے کر رونے لگیں
کیا تمھاری کوئی جائیداد نہیں ہے؟

روتے ہوئے انہوں نے رانیہ کی جانب دیکھا۔ بوا جی کے اس سوال میں ان کی ادھوری خواہشات جھلک رہی تھیں جسے محسوس کرتے ہی رانیہ کو اپنا دل پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ رسم و رواج کی ان دیکھی زنجیروں نے ایک ہنستی مسکراتی عورت کی ساری زندگی کو بھرپور اذیت سے دوچار کر دیا تھا جس کا ان کے کسی اپنے کو احساس تک نہ تھا۔ بوا جی کی اس قدر بے بسی نے رانیہ کو اپنی جگہ ساکت کر دیا اور وہ دروازہ کی چوکھٹ پر بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی۔

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments