اسلامک ٹچ والے ضعیف الاعتقاد بزرگ رہنما کی کارستانیاں


وہ ضعیف الاعتقاد شروع سے ہی ہے اور اسے جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کی ذہنی پسماندگی آکسفورڈ یونیورسٹی اور برطانوی ماحول بھی ختم نہیں کر سکے اور اس کے اندر اپنی قومیت کے حوالے سے تعصب بھی بہت ہے اور شہرت، گلیمر اور قومی ٹیم کی کپتانی اور ایک بڑے اہم اسلامی ملک کی وزارت عظمی بھی اس کے اندر سے یہ چیزیں نکال نہ سکے ہیں، اس کی ابھی تک کی آخری شادی سے پہلے ہی ایک اداکارہ قندیل بلوچ نے یہ انکشاف کر دیا تھا کہ وہ ان دنوں کسی پنکی پیرنی کے پاس آ جا رہا ہے، مبینہ طور پر پنکی کی بہن نے عرب امارات میں اسے اپنی بہن کے بارے میں بتایا تھا اور وہ اس کے پاس آنے جانے لگا تھا اور پھر ایک روز اس نے اس کے کہنے پر اپنی بیوی ریحام کو لندن طلاق بھیج دی اور اس سے شادی کرلی اور تب یہ کہانیاں سنائی گئی تھیں کہ خواب میں ایک برگزیدہ اور مبارک ہستی نے ایسا کرنے کی صلاح دی تھی اور افسوس کہ تب کسی نے نہ کہا کہ ”طلاق تو اللہ کا ناپسندیدہ ترین حلال فعل ہے تو مبارک اور برگزیدہ ہستی ایک خاتون جس کا بسا بسایا گھر ہے، اس کا خاوند ہے جس کے ساتھ وہ برسوں سے ہنسی خوشی رہ رہی ہے، جو جوان بچوں کی ماں بلکہ نانی تک ہے، اس کو اللہ کے ناپسندیدہ ترین کام کرنے کے لیے کیوں کہے گی“؟

بہرحال اب بہت سی باتیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور نکاح خواں مفتی سعید اور گواہ عون چودھری بتا رہے ہیں کہ شادی کے لیے عدتی مدت گزرنے کا انتظار تک نہ کیا گیا تھا اور اس کے پیچھے منطق یہ بیان کی جا رہی ہے کہ جلدی نہ کی جاتی تو موصوف کے وزیراعظم بننے کی راہ کھوٹی ہو جانی تھی؟ اندازہ کریں کہ ایک اسلامی ملک کے وزیراعظم بننے کے لیے کیسی سنگین غیر شرعی حرکت کی گئی تھی؟ پھر دیکھنے والوں نے عجیب سی کہانیاں سننا شروع کر دیں کہ گھریلو کہلوانے والی باپردہ بی بی نے کسی استخارہ کے بعد ملک کے صدر اور سب سے بڑے صوبے کے لیے حرف ”ع“ کو مبارک اور سعد قرار دے کر عارف علوی اور عثمان بزدار کے ناموں کی منظوری دی اور شوہر نامدار (جو اب اہلیہ کو ”مرشد“ ماننے لگے ہیں) نے بلا سوچے سمجھے ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ایک انتہائی نااہل شخص کے حوالے کر دیا جو فرح گوگی جیسے کرداروں کی وجہ سے سامنے آیا تھا، بات یہیں رک جاتی تو ٹھیک تھی لیکن پھر ہونے یہ لگا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کے اہم ترین معاملات میں بھی ضعیف الاعتقادی کے قصے سامنے آنے لگ گئے اور کہتے ہیں کہ دو بار برطانیہ کا دورہ عین وقت پر منسوخ کر دیا گیا کہ بی بی نے ”منظوری“ نہ دی تھی (حالانکہ اس کے پیچھے صرف یہ بات تھی کہ ایک باپ اپنے بیٹوں سلمان اور قاسم سے نہ مل سکے اور سابق اہلیہ جمائما سے بھی دور رہے)۔

ایک روز ایک غیرملکی چینل کی خاتون صحافی انٹرویو کے لیے گئیں تو بنی گالہ کی چھت پر بہت سا گوشت بکھرا ہوا تھا، استفسار پر بتایا گیا کہ یہ خان صاحب سے نحوست دور کرنے کے لیے چھت پر پھینکا گیا ہے اور ایک روز سب بنی گالہ والی رہائش گاہ سے وزیراعظم ہاؤس کے راستے پر موجود درختوں کی شاخوں پر گزرنے والے رنگ برنگے کپڑوں کی ”لیراں“ لہراتی دیکھ کر دنگ رہ گئے اور جب پوچھنے والوں نے کسی طرح جانکاری لی تو معلوم ہوا کہ بی بی صاحبہ کے حکم پر یہ لیراں ان شاخوں پر باندھی گئی ہیں تاکہ خان صاحب پر برے اثرات نہ پڑیں اور نحوستیں دور رہیں، جی ہاں یہ سب مبینہ طور پر ملک کے وزیراعظم کی اہلیہ کروا رہی تھی اور اور پھر جب اس بی بی نے ایک انٹرویو میں تصوف پر گفتگو کی اور کتے کی آنکھ میں آنسو کی کہانی اینکر ندیم ملک کو سنائی تو اگلے روز عمران خان کو لفظ ”کپتان“ سے پکارنے کی سب کو عادت ڈالنے کا کریڈٹ لینے والے ان کے عزیز ترین دوست اور ممدوح کالم نگار ہارون الرشید نے سخت بیزاری کے عالم میں بھڑک کر لکھا

”محترمہ بشری بی بی اگر تصوف کے معاملات کے بارے میں خاموش رہیں تو بہتر ہو گا کیونکہ انہیں تصوف کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے“

خیر ان ہارون الرشید کی کسی نے کیا سننی تھی کہ اس کے بعد بھی بہت سے ایسے معاملات سامنے آتے رہے کہ دیکھنے سننے والے حیران ہوتے رہے مگر سابق وزیراعظم کان منہ لپیٹ کر بیٹھے رہے اور اپنی ایسی ہی جہالت اور ضعیف الاعتقادی کا شکار ہو کر حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کے لیے گئے سارے عمل، جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے ناکام ہو گئے لیکن شاباش ہے کہ اب وہ علانیہ بشری بی بی کو اپنی ”مرشد“ کہنے لگے ہیں اور ابھی حال ہی میں جب جے آئی ٹی (JIT) کے ممبران زمان پارک ان سے کچھ معاملات کے حوالے سے سوالات کرنے گئے تو زمان پارک داخل ہوتے ہی جے آئی ٹی ممبران کو کالے بکروں کے دائرے میں لے لیا گیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد انہیں آگے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

ان واقعات سے آپ اندازہ کر لیں کہ کس نوعیت کے ذہنی افلاس کے شکار شخص اور افراد کو ایک اچھا بھلا ملک پکڑا دیا گیا تھا اور اب بھی چند نادان اس کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں حالانکہ ضعیف الاعتقادی کی جس سطح پر سابق وزیراعظم کھڑے ہیں اس کو دیکھ کر تو ان پر ترس ہی کھایا جاسکتا ہے، اس لیے اگر نادان لوگ ملک و قوم پر رحم کریں اور ضعیف الاعتقادی کا شکار شخص کا کسی نفسیاتی ماہر سے علاج کروائیں تو سب کے لیے بہتر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments