محبت نامہ


اس ذات باری تعالٰی کے نام سے شروع کرتا ہوں جس نے ہر شے پیدا کی، انسان پیدا کیے اور اس کے دل کو اپنا یعنی ”اللہ کا گھر قرار دیا“ اور جس نے اسی دل کو محبت سے روشناس کرا کے آباد کیا۔

اے میرے تنہائیوں اور خیالوں کے رفیقہ حیات! بعد از سلام بقول جون ایلیا عرض ہے،
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھ سے
یقیناً اک جسارت ہو گئی ہے
تمہیں کوئی شکایت تو نہ ہوگی
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے

پہلی مرتبہ جب تمہیں دیکھا تو دل ہلا، دماغ سوچوں کا مرکز بنا، میں اپنے من کو تیری دید سے مسرت بخشتا رہا اور آنکھیں بند کر کے تخیل کے عالم میں کسی دور پہاڑی کے چوٹی پہ بیٹھے سفید جنگلی پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر تیرے دوپٹے میں چھپے زلفوں سے آتی مہک سونگ رہا تھا، جب آنکھ کھلی تو تمہیں یعنی آپ کو وہاں سے یکا یک اوجھل پایا۔ اس کے بعد ہجر و وصال کا یہ سلسلہ چلتا رہا، مگر ہم کبھی ہم کلام نہ ہو سکے۔

سیاہ پوشاک تو شاید تم یعنی آپ جیسے خائستہ (خوبرو) لوگوں کو نظر بد سے بچانے کے لئے بنے ہیں۔

میں نے دیکھا، کالا عبایہ اوڑھے، گوری رنگت میں ہلکا سا گندمی رنگ ملا تمہارے رخسار اپنے دلکش ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔

بلیک اینڈ وائٹ کا یہ کامبینیشن دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے دماغ کو اپنی سحر میں مبتلا کر دیتا۔

بندہ ناچیز ایسے پرنور اور دل افروز منظر کو زیادہ دیر دیکھ بھی نہیں سکتا کہ آنکھیں قدرت کی تخلیق پہ حیرت سے خودی بند ہو جاتی ہے اور زیر لب مصور اعظم کے قرآنی آیات ”لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویمٍ“ کا ورد کرتی سنائی دیتی ہیں۔

بات عبایہ کی ہو رہی تھی، تم یعنی آپ نقاب کرتے ماتھے کو چھپانے کے لئے اکثر حجاب نیٹ اننر کیپ بھی بندھا کرتی تھی؛ یہ عموماً ترچھی یعنی فوجیوں کی ٹوپی کی طرح ماتھے کے درمیان سے ایک آئی برو کی جانب جھکا ہوتا۔ تمہیں دیکھ کر مجھے فلموں میں دیکھی برطانوی شاہزادیاں اور ناولوں میں پڑھی پرستان کی خوبصورت پریاں بھول جاتی۔

اے حسن و حیا کی پیکر! تمہارا یعنی آپ کا ہر انداز دل پہ گراں گزرتا ہے، آپ کا راہ پہ چلتے دھیمے مگر وزنی قدم رکھنا، نگاہیں زمیں پہ ہونا، آس پاس کے ہجوم و شورش سے ناواقف اپنے من مست راستے کو چلنا۔ آہا اا اا کمال است

تمہاری یعنی آپ کی یہ ادائیں جب نظر سے اوجھل ہوتی تو ہمارے دل و جاں میں قیامت صغریٰ وارد ہو جاتی۔

بے شک خدائے حسن و جمال کی عظمتوں کی شان اس کے پیارے بندوں میں دیکھ کے ہم اس کے حمد بیان کرتے ؛ اکبراللہ، سبحان تیری قدرت

عزیز من! تم یعنی آپ کی کم گوئی اور گوشہ نشینی کی بابت ہمیں معلوم ہے، تمہاری یعنی آپ کی اپنی سہیلیوں سے بھی میل جول کم رہتا ہے، لیکن آپ جب اپنی ہم زلفوں کے پاس آتی ہو تو ان میں کچھ رشک اور چند حسد کی ماری لڑکیوں کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے، بقول غالب

ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا
گل کو شکست رنگ کا پیغام آ گیا

عزیز من! آپ کی آمد کاسمیٹک گرلز کے لئے الرجی کا باعث ہوتا ہے۔ دودھ و کافور، ہنس اور بادلوں کی طرح سفید و شفاف تمہارے یعنی آپ کے ہاتھ اور پاؤں دیکھ کے میک اپ والوں کے رنگ اڑ جاتے ہیں۔

ہم جو ٹکٹکی باندھے یہ منظر دیکھتے ہیں تو ہماری محبت کے احساسات بلند پہاڑوں کی چوٹیوں سے چھے گز اونچے ہو جاتے ہیں ؛

سینے کے سمندر جیسی گہرائیوں سے تیرے پیار کی لہریں کوبکو اٹھتی ہیں اور حد نگاہ تک تمہارے یعنی آپ کے ساتھ وہ لہریں کروٹیں بدلتی ہیں۔

دل کے یہی خیال ہمیں فقیری میں شاہوں کی مسند پہ بٹھائے دنیا میں آمد کا مقصد بتلاتی ہیں۔ ہم زمیں پہ بیٹھے ہواؤں کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اور ہم آپ کے ہاتھوں میں ہاتھ ملائے حسیں دنیا کا نظارہ کرتے ہیں۔

عزیز من! کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ رفتہ رفتہ ہماری زندگی کا اہم جزو بن بیٹھے؟
اے میرے خوابوں کی پری!

آپ کی محبت ہماری دل و جاں میں رس بس گئی ہے۔ رات دن، سفر و حزر، صوم و صلوٰۃ غرض ہر دم تمہیں سوچتے اور یاد کرتے ہیں۔

اے مجھ سے بے خبر! گر کوئی ہمارے جسم سے ایک بازو کاٹ لیں تو ہم رب کے دیے ہوئے دوسرے بازو سے اپنا کام کاج کر لیں گے، مگر ہماری زندگی آپ کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہے، اگر آپ نہ رہی تو ہمارا سالم جسم ناکام عاشق کی مانند بے کار رہے گا۔

جان من! آ جاؤ کہ ہمارے جیون کو جلا ملے، ہم بھی کبھی زیر لب مسکرائے اور تیرے پہلو میں سر رکھ کر چار پل زندگی جئیں۔

ہماری خوابوں کی نگری تم یعنی آپ سے آباد ہے، ہم کبھی ہم آپ کے ہمراہ پہاڑوں میں پگڈنڈیوں پہ چہل قدمی کرتے ہیں تو کبھی لانگ ڈرائیو پہ نکل کر نئے جگہیں تلاشتے ہیں، کبھی دونوں ہمسر بیٹھ کے کتابیں پڑھتے ہیں تو کبھی چھت پہ بیٹھے آسماں کے تارے گنتے ہیں۔

جان من! سنا ہے کہ تمہاری یعنی آپ کی گائیکی بھی کمال ہے، تو کیا مجھے اپنی میٹھے بول کی گھٹی پلاؤ گی؟

اگر ایسا ہے تو میں تکیہ رکھے ساری رات تمہیں سنتا رہوں۔

اے میری جاں! قلم کتاب سے ہم دونوں کا رشتہ ہے، لکھنا، پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں، ہم مل کے اپنے پروفیشن میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

آؤ کہ ایک اور ایک مل کے گیارہ بن جائیں اور زیست کے رہتے دنوں کو کسی بڑے اور نیک مقصد تلے گزار دیں۔ آؤ کہ مل کے انسانوں کی خدمت کر لیں، آؤ ملک و ملت کے اندھیر نگری میں نئی صبح نئی شام پیدا کریں۔

جان من! تمہاری یعنی آپ کی قربت میں ہم بہت آگے گئے، کہ اب مڑنے کا کوئی راستہ نہیں، ہم نے اس راہ وفا میں ساری کشتیاں جلا دی ہیں، بقول شاعر

ہم نہ باز آئیں گے تیری محبت سے
جان جائے گی اور کیا ہو گا

آپ کو پتہ ہے؟ حضرت شیخ و پیر کے بتلائے مقبولیت کے اوقات ہم نے رب سے تجھے مانگنے کے لئے مختص کر دیے، ہم دعا و التجا کرتے ہیں کہ

اے مولائے عشق و جنوں!
”ان اللہ علٰی کل شیۡءٍ قدیۡر“
ہم فقیر ٹھہرے بندوں کی تشنہ لبی کو مے محبوب سے تر کر،
الہیٰ تو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، تو میرے جگر کے غم کو دیکھ،
اے خالق عرض و سماع! ہمارے معشوق کے دل کو عاشق کی محبت سے منور فرما۔
مولا! ہمارے دل کے ارمان پورے فرما کہ ہم سربسجود ہو کے تیرا شکر بجا لائیں۔
انتظار کن، منتظر آباد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments