کھوار کا محسن ناجی خان ناجی


کھوار زبان و ادب کے محسن، لغت نویس، نامور ادیب، شاعر اور نثر نگار ناجی خان ناجی گزشتہ دنوں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انا للٰہ وانا الیہ راجعون۔

آپ اپر چترال تحصیل تو رکھو کے ایک دور افتادہ گاؤں ݰوت خار میں 12 اکتوبر 1942 ء کو آنکھ کھولی۔ دورافتادہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم گاؤں میں پیدا ہونے کے باوجود ناجی خان ناجی نے جہد مسلسل، لگن اور معیار کو اپنا شعار بنا کر زندگی کے دوڑ میں آگے ہی بڑھتے رہے، چاہے وہ ملازمت ہو یا کہ تعلیم، ادب۔ انہوں نے حالات کا رونا رونے کے بجائے دستیاب وسائل اور وقت کو صحیح مصرف میں لاکر اپنے آپ کو ایک بہترین ادیب، لکھاری کے ساتھ ساتھ زبان کی خدمت کرنے والوں میں اپنا نام بحیثیت اولین لغت نویس کھوار زبان کی تاریخ میں امر ہو گئے۔

یہ دو ہزار اٹھ سے پہلے کی بات ہے مجھے کسی نے بتایا کہ ناجی استاد کھوار لغت پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت میں کھوار کہانیوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا اور ساتھ ہی کھوار املا لکھوا کر کھوار میں لکھائی کے معیار کو یکساں بنانے کے لیے چترال کے مختلف ادیبوں کے ساتھ گفت و شنید کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس دوران جب یہ معلوم ہوا کہ چترال کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک استاد لغت نویسی جیسے مشکل کام پہ لگا ہوا ہے تو میں چونک گیا اور دل نے چاہا کہ کیوں نہ ناجی استاد سے مل کر اس کے کام کے بارے میں جانا جائے۔

میرے لیے دلچسپی کی بات یہ بھی تھی اس زمانے میں، میں بھی لغت نویسی سے دلچسپی رکھتا تھا اور لغت ترتیب دینے کے متعلق ماہر اساتذہ سے تربیت بھی حاصل کر چکا تھا۔ مجھے اندازہ تھا لغت ایک زبان کے لیے کتنی ضروری ہے اور اس سے بڑھ کر یہ ایک مشکل کام بھی ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات بھی راسخ ہو چکی تھا کہ کمپیوٹر جانے بغیر لغت نویسی کا کام ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

میں اپنے ذہن میں بہت سارے سوالات لے کر کچھ عرصے بعد 8 اگست 2008 کو اپنے کزن ڈاکٹر اسد کو لے کر ناجی خان ناجی صاحب سے مل کر اس کے لغت نویسی کے کام کو جاننے اس کے دولت کدے پہنچ گیا۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ناجی استاد گھر پر ہی موجود تھے۔ اس سے پہلے ناجی صاحب سے ایک شاعر اور لکھاری کے طور پر ہماری شناسائی تھی۔ خاص کر کے ”تورکھویچی وار“ استاد صاحب کے آرٹیکل کا عنوان ہوتا تھا۔ اسے ہم بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ لیکن کبھی ناجی صاحب سے بالمشافہ ملاقات کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔

پہنچتے ہی بے تکلف گپ شپ شروع ہو گئی، موسم سے لے کر کھیتی باڑی تک لیکن ناجی صاحب نے ہم سے آنے کا مقصد نہیں پوچھا۔ ادبی مصروفیتوں کے بارے میں گفتگو ہوئی پھر میں نے کھوار لغت کے بارے میں پوچھا۔ تو ناجی صاحب شروع میں سوچ میں پڑھ گئے کہ کون اجنبی کھوار لغت کے بارے میں پوچھ رہا ہے کیونکہ گاؤں کے کچھ تعلیم یافتہ لوگ ناجی صاحب کی اس مصروفیت کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ جب میں نے ناجی صاحب کو بتایا کہ میں بونی سے آیا ہی اس لیے ہوں کہ میں جان جاؤں کہ کھوار لغت پہ آپ کیا کام کر رہے ہیں تو ناجی صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ اس وقت لغت کا کام مکمل ہوکے پریس میں تھا۔ اس وقت ناجی صاحب کے لغت نویسی کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔

ناجی خان ناجی صاحب کا بچپن گاؤں شوتخار ہی میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم مڈل سکول شاگرام سے حاصل کی۔ مڈل کے بعد گاؤں میں مزید تعلیم کی سہولت میسر نہیں تھی۔ اس لیے تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہونے کے باوجود ریگولر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ یہاں پر منقطع ہوا، باقی تعلیم پرائیویٹ طور پر حاصل کی۔ 1959ءمیں محکمہ تعلیم چترال میں مدرس کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔ ادب سے دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب آپ شاگرام کے مڈل سکول میں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔

اس کی وجہ ناجی صاحب کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ݰاگرام کے سکول میں ایک استاد غلام محی الدین اردو کی کتاب میں جو نظم اور اشعار آتے انہیں اپنے مخصوص انداز میں ترنم سے پڑھتے اور اچھی طرح اس کی تشریح کرتے، استاد کا یہ انداز مجھے بہت مزہ دیتا، یہیں سے اپنے استاد کی دیکھا دیکھی شاعری کا شوق پیدا ہوا اور کھوار میں شاعری شروع کی، اور مقامی سطح کے مشاعروں میں شرکت کرنے لگا۔

ناجی خان ناجی صاحب کی ادبی زندگی کا ایک یادگار دن اس وقت آیا جب 1962ء میں ناجی صاحب کسی کام کے سلسلے میں چترال ٹاؤں آئے ہوئے تھے، 24 دسمبر کا دن تھا چترال بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک اشتہار پر نظر پڑی، دیکھا تو 25 دسمبر، ”قائداعظم ؒ“ کے جنم دن کی مناسبت سے مشاعرے کا اشتہار تھا۔ ناجی صاحب نے اس موقع کو غنیمت جانا، جاکر قائداعظم ؒ کی خدمات کے اعتراف میں نظم قلم بند کی، اور صبح پروگرام کے مقررہ وقت سے کچھ دیر سے مشاعرے کے مقام ٹاؤن ہال پہنچے۔

ہال میں لوگ جمع تھے اور مشاعرہ شروع ہو چکا تھا۔ سٹیج سیکرٹری کسی کام سے باہر آیا تو ناجی صاحب نے اس کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا۔ نام پوچھ کر خوشی کے ساتھ ناجی صاحب کو اپنے ساتھ ہال کے اندر لے جاکر نشست پر بٹھایا۔ کیونکہ اسے پہلے ناجی صاحب کی رسالہ ”جمہور اسلام کھوار“ میں لکھنے کی وجہ سے لوگ قلمی طور پران کو پہچانتے تھے۔ پروگرام میں سب سے آخر میں شعر کہنے کی باری آئی۔ ناجی صاحب کے خود کے کہنے کے مطابق ”وہ تھوڑا بہت گھبرایا ہوا بھی تھا“ کیونکہ اسی طرح کے بڑے پروگرام میں یہ ناجی صاحب کی پہلی شرکت تھی۔

لیکن جب شعر پڑھنا شروع کیا تو سامعین کی داد کی وجہ سے ناجی صاحب کو خوشی نصیب ہوئی۔ یہ مشاعرہ انجمن ترقی کھوار کے حلقے میں ناجی صاحب کے تعارف کا نقطہ ٔ آغاز تھا اور یوں ناجی صاحب انجمن ترقی کھوار کے اولین قافلے میں ایک متحرک کردار کے طور پر وابستہ ہو گئے۔ اور انجمن کے ساتھ یہ وابستگی تا دم مرگ قائم رہی۔

استاد کی ادب سے محبت اور شوق کا یہ عالم تھا کہ چترال شہر مشاعرے میں شرکت کے لیے ہفتہ دو ہفتہ پہلے دعوت نامہ بھیج دیا جاتا۔ آپ خط پاکر خوشی کا اظہار کرتے اور مقررہ وقت سے دو دن پہلے مشاعرے میں شرکت کے لیے گھر سے نکلتے کیونکہ اس وقت علاقے میں ٹرانسپورٹ کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح دو دن پیدل مسافت طے کر کے چترال شہر پہنچ جاتے۔ یہ اس وقت کے حساب سے کوئی عام بات نہیں تھی۔ اس طرح آپ اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں بھی اپنی توقیر بڑھاتے گئے اور ادب میں بھی مقام پایا۔

ناجی استاد شاعری کے ساتھ نثر بھی لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ علاقائی اور ملکی سطح کے اخباروں پر ناجی صاحب کی مضامین بہت شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ ناجی صاحب جمہور اسلام کھوار، ہفتہ روزہ چترال اور کھوار نامہ کے لیے باقاعدہ گی سے لکھتے رہے ہیں، اور وقتاً فوقتاً اردو ڈائجسٹ میں ناجی صاحب کے مضامیں مختلف عنوانات کے تحت شائع ہوتے رہے ہیں۔

آپ نے کھوار ادب کی خدمت کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کی۔ آپ علم اور تجربے میں بڑا ہونے کے ساتھ دل کے بھی بڑے ہیں اور آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ کھوار زبان ادب سے محبت کے ساتھ ساتھ کھوار ادب سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں، جب ہم کچھ دوستوں نے مل کر چترال میں 2010 ءمیں ایک ادبی تنظیم ”میئرچترال“ کی بنیاد رکھی اور کھوار نثری ادب کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی سی کوشش کے طور پر نثری رسالہ ”کھوار نامہ“ کا اجرا کیا (جس کے ابھی تک 14 شمارے شائع ہوچکے ہیں ) ۔

تو ناجی صاحب نے ہماری اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہمیں خط لکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ہماری رہنمائی فرمائی اور اپنی قلمی تعاون سے ہماری مدد کی، نہ صرف کھوار نامہ کے لیے مضامین لکھ کر ہماری ہمت بندھائی بلکہ ہماری حوصلہ افزائی کے لیے اخبارات میں مضامین لکھ کر ہماری کوششوں کو سراہا اس طرح ہمیں کھوار کے لیے کچھ کرنے کے کی ترغیب دلوائی۔ جو ہمارے لیے ایک غیر معمولی بات تھی۔ اس سے ہمیں اخلاقی مدد اور حوصلہ ملا۔ یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی ذات سے زیادہ ایک مشن اور مقصد کو اہمیت دیتا ہو۔

ناجی صاحب کی کھوار ادب کے لیے ایک عظیم خدمت یہ ہے کہ ”انجمن ترقی کھوار“ کو تحصیل تو رکھو میں فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور انجمن ترقی کھوار حلقہ تو رکھو کے بانی صدر رہے۔ اپنی صدارت کے دوران کئی مشاعرے اور کانفرنس منعقد کرائیں۔ انجمن ترقی کھوار کے ان پروگراموں میں نوجوانوں کو حصہ لینے کا موقع ملا اور یوں ان کو اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے کچھ سیکھ کر آگے بڑھنے کے مواقع میسر آئے۔ اس طرح ناجی صاحب نے علاقے میں ادب کو پروان چڑھانے اور نوجوانوں کی اجتماعی تربیت میں اپنا کردار ادا کیا۔

ناجی استاد محکمہ تعلیم میں مختلف جگوں پر خدمت انجام دینے کے 34سال بعد 1993ء میں ریٹائر ہوئے۔ ناجی صاحب ملازمت سے پنشن لینے کے بعد اپنا پورا وقت زبان و ادب کی ترقی کے لیے وقف کیا ناجی خان ناجی صاحب کا شعری مجموغہ ”تروق زوالو“ 2001 میں شائع ہوا۔ کھو شاعروں اور ادیبوں نے اس مجموعے کو خوب پذیرائی بخشی۔ اس کے بعد استاد کی توجہ کھوار لغت پر مرکوز ہو گئی اور یوں دن رات کی محنت سے کھوار کی پہلی کھوار اردو لغت 2008 ءمیں شائع ہو کر مارکیٹ میں آ گئی۔

یوں ناجی خان ناجی صاحب ادب کے ساتھ ساتھ زبان کی ترقی کے لیے بھی ایک قابل قدرخدمات سرانجام دی۔ کسی بھی زبان میں لغت نویسی ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ یہ کام سہولیات سے محروم دیہات میں رہنے والے ایک ادیب کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ اس کام کو سرانجام دینے کے لیے لسانی مہارت کے ساتھ بہت سارے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ناجی صاحب نے اپنی شوق، ہمت اور جہدمسلسل سے اس مشکل کام کو بھی ممکن بنایا۔ یہ کھوار کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔

ناجی خان صاحب کی ادب دوستی یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ ناجی خان صاحب کے مطبوعہ کتابوں کے ساتھ کئی ایک غیر مطبوعہ نسخے بھی موجود ہیں، جن میں آپ کی لکھی ہوئی سونح عمری ”پگڈنڈیوں سے شاہراہ تک کا سفر“ جو اردو میں ہے، شاعری کا مجموعہ، ”پراݱغار“ ”کھوار مشقولگی“ کھوار اور اردو میں لکھے ہوئے مختلف مضامین کا مجموعہ ”کلیات ناجی“ شامل ہیں۔

ناجی خان ناجی صاحب جو خدمات کھوار ادب اور زبان کی ترقی کے لیے انجام دیا ہے یہ کام تو حکومتوں اور اداروں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ اگر حکومتی ادارہ خود سے نہیں کرتے ہیں تو ضرور ایسے لوگوں کی مالی اور تکنیکی مدد کرتے ہیں جو اپنی مدد سے یہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے تمام حکومتوں کا کردار مقامی ادیبوں اور لکھاریوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں جیسی رہی ہے۔ لیکن آفرین ہے ان مقامی لکھاریوں اور ادیبوں کا ، وہ ان حکومتی رویوں سے کبھی مایوس نہیں ہوئے اور بغیر پیسے کی لالچ اور ذاتی شہرت کے اپنے حصہ کا کام کیے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ناجی خان ناجی کی تھی۔ اللہ تعالی ناجی صاحب صاحب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے۔ کھوار ادب ناجی جیسے نابغہ روزگار شخصیت پر ہمیشہ نازاں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments