ابھی نوشتۂ دیوار کون دیکھے گا؟


پندرہ، سولہ برس ہی گزرے ہوں گے کہ جب 12 مئی کو شہر کراچی میں سو سے زائد افراد کو المناک انداز میں بربریت، ظلم اور درندگی کا نشانہ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور سینکڑوں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں اور متعدد عمارتوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ جب کہ برسوں بعد 12 مئی 2023 کو عدالت عالیہ اسلام آباد نے متعدد مقدمات میں نامزد ملزم، ایک سیاسی جماعت کے قائد، عدل و انصاف کے حوالے سے خلیفۂ ثانی کے معتقد اور ریاست مدینہ کے دعویدار عمران نیازی کو عدالتوں میں زیر سماعت متعدد قابل گرفت اور دہشت گردی، شر انگیزی اور تخریب کاری سمیت متعدد مقدمات میں بھی خیر سگالی کے طور پر ضمانتیں قبل از گرفتاری منظور کر لیں اور یہی نہیں بلکہ عدالتی احکامات کے ذریعے عمران نیازی کو گرفتار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

اہل کوفہ کی ہے انفرادیت! واللہ
خیر کے نام پر شر بانٹنا، سبحان اللہ
ظفر معین بلے جعفری

آئین میں ایک معمولی سی ترمیم کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست مدینہ کی دعویدار جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران نیازی کو کسی بدعنوانی، چوری، بد انتظامی، بد دیانتی، دروغ گوئی، عہد شکنی، ملک دشمنی، الزام تراشی، سرکاری املاک اور تنصیبات کو نذر آتش کرنے یا نقصان پہنچانے، بہتان تراشی اور ملک دشمنی کے مقدمے میں نامزد نہیں کیا جاسکتا اور اگر کسی کی نا اہلی کے باعث ایسا ہوجاتا ہے تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اعلی ترین سطح پر معذرت کی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ اس ترمیم کی بھی گنجائش موجود ہے کہ عمران نیازی کو تمام تر قوانین سے بالا تر قرار اور تسلیم کیا جائے اور اگر کبھی انہیں کسی عدالت کا بھی وزٹ کرنا پڑ جائے تو کسی مہنگی اور اسٹینڈرڈ کی سواری میں انہیں وی آئی پی گیٹ سے اندر لایا جائے اور تو اور ہونا تو یہ چاہیے کہ صرف انہی کو نہیں بلکہ ان کے پیروکاران میں سے بھی ہر کسی کو یہی مراعات حاصل ہوں۔ پبلک ڈیمانڈ تو یہ بھی ہے کہ انہیں بنا اجازت کسی بھی مقام پر جلسۂ عام سے خطاب کرنے کا بھی اختیار ہونا چاہیے۔ سب سے آسان طریقہ تو یہ بھی ہے کہ ترمیم میں یہ وضاحت بھی شامل ہو کہ ان کی کسی بھی مقدمے میں گرفتاری کو ممنوعہ قرار دیا جائے۔

حالیہ چند دنوں میں کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ اور حکومت سندھ کی نئی پیپلز بس سروس کی بھی برانڈ نیو بسیں نذر آتش کرنے کا اعزاز بھی ریاست مدینہ کی دعویدار جماعت کے متقین و معتقدین کو حاصل ہوا۔

کل عدالت سجائیں گے بچے
محتسب آج کس گمان میں ہے
منصورہ احمد

عالمی سطح پر پاکستان اور پاکستانی عدلیہ خود مختاری، خودداری اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے حوالے سے نمبر ون پر آ گئی۔ اور اب تو یہ حقیقت بھی آشکار ہو جانی چاہیے کہ فی الحال تو جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ نے خود کو برتر و اعلی بلکہ طاقتور ترین تسلیم کروا لیا ہے

وہ متقین میں اپنا شمار کرتے ہیں
منافقین میں اعلی مقام ہے، جن کا
ظفر معین بلے جعفری

عالمی سطح پر پاکستان اور پاکستانی عدلیہ خود مختاری، خودداری اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے حوالے سے نمبر ون پر آ گئی۔ اور اب تو یہ حقیقت بھی آشکار ہو جانی چاہیے کہ فی الحال تو جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ نے خود کو برتر و اعلی بلکہ طاقتور ترین تسلیم کروا لیا ہے۔ ہمارے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو اب تو ببانگ دہل عدالتی قتل کہا جاتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد متعدد کتابیں بھی لکھی گئیں اور نظم و نثر کے ذریعے ان کے عدالتی قتل کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا۔ ایک کتاب خوشبو کی شہادت بھی مرتب ہوئی تھی کہ جس میں ممتاز اور معروف شعرائے کرام کا کلام یکجا کیا گیا تھا۔ اب یہ تو ٹھیک سے یاد نہیں کہ کس کا لیکن ایک بہت ہی اعلی و عمدہ نوحہ (غالبا، شہرت بخاری) کا تھا لیکن اس نوحے کے بہت سے اشعار آج بھی یاد ہیں لیکن اس نوحے کے آخر میں ایک شعر یہ بھی تھا

انصاف یہاں قید میں ہے، ظلم رہا ہے
بابا تیرے نعروں پہ بھی کوڑوں کی سزا ہے

ممتاز، سینئر اور دلعزیز شاعر، ادیب، تجزیہ کار، مقرر، ڈرامہ نویس، پندرہ سے زائد کتب کے مصنف، استاذالاساتذہ اور کالم نگار جناب عطاءالحق قاسمی کے مشہور زمانہ شعر کو میں نے بطور خاص اپنی اس تحریر میں شامل کیا ہے۔

ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے

حالیہ تخریبی، شر پسندانہ اور ملک دشمن سرگرمیوں کے بعد پنکی پیرنی کے کالے جادو اور ٹونے ٹوٹکوں کے اثرات مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے البتہ کافی حد تک کم ضرور ہوئے ہیں۔ شرپسند عناصر کی تخریبی سرگرمیاں یوں تو ملک بھر میں دیکھی گئی ہیں لیکن کراچی، لاہور، پشاور، فیصل آباد، راولپنڈی کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں اور کے پی کے، کے متعدد علاقوں میں شدت پسندانہ انداز بھی نظر آیا۔ ریاست مدینہ کی داعی جماعت اور اس کے قائدین نے ان ملک دشمن سرگرمیوں میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ ڈالا۔

انسانیت سوز بربریت کے بعد ان ہونی بھی تو ہو کر ہی رہنی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ، اسٹیبلشمنٹ کا شور کرنے والوں پر یہ انکشاف بھی ہو گیا کہ جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ بھی کم طاقتور نہیں ہے۔ ابھی اس واقعے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب ممتاز اور ہر دلعزیز ماہر قانون اور سیاسی ایکٹیوسٹ جناب علی احمد کرد نے آئرن لیڈی محترمہ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کے آغاز ہی میں سوال اٹھا دیا تھا کہ کون سی جوڈیشری؟ اس جملے سے اپنے خطاب کا آغاز کرنے کے بعد وہاں موجود تمام منصفین تو نہیں البتہ جسٹس گلزار سمیت متعدد منصفین کے چہروں کو بے نقاب کر دیا۔ جسٹس گلزار سمیت چند، مسند انصاف پر براجمان کے چہروں کی اسی ہوئی رنگت اور چہرے کے تاثرات آج بھی یوٹیوب کا وزٹ کر کے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے محاسبہ کرنے کی حکمت عملی کے بعد موجودہ اور آئندہ سیاسی صورت حال واضح ہو رہی ہے۔ مستقبل کی سیاسی منظر نامہ صاف دکھائی دے رہا ہے اور مستقبل کے حکمرانوں میں قومی اور صوبائی سطح پر تو کجا ضلعی سطح پر بھی عمران نیازی المعروف کشکول خان کہیں نظر نہیں آرہے۔ بطور یا بحیثیت سلیبرٹی قدرت اور حالات نے جس کو حادثاتی طور پر حکمرانی عطا کی تھی ایسا سانحہ دوبارہ تو ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی
جمال احسانی

ماہر حوریات اور ایم۔ ٹی۔ جے برانڈ سے پہچانے جانے والے اور مبینہ طور پر ایک کروڑ روپے ماہانہ بحیثیت اداکار وصول کرنے والے مولانا طارق جمیل کہ جنہوں نے بھری محفل میں فتوی صادر فرمایا تھا کہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام بددیانت، جھوٹے، منافق، چور اور بے ضمیر ہیں بس ایک شخص سچا اور صادق اور دیانت دار ہے اور وہ ہے عمران۔ مفتی طارق جمیل جذبات میں آ کر اور بھی بہت کچھ کہہ ڈالا تھا اور اگلے ہی جناب مالک صاحب اور حامد میر صاحب نے انہیں لائیو پروگرام میں لائن پر لیا اور انہیں معافی مانگنے پر مجبور کر دیا۔

اس کے کافی عرصہ بعد معروف صحافی اسد طور نے مولانا طارق جمیل اینڈ کو کی لوٹ کھسوٹ اور مالی بے ضابطگیوں اور زمینوں پر ناجائز قبضے کے حوالے سے بہت سے وی لاگز بھی کر ڈالے اور اس کے بعد سے تو مولانا جیسے روپوش ہی ہو گئے ہوں۔ مولانا جیسے اور بھی بہت سے محبان وطن ہیں اور دین کے خدمت گار ہیں کہ جو کبھی ظلم، بربریت، نا انصافی، ملک دشمنی کے واقعات اور اخلاقی اور انسانی جرائم کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے۔ مولانا نے کبھی نہیں کہا کہ عمران نے ملک کے عوام سے ووٹ لینے سے قبل جتنے بھی وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی وعدہ تو کجا کسی ایک وعدے کا دس فیصد بھی پورا نہیں کیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عدلیہ نے متحرک اور چارج بلکہ اوور چارج ہونے کا جس انداز میں اظہار کیا ہے اس کی مثال شاید دنیا بھر کی عدلیہ کی تاریخ میں ملنا تو دشوار ہے۔ ہر عمل کا ردعمل بھی تو لازمی ہوتا ہے لہذا قانون نے اپنا راستہ اپنا لیا ہے اور یہ فیصلہ کن اقدام ثابت ہو گا۔ ممتاز اسکالر، صحافی، سو سے زائد کتابوں کے مصنف و مولف، تجزیہ کار اور قادر الکلام شاعر سید فخرالدین بلے کے اس شعر پر یہ مختصر سی تحریر اختتام پذیر ہوتی ہے۔

دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتۂ دیوار کون دیکھے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments