ٹکر کے لوگ: ان کو بار بار کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟


یہ کون سی نسل ہے جو خود کو ٹکر کے لوگ کہتے ہیں؟ ان کی تاریخ کیا ہے؟ ان کو بار بار کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ کیوں ان کو خوف زدہ کیا جا رہا ہے یا ان سے خوف کھایا جا رہا ہے؟

کیا کسی کا نظریہ اس کی گرفتاری کی وجہ بن سکتا ہے؟ کیا کسی کی سوچ اسے اپنے پیاروں سے دور کرنے کے لیے کافی ہے؟ کون سا قانون چادر اور چاردیواری کے تقدس کو صرف نظریہ تبدیل ہونے پر پامال کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ ایسے بے شمار سوال ہمارے ذہنوں میں روز گردش کرتے ہیں کیوں کسی کے پاس ان تمام باتوں کا جواب نہیں۔

جہاں انسانی نظریے اور زندگی کی کوئی حیثیت نہ ہو وہ ملک ہے میرا پاکستان۔ کتنا بڑا دہشتگرد تھا عمران ریاض خان جس کے گھر والوں کو بھی معلوم نہیں کہ دو دن سے وہ کہاں پر ہے۔ کون سے ایسے دہشت گرد گروہ کا سرغنہ ہیں یہ صحافی جن کو ان کے اداروں یا ان کے گھروں سے نکال کر حوالہ پولیس یا راتوں رات کہیں بھی پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان کی دہشت گردی وہ قلم ہے یا وہ زبان جو لوگ سنتے ہیں۔ آج عوام خود مختار اور با شعور ہے جو بات سمجھ نہیں آتی وہ چینل بدل دیتے ہیں کیوں سنتے ہیں ایسے لوگوں کو جو شر پھیلاتے ہیں کیونکہ عوام صحیح اور غلط کے درمیان کب فرق سمجھ چکی ہے آج سوشل میڈیا نے ہر کردار اور اس کا عمل کھول کر رکھ دیا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بند کر کے جتنا پاکستان میں خسارہ اٹھایا ہے صرف چند لوگوں کی خوشی کی خاطر لاکھوں کا نقصان کا ذمہ دار کون؟

تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک ہی زخم پر بار بار گھاؤ لگے تو وہ ناسور بن جاتا ہے اور یہ ناسور نہ خود صحیح ہوتا ہے اور نہ اس وجود کو پھلنے پھولنے دیتا ہے جس میں وہ اپنے پیر جمائے ہوتا ہے۔ اس ناسور کا علاج جڑ سے اس حصے کو نکال کر پھینکنا ہی ہوتا ہے۔

ہمارے ملک پاکستان میں بھی ایسے بہت سے ناسور پل رہے تھے جن کا جڑ سے خاتمہ ہونا اب لازم قرار پایا تھا۔ اس سلسلے میں چند اہم لوگ سامنے آئے جنہوں نے دنیا اور پاکستانی معاشرے کو نہ صرف یہ بتایا کہ پاکستان میں کیا چل رہا ہے۔ اور آج تک کیا ہوتا آیا ہے۔ بلکہ ایک ایک کر کے ثبوتوں سمیت ان تمام لوگوں کو بے نقاب کیا جن کے ہاتھوں میں پاکستان کا مستقبل تھا۔ ارشد شریف بھی اسی لسٹ میں سے ایک گناہ گار تھا جس کا گناہ ان گناہگاروں کو ثبوتوں سمیت بے نقاب کرنا تھا جنہوں نے پاکستان کی جڑوں میں کرپشن کی کاشت کر رکھی تھی نامعلوم وہ پاکستان کا محسن تھا یا مجرم جس سے پہلے پاکستان سے نکالا گیا اور پھر مختلف ملکوں سے اپنی جان بچاتے ہوئے آخر کار اس کی لاش پاکستان پہنچ گئی۔ پاکستان میں کون سے ایسے لوگ ہیں جو اتنے طاقتور ہیں جنہیں اپنا آپ چھپانے کے لیے انسانی زندگی معمولی لگتی ہے۔

پاکستانی تاریخ اس معاملے میں بڑی زرخیز ہے کہ جو کوئی حکومت کے بارے میں تھوڑا بہت بولے ہے اسے اٹھا لو آج بہت سے اہم صحافی اور مختلف اداروں کے ذمہ دار لوگ رات کی تاریخی میں چپکے سے گھروں سے اٹھا لیے جاتے ہیں اور پھر ان کو کہاں غائب کیا جاتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ مگر اب ایسا ہر گز نہیں چلے گا

ایوانوں سے لے کر وزارتوں تک یہ خبر پہنچا دو کہ یہ جانیں اتنی سستی نہیں جائے گی۔ اس سے جڑا ہے پاکستان کا مستقبل بے نظیر قتل کیس ورثہ خاموش، قاتل نامعلوم، تاریخ گواہ ہے کہ ایسے بہت سے کھیل پہلے بھی کھیلے گئے ہیں۔

ورثہ کرسی اور حکومت کی وجہ سے خاموش

پہلے قائد اعظم کی گاڑی میں پٹرول ختم ہوا، پھر لیاقت علی خان کو گولی مروائی گئی، پھر فاطمہ جناح کی غسال کو غائب کروایا گیا، پھر بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، بھٹو کے بعد بھٹو کی بیٹی کو قتل کروایا گیا۔

ہماری تاریخ سیاسی سازشوں سے بھری پڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے قتل کی سازش کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ ہمارے ملک میں قتل کی سازش تو ہمیشہ سیاستدان کی ہی ہوتی ہے۔

اللہ پاک عمران خان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے یہ 22 کروڑ کی آبادی عمران خان پر جان نچھاور کرتی ہے۔ عمران خان کے لائے گئے انقلاب کی وراثت 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے اور یہ بڑی سرپھری قوم ہے جو عمران خان کی وارث ہے۔ ٹریلر عمران خان کی گرفتاری سے مل گئے ہوں گے۔ ٹیڈی پیسے سے ٹینک بنانے تک کا وہ سفر اس قوم کی ماؤں بہنوں نے اپنے زیورات دے کر اس ملک کے سپاہیوں کو اس وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہتھیار خریدے۔ یہ ایسی سرپھری قوم ہے۔ تو سن لے ایک ایک اختلاف رکھنے والا عمران خان اکیلا نہیں یہ پوری قوم اس کی وارث ہے اور ایسے لواحقین اور جاں نثار تو بادشاہوں کو بھی نہیں حاصل کیونکہ عمران خان عوام کی سوچ کی عکاسی کا دور ہے اور اس دور کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ یہ عوام کی اکثریت کا فیصلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments