ریلوے اسٹیشن پر تین مناظر؟ (دوسری قسط)


ایمرجنسی میں پہنچنے والے مسافروں کے لئے فطری ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ’قلی‘ بلا خوف قانون بھتہ ( محنت سے زیادہ صلہ) وصول کر کے، سیٹ بکنگ کا بھی انتظام کر دیتے تھے۔ ان کا دھندا، مصنوعی ذہانت کے حامل جدید کمپیوٹروں کی بدولت ماند پڑ گیا ہے۔ گزشتہ ’ن‘ لیگی ریلوے منسٹر ’خواجہ سعد رفیق‘ نے آن لائن بکنگ متعارف کروا کر امراء کو ریلوے مسافر بننے کی ترغیب تو دی ہے، لیکن بے سود۔ ہما شما ہی ریلوے کے ’کام آتے‘ ہیں جو بنفس نفیس بکنگ آفس تشریف لا کر پیشگی بکنگ کرواتے ہیں یا وہ ’بھولے‘ مسافر جو اوپن ٹکٹ پر سفر کرتے ہیں۔ قلی اب، نیم بے روزگار سے، یہاں وہاں آسمان والے کی طرف منہ کرے بیٹھے ہوتے ہیں۔

ماضی میں قطار نہ بنانے کے حامی ’جری‘ لوگ ٹکٹ گھرکی کھڑکی تک پہنچنے کے لئے لوگوں کو پھلانگتے، الجھتے ہمارے قومی چلن کو واضح کرتے ہوئے اس خطے کی پہچان ہوتے تھے۔ دھونس اور دھکا شاہی کے یہ پیرو کار آخر کار قانون پسند اقلیت کا منہ چڑاتے ٹکٹ حاصل کر کے یہ جا وہ جا۔ اب جدید الیکٹرانک کمپیوٹرز کی وجہ سے ہم اپنی یہ ثقافت بھی کھو رہے ہیں۔

عمارت کی مرمت کی جا رہی ہے۔ انگریزوں کی پائیدار باقیات کو ’بسم اللہ‘ پڑھ کر لوکل تنصیبات سے بدلا جا رہا ہے۔ کفایت شعاری کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ مخدوش حصوں پر نظر کرم کی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا بائنڈنگ میٹریل تیار کر لیا گیا ہو جو صدیوں پرانے ’میٹریل‘ کے ساتھ پیوست ہو کر ’سیسہ پلائی دیوار‘ تیار کر دے۔ پلیٹ فارمز گرد و غبار سے اٹے پڑے ہیں۔ ان کی صفائی پر مامور عملہ، لمبے بلیڈ والا، وائپر دھکیلتے ایک کنارے سے صفائی کرتا ہوا دوسرے سرے تک چلا جاتا ہے۔ اس کی واپسی پر دیواروں سے کھرچی گئی کنکریٹ کئی بار پلیٹ فارم سے گلے آ ملتی۔ کچھ نک چڑھے نو دولتیے پلیٹ فارمز اور مسافر خانے کی زبوں حالی پر جز بز ہو رہے ہیں۔

سرد موسم کی وجہ سے میں نے کسی کنکریٹ بینچ پر آلت ٹکانا پسند نہ کیا۔ چلتا چلتا پلیٹ فارم کے (دائیں طرف ) آغاز تک چلا گیا۔ پلیٹ فارم 3 کے قریب ریلوے ٹریک کا چھوٹا سا مخدوش حصہ دیکھا جو انجن اور بوگیوں کی شنٹنگ کے لئے استعمال ہونا چاہیے کیونکہ اسٹیشن کے قریب پہنچ کر یہ حصہ بلاک کر دیا گیا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ حصہ شاید حال میں مستعمل نہیں ہوتا ہو گا کیونکہ پٹڑیوں کے بیچ دیمک زدہ لکڑی کے خستہ حال سلیپر گئے دنوں کو یاد کر کے اشک بار تھے۔

ان کے نٹس اینڈ بولٹس کہیں کہیں سے ریلوے کو داغ مفارقت دے گئے تھے یا کل کلاں بھاگنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ تازہ دم نٹ اینڈ بولٹ، ان کی جگہ لینے سے گریزاں ہیں۔ ریلوے کی پٹڑیوں کا لیول عمودی نہ تھا، ایک پٹڑی اندر کی طرف جھکی ہوئی تھی تو دوسری متوازی پٹڑی کا جھکاؤ مخالف سمت میں تھا۔ کافی دیر تک میں تکتا رہا، اپنے دماغ کو دھمکی بھی دی ”انہیں سیدھا دیکھو یعنی جھکا ہوا نہ سمجھو۔“ میرے دماغ نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔

اس نے کہا ”میرا خیال ہے آج تم نے بلڈ پریشر کی گولی یاد سے نہیں کھائی؟“ میں نے قسم کھا کر کہا ”کھائی تھی، میرے باپ۔“ دماغ نے کہا ”پھر بھی سوچ لو۔ قسم کھانے والا عموماً سچا نہیں ہوتا۔“ دماغ نے کہا ”ثبوت فراہم کرنے کے لیے ممکنہ شنٹنگ کا عمل دیکھنے یہاں کھڑا ہو جا۔ اگر انجن یا کوئی بوگی اس دوران پٹڑی سے اتر گئی تو میں یقین کر لوں گا کہ تم نے گولی کھائی تھی۔“ ایک حد تک وہاں کھڑے ہو کر نظارہ دیکھنا چاہا لیکن شاید آج شنٹنگ ہو ہی نہ۔

اپنے حق میں ’گواہی‘ کے ممکنہ وجود کو ختم ہی سمجھ کر واپس پلیٹ فارم 5 پر آ گیا، جہاں متوقع طور سبک خرام نے ورکشاپ کی یاترا کر کے رکنا تھا اور پھر اعلان ہونے پر چلنا تھا۔ تھوڑی دیر یہاں ٹہلا۔ اب بھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ وقت کو مارمار کر مغرب والوں کی طرف بھگانے کے لیے، میں پھر شنٹنگ کی جگہ کی طرف چل پڑا۔ کیونکہ وہاں آفتاب کی سہمی سہمی کرنیں موجود تھیں جو سردی کے خلاف قدرتی مدافعت کا انمول تحفہ تھیں۔ پھر خیال آیا کہ دھوپ تاپنے سے کہیں پانی کی کمی نہ ہو جائے اس خیال سے منرل واٹر کی بوتل خریدنے کا ارادہ کیا بلکہ خرید ہی لی۔

مشہور برانڈ والی بوتل ’نیسلے منرل واٹر‘ دستیاب نہ تھی۔ یہاں ساتھ ساتھ تین چار کیبن ایستادہ تھے لیکن کسی کے پاس بھی معیاری پانی نہیں تھا۔ چنانچہ حکومتی بلند بانگ دعوؤں کے باوجود معیاری پانی کی لاگت میں غیر معیاری کمپنی کی ایک بڑی بوتل (پچاس روپے میں ) خریدی۔ اس کو ہضم کرنے کے لئے بسکٹ کا ننھا پیکٹ بھی ( 15 روپے ) میں خریدا۔ کھوکھے والے کے پاس حکومت پاکستان کے سکے نہیں تھے چنانچہ اس نے پانچ روپے کی ریزگاری غیر حکومتی کرنسی (ایک ٹافی) کی صورت میں لوٹا کر مجھے ممنون کیا۔ پیکٹ کھول کر مسجد کے دروازے کے قریب بینچ پر بیٹھ کر بسکٹ کھانے لگا تو دو نظاروں نے میری آنکھیں کھول دیں۔

پہلا نظارہ یہ تھا کہ زرد رنگ کے پیکٹ پر برینڈ کے انگریزی نام کے سپیلنگ درست کر دیے گئے تھے حتیٰ کہ اردو میں ہجے بھی صحیح لکھے گئے تھے۔ ورنہ اس سے قبل پیکٹ پر انگریزی میں SOOPER لکھا ہوتا اور اردو میں ’سوپر۔‘ ابھی ایک ہی بسکٹ زبان پر رکھا تو اس کا ذائقہ ’سپر‘ ہو گیا۔ پانی کی بوتل پر چسپاں لیبل کو پڑھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ہم زمین سے زیادہ آسمان سے محبت کرتے ہیں کیونکہ مشہور برینڈ ’سیون سیز‘  کی جگہ ’سیون ہیونز‘ درج تھا۔ ڈھکنے پر نظر کرم کردی گئی تھی۔ اسے سیل نہیں کیا گیا تھا مبادا مجھ جیسا ساٹھا باٹھا اسے توڑنے کی بجائے تروڑنا مروڑنا شروع کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments