نصراللہ خان (صحافی) کی خود نوشت: اک شخص مجھی سا تھا


نصر اللہ خان اردو صحافت کا بہت درخشندہ ستارا تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے زمیندار اخبار سے صحافت کا آغاز کیا اور پاکستان بننے کے بعد طویل عرصہ تک کراچی سے شائع ہونے والے اخبار حریت میں کالم نگاری کرتے رہے۔ درمیان میں کچھ برس ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے اور تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ زندگی بھر سرکار دربار سے دور ہی رہے۔ ان کی نثر نگاری کی اتنی شہرت تھی کہ انھیں نثر اللہ خان بھی کہا جاتا تھا۔ ان کی خاکوں کی کتاب ”کیا قافلہ جاتا ہے“ رواں دواں اور سلیس نثر کا ایک بہت عمدہ نمونہ ہے۔

نصر اللہ خان کی صحافت پر خامہ بگوش نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: وہ اس زمانے کے آدمی ہیں جب صحافی سیاسی جماعتوں یا سرکاری ایجنسیوں کے زرخرید نہیں ہوتے تھے۔ ان کے پاس ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی تھی۔

خان صاحب نے اپنی آپ بیتی سنہ 1986 اور 87 میں تحریر کرنا شروع کی اور وہ روزنامہ حریت کے ہفتہ وار میگزین میں قسط وار شائع ہوتی رہی تھی۔ پھر وہ اخبار کی فائلوں میں گم ہو گئی۔ اس گم شدہ خود نوشت کو ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے تلاش کیا اور ورثہ پبلیکیشنز نے کراچی سے 2020 میں شائع کیا۔ اس کارنامے پر ڈاکٹر عقیل عباس جعفری یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ کتاب کچھ تدوین مانگتی تھی، کتنے ہی مقامات ہیں جہاں حواشی کی ضرورت تھی۔ کتاب میں چند حواشی کا اضافہ ضرور کیا گیا ہے تاہم وہ ناکافی ہیں۔

لیکن سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کتاب کی پروف ریڈنگ میں سخت لاپروائی اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھی بھلی کتاب کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ پروف کی اغلاط سے اس قدر پٹی ہوئی کتاب بہت کم دیکھنے کو ملی ہے۔ مزید ستم یہ ہے کہ بعض مقامات پر یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے یا مصنف کے حافظے کی فروگزاشت ہے۔ پروف کی غلطیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اس تحریر میں ان کا تذکرہ کرنے کی گنجائش نہیں البتہ جہاں مجھے لگتا ہے کہ مصنف کے حافظے نے خطا کی ہے، ان پر اپنی کچھ معروضات ضرور پیش کروں گا۔

اردو میں لکھی جانے والی آپ بیتیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے خامہ بگوش نے اپنے مخصوص انداز میں کمال بات کہی تھی کہ یہ ”بیشتر ایسے لوگوں نے لکھی ہیں جن پر کچھ بیتی ہی نہیں تھی۔“ ایک اعتبار سے یہ بات نصر اللہ خان کی خود نوشت پر بھی صادق آتی ہے۔ انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا۔ چنانچہ ان کا کہنا تھا کہ وہ آپ بیتی کے پردے میں جگ بیتی لکھ رہے تھے۔

کتاب اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ اس میں بہت متنوع واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ کتنے ہی ایسے لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنے وقت میں بہت مشہور و معروف تھے لیکن اب ان کے نام وقت کی گرد میں چھپ چکے ہیں۔ کتاب میں جو مطائبات بیان ہوئے ہیں میں نمونہ مشتے از خروارے کے طور پر دو واقعات قارئین کی تفریح طبع کے لیے پیش کر رہا ہوں۔

حاضر جوابی کا یہ مظاہرہ کافی لطف انگیز ہے۔

”سجاد سرور نیازی اسلامیہ کالج کے ریواز ہوسٹل میں رہا کرتے تھے۔ ان کے کمرے میں سارے ساز ہوتے اور یہ سارے ساز خود بجایا کرتے تھے۔ نیازی صاحب نے ایک سازینہ بھی بنایا تھا اور یہ سارا سازینہ خود بجایا کرتے تھے۔

یہ ہلکی پھلکی موسیقی گاتے، آواز بڑی رسیلی تھی۔ اس سازینے کے بارے میں ایک مرتبہ علامہ اقبال نے رفیق غزنوی سے پوچھا کہ کیا واقعی سجاد سرور سارا سازینہ خود بجا لیتا ہے تو رفیق نے پنجابی میں کہا، وجاندا کیہ اے، ہاں کھرک لیندا اے۔

بجا تو کیا لیتا ہے البتہ خارش کر لیتا ہے۔ ” ( 106)

انور پاشا

ایک اور مزے کا واقعہ دیکھیے۔

”ایک مرتبہ پاکستان کے ایڈیٹر صاحبان ایک طیارے میں ترکی جا رہے تھے۔ ان ایڈیٹروں میں روزنامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین اور نوائے وقت کے حمید نظامی بھی شامل تھے۔ اتفاق سے اس طیارے کا ایک انجن خراب ہو گیا اور دوسرے میں بھی کوئی خرابی ہو گئی۔ جب پائلٹ نے خطرے کا اعلان کیا اور مسافروں سے یہ کہا کہ وہ خطرے کے لیے ہدایات کے مطابق تیار ہو جائیں تو مسافروں نے جن میں ہمارے ایڈیٹر صاحبان بھی شامل تھے آیت الکرسی اور دعائے قنوت پڑھنا شروع ہو گئے اور جنھیں ان میں سے کچھ بھی یاد نہیں تھا وہ کلمہ پڑھنے لگے۔ اتنے میں طیارے میں ایک زوردار قہقہہ گونجا اور یہ قہقہہ ماتری صاحب کا تھا۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد طیارے کے انجن ٹھیک ہو گئے اور جب سارے مسافروں کے ہوش ٹھکانے آئے تو الطاف حسین صاحب نے ماتری صاحب سے پوچھا کہ تم نے اس وقت جب سب کے ہوش پراں تھے قہقہہ کیوں لگایا تو ماتری صاحب نے کہا کہ میں سوچ رہا تھا کہ اگر اللہ میاں کو ہمیں مارنا ہی تھا تو بندر روڈ پر کسی حادثے میں مارا جاتا۔ بھلا یہ کیا مذاق ہے کہ ہمیں بارہ ہزار فٹ کی بلندی سے گرا کر مارا جا رہا ہے۔ ( 66)

اس کتاب سے مجھے بہت سی نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ملا رموزی، جن کی مزاح نگاری ایک زمانے میں بہت مشہور تھی، ہندوستان کے پہلے ادیب تھے جو اپنے مضمون کا معاوضہ لیا کرتے تھے۔ ( 23)

اسی طرح غلام قادر روہیلہ کے بارے میں یہ خبر پہلی بار پڑھنے کو ملی ہے۔

علامہ اقبال نے غلام قادر روہیلہ پر اپنی نظم میں اسے ظالم، جفا جو اور کینہ پرور کہا تھا۔ ”حالانکہ ظلم و جفا اور کینہ پروری کا آغاز شاہ عالم ثانی نے کیا تھا۔ جب غلام قادر بچہ ہی تھا تو شاہ عالم کے حکم سے اسے آختہ کروا دیا گیا تھا۔ چنانچہ جب وہ جوان ہوا تو اسے اپنی اس محرومی کا احساس ہوا اور اس نے شاہ عالم کے تخت پر قبضہ کر کے اس کی آنکھیں نکلوا دیں۔ ( 54) ویسے میرا خیال ہے کہ روہیلہ کو آختہ کیے جانے والی روایت تصدیق طلب ہے۔

عثمانی خلیفہ محمد پنجم (1910ء)

نصر اللہ خان کے اس وقت کی سیاست اور صحافت پر بعض مختصر مگر بلیغ تبصرے کافی بصیرت افروز ہیں۔ شہید گنج کی تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”مسلمانوں کی لیڈرشپ میں جوش و جذبہ زیادہ اور سیاسی بصیرت کم تھی۔“ ( 150) اور یہ ہمارا مستقل المیہ رہا ہے۔

جوش و جذبہ کی زیادتی اور سیاسی بصیرت کی کمی صرف شہید گنج کی تحریک میں ہی نمایاں نہیں ہوئی تھی اس کا زیادہ عظیم مظاہرہ جنگ بلقان، تحریک خلافت اور افغانستان میں بچہ سقہ کی بغاوت کے موقع پر کیا گیا۔ پہلے غازی امان اللہ خان کے قصیدے پڑھے پھر جنرل نادر خان سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ چنانچہ ”جب نادر شاہ درانی لاہور سے گزرا تو مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں لاہور کے مسلمانوں نے نادر شاہ سے یہ حلفیہ وعدہ لیا کہ وہ بچہ سقہ کو تخت سے ہٹا کر تخت و تاج امیر امان اللہ خان کے سپرد کر دے گا لیکن نادر شاہ نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا۔“ ( 167) کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان بزرگوں کی سادگی پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ کیا ان لوگوں کو واقعی یہ معلوم نہیں تھا کہ جنگ لڑ کر تخت جیتنے والا اسے کبھی کسی دوسرے کے حوالے نہیں کرتا تھا۔ پہلے جھوٹی امیدیں باندھتے تھے اور پھر نوحہ گری میں مصروف ہو جاتے تھے۔

مرتضیٰ احمد خان میکش کے متعلق خان صاحب کا کہنا ہے کہ ”ان کی تحریر بڑی عالمانہ ہوتی اور اس میں خطابت کا رنگ جھلکتا تھا۔“ ( 167) مقام افسوس ہے کہ اردو صحافت سے عالمانہ رنگ تو غائب ہو گیا لیکن خطابت کا مرض ہنوز باقی ہے۔

میں میٹرک اور ایف اے کے زمانے میں مولانا ماہر القادری کا فاران بہت شوق سے پڑھتا رہا ہوں، بالخصوص اس میں مولانا کی طرف سے کیے جانے والے کتابوں پر تبصرے۔ مولانا کسی بھی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے دوسرا رخ ضرور پیش کرتے تھے۔ میں وہ حرکت تو نہیں کرنا چاہتا لیکن کچھ واقعاتی فروگزاشتوں کو بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔

آخری عثمانی خلیفہ محمد ششم

جہاں تک ذاتی مشاہدات و تجربات کا ذکر ہے تو ظاہر ہے کہ خود نوشت سوانح عمری میں مصنف کے بیان کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، سوائے اس کے کہ بیان یا تو منطقی طور پر درست نہ ہو سکتا ہو یا اس میں تضاد پایا جاتا ہو۔ جہاں تک تاریخی واقعات اور پبلک لائف سے متعلق واقعات کا تعلق ہے، ان میں محض حافظے پر انحصار کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ کسی بھی شخص کا حافظہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، تیس چالیس سال پرانے واقعات کو تحریر کرتے وقت سنین اور افراد کے ناموں کے بارے میں بالعموم خلط مبحث واقع ہو جاتا ہے۔ بہتر تو یہی ہوتا ہے کہ اشاعت سے پہلے ان باتوں کی ریکارڈ سے تصدیق کر لی جائے۔ اگر مصنف فوت ہو چکا ہو تو پھر یہ تدوین کار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حواشی میں متن میں در آنے والی اغلاط کی تصحیح کر دی جائے۔ اس کتاب میں چند مقامات پر حواشی تحریر کیے گئے ہیں لیکن وہ بالکل ناکافی ہیں۔ غلطی دو طرح کی ہوتی ہے، واقعاتی یا فہم و تعبیر کی۔ پہلی کی اصلاح تو بہت آسان ہے لیکن دوسرے معاملے میں مختلف نقطہ نظر کو سامنے لانا پڑتا ہے۔

میں چند واقعاتی غلطیوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

انجمن اسلامیہ امرتسر کی مضبوط مالی پوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”ایک شخص نے امرتسر میں سبزی منڈی بنا کر اسے انجمن کے حوالے کر دیا اور اس سبزی منڈی سے بھی کئی ہزار روپے یومیہ وصول ہوتے تھے۔ ( 35) یہ بات گزشتہ صدی کی چالیس کی دہائی سے پہلے کی ہے۔ اس وقت سبزی منڈی سے کسی طور کئی ہزار روپے یومیہ وصول ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جس وقت یعنی اسی کی دہائی میں مصنف سوانح عمری لکھ رہے تھے ان کے ذہن میں اس وقت کے ہزاروں روپے تھے۔

صفحہ 125 پر غدر پارٹی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”سردار جیب سنگھ، مولانا عبید اللہ سندھی، آروبندو گھوش نے ہندوستان میں اور امریکہ میں جو ہندوستانی کاشت کار تھے ان کی ایک انقلابی پارٹی بنائی جس کا نام غدر پارٹی رکھا گیا۔“

سردار ”جیب“ سنگھ کے نام میں کتابت کی غلطی لگتی ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کا غدر پارٹی سے شاید کوئی تعلق نہیں تھا۔ رہی آروبندو گھوش کی بات تو انگریزوں کی قید سے رہائی کے بعد اس نے 1910 میں پانڈی چری میں پناہ لے لی تھی۔ اس کے بعد اس کا کسی سیاسی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ وہاں وہ اپنے تصنیف و تالیف کے کام میں مصروف رہا۔ اس نے ایک فلسفی کے طور پر بہت نام کمایا تھا اور سری آروبندو کہلاتا تھا۔

Mehmed VI leaving his palace last time

تحریک خلافت کا ذکر کرتے ہوئے خان صاحب لکھتے ہیں کہ ”مسلمان چونکہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو گئے تھے لہٰذا ان میں سے بہت ہجرت بھی کر گئے۔“ ( 60) کاش یہ بھی بتا دیتے کہ ہجرت کا فتویٰ کس نے دیا تھا اور جذبات کو بھڑکانے والے کون تھے؟

اسی طرح تحریک خلافت میں جمع کیے جانے والے چندے کے متعلق خان صاحب نے تحریر کیا ہے : ”برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کے لیے بیش بہا جانی و مالی قربانیاں دیں۔ اس کی خاطر انھوں نے اپنے گھر لٹا دیے۔ کم از کم 75 لاکھ روپے انھوں نے ہلال احمر کو بھیجے اور خلافت کمیٹی کی تنظیم پر بھی اس سے کچھ کم سرمایہ خرچ نہیں ہوا ہو گا۔ (94) تنظیم پر سرمایہ خرچ ہونے کی بابت صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر کسی کو معلوم کرنا ہو کہ خلافت کمیٹی نے مسلمانوں کے سرمایہ پر کیا عیاشیاں کی تھیں تو وہ علی بہادر خان کے پمفلٹ“ پردہ راز یعنی علی برادران پارٹی کے پوست کندہ حالات ”سے رجوع کر سکتا ہے۔

خلافت عثمانیہ کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”خلافت عثمانیہ میں جو ممالک شامل تھے ان کے نام یہ تھے۔ مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر، موجودہ سعودی عرب، فلسطین، ایشیائے کوچک، وسطی ایشیا، بوسنیا، مونٹی نیگرو اور یونان۔“ ( 57)

حقیقت یہ ہے کہ وسطی ایشیا کے کسی ملک پر عثمانیوں کا کبھی کوئی اختیار نہیں رہا۔ شمالی افریقہ میں مصر پر تو مکمل قبضہ تھا لیکن آگے مغرب کی طرف صرف تریپولی، الجیریا اور تیونس کی تین بندرگاہوں پر ہی ترکوں کا تسلط تھا۔ اندرونی علاقوں میں وہاں کے قبائل کا راج ہوتا تھا۔ مراکش کبھی بھی ترک حکومت کے زیر نگیں نہیں رہا۔

طرابلس کے علاقے کو سلطان عبد الحمید کالا پانی کے طور پر استعمال کیا کرتا تھا۔ حکومت کے مخالفین کو وہاں بھیج دیا جاتا تھا۔ رجب پاشا وہاں کا حکمران تھا۔ وہ رشوت لے کر کئی مخالفین کو یورپ فرار ہونے کا موقع فراہم کر دیا کرتا تھا۔

Mustafa Kemal ataturk

نصر اللہ خان سنہ 1920 میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے انھوں نے درست لکھا ہے کہ ان کے بچپن کے زمانے میں ہر گھر میں تحریک خلافت اور بلقان اور طرابلس کی باتیں ہوتی تھیں اور انور پاشا ہندوستان کے مسلمانوں کے ہیرو تھے بلکہ بہت بعد تک رہے۔ لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ فاضل مصنف کئی دہائیوں بعد اپنی سوانح لکھتے وقت حالات کا از سر نو معروضی جائزہ لے لیتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو مجھے یقین ہے کہ ان کے قلم سے عبد الحلیم شرر ٹائپ کے یہ فقرے سرزد نہ ہوتے۔ وہ ”اونٹوں کا ایک قافلہ لے کر ٹریپولی گیا ہوا تھا“ یا ”آخر میں ان کی یہ خواہش تھی کہ ترکی کے کسی چھوٹے سے علاقے کو اپنا مرکز بنا کر اور پھر وہاں سے مسلمانوں کی تسبیح کے بکھرے ہوئے دانوں کو ایک بار پھر یکجا کیا جائے لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔“ ( 59) یہ انداز بیان حقیقت سے بہت دور اور اردو صحافت کے گھڑے گئے افسانوں پر مبنی ہے۔

جذباتیت اور حقائق سے روگردانی کے امراض اردو صحافت کو ابتدا سے لاحق ہیں۔ ہندوستان میں مسلم صحافت نے غازی انور پاشا کی شخصیت کے گرد ایک عجیب دیومالائی شخصیت ہالہ بنا رکھا تھا۔ چنانچہ اس کے متعلق ابوالکلام آزاد نے اپنے رسالہ الہلال میں لکھا تھا:

”مگر ہم کو یقین ہے کہ غازی (انور بے) کسی نہایت ہی عظیم الشان مخفی ارادے سے سرگرم کار ہیں اور گو ابھی خود قسطنطنیہ میں کسی کو معلوم نہ ہو گا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ مگر عنقریب وہ اپنی محیر العقول اور نیرنگ ساز صورت میں دنیا کے سامنے ظاہر ہونے والے ہیں۔“ (الہلال، 26 فروری 1913) یعنی جو بات قسطنطنیہ میں بیٹھے کسی شخص کو معلوم نہ تھی وہ ہزاروں میل دور غلام ہندوستان کے ایک شخص پر عیاں تھی۔ حالانکہ انور پاشا کی کلغی میں ایک ہی پر تھا اور وہ تھا 1913 میں بلغاریہ والوں سے ادرینہ (Edirne) کا قبضہ واپس لینا۔

بچپن کی انھی حسین یادوں کی وجہ سے فاضل مصنف نے انور پاشا کا اپنی بیوی کے نام آخری خط شائع کرنا ضروری سمجھا۔ اس خط کا ہمارے ہاں بہت شہرہ رہا ہے۔ میں نے بھی سکول کے زمانے میں نوائے وقت میں پڑھا تھا۔ کتاب میں انور پاشا کی اہلیہ کا نام نجیبا چھپا ہوا ہے حالانکہ اس کا نام ناجیہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم یہ فاضل مصنف کے حافظے کا سہو ہے یا کمپوزنگ کی غلطی ہے۔

بر صغیر کے مسلمانوں نے کچھ عجب تضاد پسند طبیعت پائی ہے۔ ہم بیک وقت غازی انور پاشا اور غازی مصطفیٰ کمال کے گیت گا رہے ہوتے تھے۔ ہمیں یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ان کے باہمی اختلافات کی نوعیت کیا تھی؟ لیبیا کی جنگ کے زمانے میں ہی انور پاشا اور مصطفیٰ کمال میں شدید اختلافات پیدا ہو چکے تھے بلکہ وہ قریب قریب ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے تھے لیکن ہم دونوں کی دور بلائیں کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اسی طرح جنگ عظیم اول ختم ہونے کے بعد غازی مصطفی کمال کے یونانیوں کے خلاف جنگی معرکوں کے قصیدے پڑھتے تھے لیکن خلیفۃ المسلمین کی سلامتی کی دعائیں بھی مانگا کرتے تھے۔

ادھر خلیفۃ المسلمین اور غازی مصطفی کمال کے مابین محبت کا یہ عالم تھا کہ یکم مئی 1920ء کو استنبول کی حکومت نے غازی مصطفی کمال اور اس کے دیگر ساتھیوں، علی فواد، خالدہ ادیب خانم، اس کے شوہر ڈاکٹر عدنان کو خلیفہ اور سلطان وحید الدین کا باغی قرار دے کر موت کی سزا سنا دی تھی۔ اس سزا پر تو خیر کیا عمل درآمد ہونا تھا لیکن غازی مصطفی کمال کی فوجوں نے خلیفہ کے چار پانچ حامیوں کو تختہ دار پر کھینچ دیا تھا۔

اس سلسلے کا ایک عبرتناک واقعہ یاد آ رہا ہے جس کا ذکر اس کتاب میں تو نہیں ہے لیکن اس کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

جب معاہدہ لوزان پر دستخطوں کی خبر ہندوستان پہنچی تو لاہور میں 26 جولائی 1923ء کی شام ایک جلوس نکالا گیا۔ اس کے بعد جلسہ میں جو قرارداد منظور کی گئی اس میں ”حضرت خلیفۃ المسلمین اور غازی مصطفیٰ کمال پاشا کو ان کی عظیم الشان فتوحات اور شاندار صلح پر ہدیہ مبارک پیش“ کیا گیا۔

اس کے چند ماہ بعد فروری 1924 کو چند ترکوں کا ایک قافلہ افغانستان سے لاہور آیا تو مسلمانان لاہور خوشی سے بے حال ہو گئے۔ اسے ترکی حکومت کا سرکاری وفد سمجھ کر جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ ان کو فارسی زبان میں جو سپاس نامہ پیش کیا گیا تھا اس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: دلہائے ما ز جوش محبت ترکان مجاہد سرشار و از عقیدت حضرت خلیفۃ المسلمین امیر المومنین عبد المجید خان اید اللہ بنصرتہٖ سرمایہ دار ہستند ”۔ (بحوالہ لاہور اک شہر بے مثال، مرتبہ پروفیسر احمد سعید۔ جلد اول)

حالانکہ ترکی میں یکم نومبر 1922 کو سلطانیت کو ختم کر کے اسے ریپبلک بنانے کا اعلان ہو چکا تھا اور اس سپاس نامے کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی تین مارچ 1924 کو خلافت کا بھی خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارا تاریخی سیاسی شعور لگتا ہے آج بھی اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں تحریک خلافت کا خاتمہ ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments