سیاسی عدم استحکام اور ایک عام گھریلو عورت


میں ایک عام گھریلو پاکستانی عورت ہوں۔ مجھے نہ کسی سیاسی جماعت سے سروکار اور نہ کسی عسکری مداخلت سے۔ مجھے کیا لگے کون جیل میں، کون حوالات میں، کون عدالت میں، کون حکومت میں، کون اسمبلیوں میں، کون سڑکوں پہ، کون عدلیہ میں اور کون عتاب میں۔ میری کل کائنات ایک چاردیواری ہے، جسے میں گھر کہتی ہوں۔

میرے بنیادی مسائل کیا ہیں؟

شوہر کی آمدنی اب پوری نہیں پڑتی۔ اگر کاروبار ہے تو مسلسل خسارہ، کبھی ہڑتالیں، کبھی ریلیاں، کبھی مارچ، کبھی جلسے، کبھی یہ احتجاج تو کبھی وہ احتجاج۔ کبھی کسی کی گستاخی پہ احتجاج تو کبھی کسی کی گرفتاری پہ احتجاج، رہائی ہو جائے تو رہائی پہ احتجاج۔ اس دار الاحتجاج میں احتجاج در احتجاج کے بعد کبھی راستے بند، سڑکیں بند، مارکیٹیں بند، کاروبار بند تو آمدنی بند۔ مہینے کے تیس دنوں میں سے چھ سے سات دن ایسا ہو جائے تو 23 فیصد کے قریب کم آمدنی تو ویسے ہی یقینی ہو گئی۔ بقیہ دنوں میں اس چھ سات دنوں کے ”آفٹر شاکس“ جنہیں کہتے ہیں، وہ نازل ہو جاتے ہیں۔ یعنی تئیس فیصد کم کاروبار سے عام انسان کی قوت خرید میں 23 فیصد کمی تو ہو جاتی ہے، جس سے 10 تا 15 فیصد سیل میں مزید فرق آ جاتا ہے۔

اب اگلی سن لیجیے، کہنے کو تو ہم ایک عدد کرنسی کے مالک ہیں مگر اللہ کی شان، امریکہ بہادر کے ڈالر پہ زندہ ہیں۔ اب تو گلی محلے میں سبزی بیچنے والا بھی ٹماٹر، پیاز دیتے ہوئے ڈالر کا تازہ ترین ریٹ بتا کر ہم خواتین کا منہ بند کرتا ہے۔ وہ بھی سچا ہے، ہم صرف لیڈر بناتے ہیں، جماعتیں بناتے ہیں، فرقے بناتے ہیں، فساد بناتے ہیں، کاغذی سکیمیں بناتے ہیں، ترقی کی جھوٹی کہانیاں اور سب سے اچھی باتیں بناتے ہیں، باقی سب کچھ امپورٹ ہوتا ہے۔ اس میں فیول سے لے کر کھاد، بیج اور زرعی ادویات و آلات سبھی شامل ہیں۔ اس لیے ہم کھانے کے لیے بھی ڈالر کے محتاج ہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ادویات، اشیا خورد و نوش کا نام نہیں لیا وگرنہ کہیں ہمارے ساتھ ساتھ سبھی کا سانس خشک نہ ہو جائے کہ ہمارے پاس اپنا ہے کیا، خوش فہمی کے علاوہ۔

بہرکیف، معاف کرنا، میں غصے میں ادھر ادھر نکل جاتی ہوں۔ ڈالر کی قیمت میں عدم استحکام ہر کاروبار کو شدید نقصان سے دوچار کر رہا ہے۔ اشیا گھنٹوں کے حساب سے مہنگی ہو رہی ہیں۔ امپورٹ پہ پابندی نے چیزوں کو بلیک کرنے کا سنہرا موقع عطا کیا اور ان کو مزید مہنگا ہونا میں معاونت فراہم کی۔ جس نے سرمایہ داران کو مزید سرمایہ کمانے میں سہولت دے کر ترقی کی راہ ہموار کی۔

ڈالر کی قیمت سے مہنگائی کو مزید پر لگے، قوت خرید میں کمی آئی اور کاروبار میں مزید نقصان ہوا۔
سب کچھ ملایا جائے تو پچاس فیصد یا اس سے زیادہ کا کاروباری نقصان ایک عام انسان محسوس کر رہا ہے۔

اب اگر شوہر نوکری پیشہ ہے تو لگی بندھی تنخواہ میں گزارہ ممکن نہیں۔ مہنگائی ایک سال میں سو فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ ماہانہ راشن اب دگنے پیسوں میں بھی میسر نہیں مگر آمدنی ہے کہ وہیں کی وہیں۔ نوکری سرکاری ہے تو تنخواہ قلیل اور پرائیویٹ ہے تو شوہر ذلیل۔ ٹارگٹ، پرفارمنس اور نجانے کون کون سے حربوں سے دن رات ذہنی اور جسمانی استحصال۔ اوپر سے تنخواہ میں کٹوتی یا پھر کئی بار تعطل جیسے حربے۔ جب ملک خسارے میں ہے تو کمپنیاں کون سی فائدے میں جا رہی ہیں۔

ایسے میں معاشی تنگی، ذہنی کوفت کا باعث بن جاتی ہے۔ فرسٹریشن مناسب لفظ ہے اس کے لیے۔

گھر کا ماحول بگڑ جاتا ہے۔ خراب موڈ میں شوہر گھر میں داخل ہو تو خوشخبری ملے کہ بجلی کا بل آ گیا ہے، جو کہ پچھلے سال سے یونٹ کے لحاظ سے تو برابر مگر پیسے دگنے ہیں۔

خاتون خانہ اطلاع پہنچائیں کہ گھی اور آٹا ختم ہے، ابا کی دوا، اماں کی ٹیسٹ، فلاں بچے کی کاپی، فلاں کی ٹیوشن کی فیس، دودھ والے کے پیسے، نیٹ کے پیسے اور موبائل لوڈ۔ ایک طویل فہرست ہے اخراجات جن کو عورت تیس دنوں پہ تقسیم کر کے آہستہ آہستہ شوہر کے موڈ اور مزاج یا برداشت کے مطابق قطرہ قطرہ انڈیلتی ہے۔ یکمشت بم گرا دے تو معلوم ہو کہ شوہر کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا۔

حالانکہ ان سب اخراجات کا شوہر کو روز اول سے پتا ہے کہ یہ ہونے ہی ہیں۔ مگر بتانے پہ بیوی گناہگار ٹھہرائی جاتی ہے۔ جو عورت اس فرد جرم پہ خاموش ہو جائے وہ تابعدار اور جو یہ کہہ دے کہ میرا کیا قصور ہے، وہ بدزبان۔

سیاسی عدم استحکام کا میں نے صرف معاشی پہلو بیان کیا ہے۔ اب مختصراً سماجی سن لیجیے۔ میں دریا کو کوزے میں سمونا چاہتی ہوں، میری سادگی دیکھ، کیا چاہتی ہوں۔

میرے وہ چچا جو شوہر کے مخالف سیاسی دھڑے سے ہمدردی رکھتے ہیں، وہ شوہر کی نظر میں کرپٹ، چور، بدزبان، بدتہذیب اور جاہل ہیں۔ ان کے پورے خاندان سے میل جول اور ملنا ملانا حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ فتویٰ کوئی بھی دے سکتا ہے، علما پہ موقوف نہیں۔

مردوں کی محافل میں ایک دوسرے پہ الزامات، تہمتیں ایسے لگائی جا رہی ہیں جیسے توشے خانے کی گھڑیاں میرے گھر لائی گئی ہیں یا بی ایم ڈبلیو میں میں ”جھوٹے“ (جھولے) لیتی رہی ہوں۔

سیاسی عدم استحکام نے عدم برداشت کو ہوا دی ہے۔ ہر انسان شدت پسند ہو چکا ہے۔ کسی کو آگ لگانا صدائے حق دکھائی دیتا ہے اور دوسرے کو آگ لگانا دہشت گردی۔ یہ نظریات بدل جائیں گے جب سیاسی پارٹیاں اپنی جگہیں بدل لیں گے۔ تب توجیح یہ ہو گی کہ ان کی لگائی آگ دراصل ہماری آگ سے کمتر تھی کیونکہ ان کی باری پٹرول 132 فی لیٹر تھا۔

شدت پسندی سبھی کی شخصیت کا اٹوٹ جزو بن چکی ہے، جس کا مظاہرہ ہر انسان دن میں دس بار کرتا ہے (اوسطً) ۔ اندرون خانہ گھریلو ناچاقیاں، ذہنی و جسمانی تشدد، اولاد سے بے زاری اور نفرت، طلاقیں، عدم تحفظ کا احساس، جسمانی اور نفسیاتی عارضے، ڈپریشن اور زندگی سے نفرت۔ گھر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پہ شدید تلخ کلامی، رشتوں میں محبت کا فقدان اور بے وجہ کی شکایتیں، رشتہ داروں سے بے زاری اور نفرت، لین دین میں بے ربطگی، سڑکوں اور شاہراؤں پہ بے ہنگم ٹریفک، گھر سے باہر جلاؤ گھیراؤ سے خوف اور دہشت کا ماحول، تعلیمی اداروں کی بار بار بندش، بچوں کی تربیت پہ منفی ترین اثرات اور سرعام لڑائی جھگڑے، قتل و غارت۔ الغرض ہر قسم کی بدمزگی کا ذمہ دار میں ملکی عدم سیاسی استحکام کو سمجھتی ہوں۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ آپ ایک چیز کو موردالزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔ میں پوچھتی ہوں کہ ہماری زندگی کا کون سا ایسا پہلو ہے جس پہ معاشرتی عدم استحکام اثر انداز نہیں ہے۔

بیوی کو ہر وقت شوہر کے جاب جانے یا کاروبار ٹھپ ہو جانے کا ڈر لگا رہتا ہے، اس کی ذہنی کوفت سے کسی بھی حد تک جارحانہ رویے کا خوف، کچھ کہنے پہ طلاق کا دھڑکا الگ۔ بچوں کی پرورش اور تربیت پہ گھریلو اور معاشرتی ماحول کا اثر ہونا مستقبل سے بھی نا امید کر دیتا ہے۔

جہاں استحکام نہیں ہوتا وہاں امن نہیں ہوتا اور جہاں امن نہیں ہوتا، وہاں کچھ نہیں ہوتا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ میں عمران خان کو نواز شریف سے ملاقات کے لیے بلاول ہاؤس بلا کر آرمی چیف سے نہیں میزبانی کا اہتمام نہیں کر سکتی اور نہ چندے کی اپیل کر کے آئی ایم ایف کی قسط ادا کرنے کی سبیل کر سکتی ہوں۔

میں کر سکتی ہوں تو بس اتنا کہ اپنے گھر کو اس ابتر حال میں اپنے حتی الامکان حد تک چلانے کی کوشش کروں۔ وہ کیسے ہو گا، اس کی تفصیل اگلی مرتبہ۔

اس وقت تک بس اتنا کیجیے کہ یہ سوچ لیجیے، ملک اور کاروبار کے حالات آپ کی بیگم کی وجہ سے خراب نہیں ہیں، آپ کے بچوں نے ان کو خراب نہیں کیا، آپ کے محلے داروں نے ان میں حصہ نہیں ڈالا، سیاسی وابستگی اپنا ذاتی معاملہ ہے، حالات یہی رہنے ہیں اور اس سے زیادہ ہی خراب ہونے ہیں، بس جو آپ ٹھیک نہیں کر سکتے، ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کیجیے، وہ کیجیے جس کو کرنے سے آپ سے منسلک لوگوں کی زندگیوں کو فرق پڑتا ہے۔ شکریہ۔

ایک عام پاکستانی عورت۔
مہوش ریاض


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments