میک اپ آرٹسٹ قمر عالی انتقال 18 مئی 2023


جب میں لاہور جاتا ہوں تو اکثر فلمی صحافی، محقق، فلم اور فلم سے متعلق کتابوں سے پیار کرنے والے ظفر اقبال سے ملاقات ہوتی ہے۔ چند ماہ ادھر انہوں نے فلمی دنیا کے ایک نامور میک اپ آرٹسٹ قمر عالی صاحب سے ان کے دفتر واقع ایور نیو اسٹوڈیوز میں میری ملاقات کا انتظام کرایا۔ اس ملاقات میں کی گئی بات چیت پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لئے حاضر ہے :

” کیا آپ نے یہ شعبہ اپنی مرضی سے منتخب کیا یا حالات یہاں لے آئے؟“ ۔

” میرا نام قمر عالی ہے اور میں میک آرٹسٹ ہوں۔ مجھے تو اس شعبے میں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ میرے والد صاحب ایک میک اپ آرٹسٹ تھے۔ پھر جب وہ بیمار ہوئے تو روزی کی خاطر میں میک اپ مین بن گیا۔ میں بھٹی پکچرز کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے ادارے میں مجھے میرے والد صاحب کی جگہ بہت عزت کے ساتھ کام دے دیا۔ میں اس وقت 13 سال کی عمر کا تھا اور اس کام کا پتہ ہی نہیں تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں بھٹی پکچرز کی بدولت میں فل میک اپ مین بن گیا! ابتدا میں تین چار مہینے میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ کام کیا اور سیکھا“ ۔

ہمارے خاندان کی میک اپ کے شعبہ میں 125 سالہ خدمات:

” میرے والد منظور علی صاحب نے فلم انڈسٹری کے شعبہ میک اپ میں 40 سال کام کیا۔ انہوں نے عنایت حسین بھٹی صاحب کی تمام فلمیں کی ہیں۔ والد صاحب کے بعد بھٹی پروڈکشنز کی ساری فلمیں میں نے کیں۔ کیفی صاحب کی آخری فلم“ میدان ” ( 2004 ) بھی میں نے کی۔ مجھے بھی اب کام کرتے ہوئے 45 سال ہو گئے ہیں۔ منور حسین چھوٹا میرے خالہ زاد بھائی اور والد صاحب کے شاگرد تھے۔ وہ دوسرے پروڈکشن ہاؤس کی فلمیں کرتے تھے۔ انہوں نے بھی اسی شعبے میں 40 سال کام کیا۔

منور حسین چھوٹا نے اعجاز صاحب کی ساری فلمیں کیں جیسے فلم“ ہیر رانجھا ” ( 1970 ) ،“ دوستی ” ( 1971 ) ،“ ملنگی ” ( 1965 ) اور دیگر فلمیں۔ اس طرح ہم 125 سال سے فلم لائن میں ہیں۔ اب تو فلم لائن کچھ ڈاؤن ہے لیکن قوی امید ہے کہ انشاء اللہ یہ جلد اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گی۔ ہمارا بھی دانہ پانی ادھر ہی سے ہو رہا ہے۔ میری طرح بہتوں کا گھر فلمی دنیا سے ہی وابستہ ہے۔ سب سے بہتر رزق دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے! “ ۔

ایک دلچسپ واقعہ:
” آپ کے والد نے پیار محبت سے کام سکھایا یا ڈانٹ ڈپٹ سے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” (ہنستے ہوئے ) نہیں! والد صاحب نے تو بہت پیار سے کام سکھایا! ایک واقعہ یاد آیا: رمضان کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ فلم“ راجو راکٹ ” ( 1978 ) کی دن رات شوٹنگ ہو رہی تھی کیوں کہ عید الفطر پر اس فلم کو سینماؤں میں نمائش کے لئے پیش ہونا تھا۔ وہ میرے کام کے آغاز کا زمانہ تھا۔ میں صبح شوٹنگ پر آیا، سیٹ پر موجود ایک لڑکے کو وگ دے کر واپس گھر چلا گیا۔ میری لا علمی کہ مونچھیں میری جیب میں ہی رہ گئیں۔ وہ شوٹنگ ملتوی کر دی گئی۔

میں جب شام کو اس خیال سے واپس آیا کہ اب تک شوٹنگ پیک اپ ہو گئی ہو گی۔ اسٹوڈیو کے گیٹ پر یونٹ کے اسٹنٹ ڈائریکٹر ملے اور کہنے لگے کہ تمہاری وجہ سے شوٹنگ ملتوی ہو گئی کیوں کہ تم مونچھ نہیں دے کر گئے۔ گھبراہٹ میں، میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو مونچھ کو موجود پایا! بھاگم بھاگ کیفی صاحب کے پاس گیا۔ وہ تھوڑے سے ناراض ہوئے۔ چکوری بیگم ( کیفی صاحب کی بیگم ) بھی وہاں بیٹھی تھیں، کہنے لگیں کہ پہلے قمر سے سنیں تو سہی کہ کس وجہ سے یہ مونچھ لے کر چلا گیا تھا؟ میں نے سارا واقعہ انہیں بتایا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ چلو اب آئندہ ایسی غلطی نہیں کرنا! وہ بڑے دل کے مالک تھے۔ اللہ عنایت حسین بھٹی صاحب اور کیفی صاحب کو جنت میں گھر دے۔ اللہ ان کے سارے خاندان کو سکون دے۔ سب بھائی بڑے اچھے تھے“ ۔

” اس وقت لاہور میں کتنے فلم اسٹوڈیوز میں کام ہوتا تھا؟“ ۔

” اس وقت لاہور میں سات فلم اسٹوڈیو تھے : پہلا ’سینٹینیئل اسٹوڈیو‘ ، دوسرا ’ثنائی اسٹوڈیو‘ ، تیسرا ’شباب اسٹوڈیو‘ ، چوتھا ’شاہ نور اسٹوڈیو‘ ، پانچواں ’ایور نیو اسٹوڈیو‘ ، چھٹا ’باری اسٹوڈیو‘ اور ساتواں ’اے ایم اسٹوڈیو‘ ۔

شباب اسٹوڈیو میں والد صاحب کو ڈھونڈنا:

” شباب اسٹوڈیو ابھی زیر تعمیر تھا۔ اس وقت ایک کمرہ بنا ہوا تھا جہاں سامان رکھا جاتا۔ ایک دن میں اور میرے تایا والد صاحب کو ڈھونڈنے شباب اسٹوڈیو گئے کیوں کہ وہ تین دن سے گھر نہیں آئے تھے اور مسلسل وہیں مصروف تھے۔ وہاں کیفی صاحب کی فلم“ دھرتی کے لال ” ( 1974 ) کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ اداکارہ فردوس، غزالہ، لڑکے لڑکیاں، عنایت حسین بھٹی صاحب، کیفی صاحب ایک کورس کی عکس بندی کرا رہے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ دوپہر کو سرسوں کا ساگ، لسی، مکھن اور دیسی گھی میں مکئی کی روٹیاں آ گئیں۔ میں پہلی مرتبہ کسی فلم اسٹوڈیو میں آیا تھا۔ سب نے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔

” کون کون سی پروڈکشن میں کام کیا؟“ ۔ ظفر اقبال صاحب نے سوال کیا۔

” میں نے انجم پرویز صاحب کی ساری فلمیں کی ہیں۔ رشید ڈوگر صاحب کی فلمیں بھی کیں۔ اس کے علاوہ کئی اور ڈائریکٹروں کے ساتھ فلمیں کی ہیں۔ جیسے وحید ڈار، ایس اے بخاری، پرویز رانا، سودی بٹ، وحید اعوان صاحبان“ ۔

” ہر دور کی نامور اداکاراؤں کے سخت مزاج کا سنتے آئے ہیں۔ آپ کے ساتھ ان کا برتاؤ کیسا رہا؟“ ۔

” پہلے وقتوں کی ہیروئنیں بہت اچھی اور تعاون کرنے والی تھیں۔ ایک خاندان جیسا ماحول ہوتا تھا۔ ہم نے میڈم انجمن کے ساتھ بڑا کام کیا ہے۔ وہ بہت اچھی تھیں۔ اس دور کی میڈم صنم، غزالہ بیگم، چکوری بیگم، آسیہ بیگم وغیرہ سب ہی اداکارائیں مزاجاً بہت اچھی تھیں۔ اس کے علاوہ ہیرو اور دیگر فنکار بھی ہم سے بہت اچھی طرح ملتے تھے۔ دیکھیں نا! کوئی انسان غلطی کرے تو سامنے والے کو غصہ تو پھر آتا ہے! بس کبھی کبھار ایسا ہو جاتا تھا۔ میں نے سلطان راہی صاحب، مصطفے ٰ قریشی صاحب، اقبال حسن صاحب، کیفی صاحب، عنایت حسین بھٹی صاحب، اسلم پرویز صاحب، یوسف خان صاحب، الیاس کاشمیری صاحب وغیرہ کے ساتھ کافی کام کیا۔ ساون صاحب تو مجھ سے بہت پیار کرتے تھے“ ۔

” کیا آپ نے منور ظریف صاحب کے ساتھ بھی کام کیا؟“ ۔
” نہیں! ان کے ساتھ کام کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا“ ۔
” کسی مزاحیہ اداکار کے ساتھ کوئی دلچسپ واقعہ پیش آیا؟“ ۔ ظفر اقبال نے سوال کیا۔

” کیفی صاحب کی شوٹنگ میں اکثر مزاحیہ فنکار ایک دوسرے پر جگتیں لگاتے اور کافی کافی دیر شوٹنگ رکی رہتی تھی اور سیٹ پر موجود ہر ایک فرد ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا۔ کیفی صاحب خود بھی بڑے ہنسی مذاق والے آدمی تھے۔ کھانے آ رہے ہیں، چائے چل رہی ہے، ہنسی ٹھٹھہ ہو رہا ہے نہیں ہو رہا تو شوٹنگ کا کام (قہقہے ) ! “ ۔

ایک سوال کے جواب میں قمر صاحب نے بتایا : ”عنایت حسین بھٹی پانچ بھائی تھے : الطاف حسین بھٹی، طفیل حسین بھٹی، عنایت حسین بھٹی، کفایت حسین بھٹی ( المعروف کیفی) اور شجاعت حسین بھٹی۔ فلموں میں تین ہی گئے۔ الطاف صاحب نے ایک دو فلموں میں کامیڈی کی جیسے فلم“ چن مکھناں ” ( 1968 )“ ۔ میں شروع ہی سے با ادب واقع ہوا تھا۔ اسی لئے عنایت حسین بھٹی صاحب کے پاس بیٹھتا نہیں تھا۔ وہ بھٹی پکچرز کے سربراہ اور بڑے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ کام کرنے کا بہت مزہ آیا ”۔

موسیقی کے حوالے سے قمر صاحب نے کہا: ”موسیقار بخشی وزیر صاحبان نے بھی ہمارے ساتھ فلم“ الٹی میٹم ” ( 1976 ) کی تھی۔ وہ سب ہی کے ساتھ بہت پیار سے ملتے تھے“ ۔

” کیا شدید موسم کی بیرونی عکس بندی میں فنکار بدمزاج ہوتے تھے؟“ ۔

” کیا ان ڈور کیا آؤٹ ڈور! میں نے فنکاروں کو چڑچڑے پن میں کبھی نہیں دیکھا۔ ہر اداکار و اداکارہ خوش مزاج تھے۔ شدید گرمی میں بھی وہ اپنا کام محنت سے کرتے تھے“ ۔

” اسٹوڈیو کی نسبت کیا آؤٹ ڈور میں کام کرنا زیادہ مشکل ہے؟“ ۔

” مجھے تو دونوں جگہ کام کرنا ایک ہی جیسا لگتا ہے۔ ہم نے تو کام ہی کرنا ہے ان ڈور کرالیں یا آؤٹ ڈور! سردیوں کی آؤٹ ڈور میں چوں کہ پسینہ نہیں آتا لہٰذا میک اپ ٹھیک ہی رہتا ہے۔ البتہ گرمی میں آؤٹ ڈور میک اپ کو ’مینٹین‘ رکھنا پڑتا ہے“ ۔

ڈائریکٹر داؤد بٹ صاحب (م) اور فلم ”جگا گجر“ ( 1976 ) :
” کس فلم میں آپ نے سب سے پہلے فل میک اپ مین کی حیثیت سے کام کیا؟“ ۔
” وہ فلم“ الٹی میٹم ” ( 1976 ) تھی۔ پھر“ جگا گجر ” ( 1976 ) جس کے ڈائریکٹر کیفی صاحب تھے“ ۔

یہاں ظفر اقبال صاحب نے اس فلم کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتائی : ”ایک دفعہ ایور نیو فلم اسٹوڈیوز میں فلم رائٹرز ایسوسی ایشن کے دفتر کے باہر کرسیوں پر فلمی شخصیات کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ان میں ڈائریکٹر داؤد بٹ صاحب، ان کے استاد الطاف حسین صاحب، ڈائریکٹر محمد طارق صاحب، انور خان صاحب وغیرہ شامل تھے۔ وہاں کیفی صاحب کا ذکر چل نکلا۔ اس پر داؤد بٹ صاحب (م) نے کہا کہ میں کبھی کیفی صاحب کو ڈائریکٹر نہیں مانتا تھا۔ جب میں نے ان کی فلم“ جگا گجر ” ( 1976 ) دیکھی تب میں نے کیفی کو ڈائریکٹر مانا! “ ۔

قمر عالی نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا : ”پھر میں نے فلم“ روٹی کپڑا اور انسان ” ( 1977 ) ، فلم“ راجو راکٹ ” ( 1978 ) کی اور یوں سلسلہ چل نکلا“ ۔

” آپ نے بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے کام کا آغاز کیا۔ پھر جب رنگین فلمیں شروع ہوئیں تو آپ کے کام میں بھی کوئی فرق آیا؟“

” کلر میں ہر ایک چیز نکھر جاتی ہے جب کہ بلیک اینڈ وائٹ میں دب جاتی تھیں۔ میک اپ بھی زیادہ کرنا پڑتا تھا“ ۔

” کیا آپ نے ٹیلی وژن کے ڈراموں کا بھی میک اپ کیا؟“ ۔

” جی ہاں میں نے ٹی وی کے بہت سے ڈرامے کیے۔ جیسے انجم شہزاد صاحب کا“ خود دار محبت ”، سرمد کھوسٹ کا تاریخی مغلیہ دور سے متعلق بڑا ڈرامہ“ مور محل ”۔ اس کا سارا گیٹ اپ میں نے کیا۔ اگر گیٹ اپ صحیح نہ کیا گیا ہو تو تاریخی فلموں اور ڈراموں کے خصوصی ملبوسات بھی تاثر نہیں چھوڑتے۔ کنال ویو میں سیٹ لگایا گیا تھا۔ اس کی آؤٹ ڈور شالامار باغ میں بھی ہوئی۔ پھر میں نے ڈرامہ“ گھگی ”کیا“ ۔

” کیا آپ نے تھیٹر کیا؟“
” جی ہاں! میں نے تھیٹر بھی کیا ہے“ ۔
” تھیٹر کا میک اپ کیا فلم اور ٹیلی وژن سے مختلف ہوتا ہے؟“ ۔

” تھیٹر میک اپ الگ ہے۔ یہ خاصا تیز ہوتا ہے۔ ’بلش آن‘ زیادہ ہوتا ہے۔ آنکھ کو بنانا اور چہرے کو سفید کرنا پڑتا ہے“ ۔

” آپ کے خیال میں وہ کون سے بڑے اسباب ہیں جن کی وجہ سے فلم انڈسٹری نیچے کی طرف چلی گئی؟“ ۔

” دیکھئے اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں! ہر ایک کام میں عروج اور زوال تو ہے نا! لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن زوال کے بعد بھی تو عروج آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے“ ۔

” کیا آپ اپنے بچوں کو اپنے شعبے میں لانا چاہیں گے؟“ ۔

” جی نہیں! کیوں کہ اب کام نہیں ہے۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ ہماری یہ انڈسٹری اپنے پیروں پر ضرور کھڑی ہو گی۔ لیکن اگر آرٹسٹ ہوں گے تب ہی ایسا ہو گا۔ ہمارے پاس پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تو ہیں لیکن آرٹسٹوں کی کال ہے جن کے سر پر فلم بنتی ہے“ ۔

” اب تک آپ کو سب سے مشکل میک اپ/ گیٹ اپ کس کردار کا لگا؟“ ۔

” اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ڈائریکٹر صاحب نے مجھے جو بھی کہا وہ میں نے دھیان سے کیا۔ شاید اسی لئے میرے لئے کبھی کوئی مشکل صورت حال پیش نہیں آئی۔ جو بھی کام کیا اللہ کی ذات نے مجھے عزت دی۔ آج تک میرا گیٹ اپ مسترد نہیں ہوا۔ سرمد کھوسٹ صاحب باریک بینی سے کام کر نے والوں میں سے ہیں۔ ان کے ڈرامہ“ مور محل ”میں میرا پہلا گیٹ اپ حکیم صاحب کے کردار کا تھا۔ جب میں نے یہ کر کے دیا تو فوراً او کے کہہ دیا! میں تمام کرداروں کا گیٹ اپ میک اپ روم سے کر کے بھیج دیتا تھا انہوں نے کبھی بھی مجھے سیٹ پر نہیں بلوایا کہ قمر بھائی یہ صحیح کریں! اللہ کے فضل سے میں کردار کے لحاظ سے کام کرتا تھا“ ۔

ایک عجیب حقیقت:

قمر عالی صاحب نے باتوں باتوں میں ایک عجیب حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے بتایا: ”میں نے زیادہ کام آرٹسٹوں سے سیکھا۔ وہ جب بھی کوئی نقص نکالتے یا کوئی مشورہ دیتے میں اگلی صبح وہ خرابی دور کر کے ان سے ’کلیپ‘ لیتا تھا۔ ان میں سلطان راہی صاحب بھی شامل ہیں“ ۔

” سب ہی اداکار اچھے تھے البتہ یوسف خان صاحب تھوڑے سے مزاج والے تھے لیکن اگر کام ٹھیک ہوتا تو خوش بھی ہوتے! یہ بھی دیکھیں کہ کام صحیح نہ ہو تو کوئی بھی آرٹسٹ بول سکتا ہے۔ جس کا کام ہے اس کو بھی تو چاہیے کہ وہ کام ’پرفیکٹ‘ کرے“ ۔

” جب میں فلمی لائن سے منسلک ہوا اس وقت انڈسٹری میں 250 میک اپ مین تھے۔ اور اب ( دکھ بھرے لہجے میں ) تین چار ہی ہیں! اندازہ لگائیے کہ کتنا کام ہوتا تھا جو ڈھائی سو میک اپ مین کام کرتے تھے“ ۔

اداکاروں کے میک اپ کرنے پر انہوں نے بتایا: ”شان صاحب ’گم‘ نہیں لگاتے تھے۔ میری فلم“ جینا یہاں مرنا یہاں ”شروع ہوئی۔ اس کے ڈائریکٹر کیفی صاحب تھے۔ شان کو ایک سکھ کا گیٹ اپ کرنا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ میں گیٹ اپ کے لئے لوشن/ گم نہیں لگاؤں گا اس لئے یہ فلم نہیں کر سکوں گا۔ میں نے کہا کہ آپ کو میں گم کے بغیر ہی داڑھی لگا دیتا ہوں۔ پھر میں نے داڑھی ٹیپ کے ساتھ لگائی۔ یہ کام کامیاب ہوا اور اللہ نے میری عزت رکھ لی۔ ویسے پہلی داڑھی میں نے معمر رانا کو لگائی تھی۔ ارباز خان اور شامل خان کو بھی پہلی داڑھی میں نے لگائی ہے“ ۔

” کیا آپ نے پشتو فلمیں بھی کی ہیں؟“ ۔

” جی ہاں! میں نے کم سے کم 250 پشتو فلمیں کی ہیں۔ اس دور میں سندھی فلمیں لاہور میں بھی بنتی تھیں، میں نے تین چار سندھی فلمیں بھی کیں۔ پنجابی، سرائیکی اور اردو فلمیں اس کے علاوہ ہیں“ ۔

گفتگو کے دوران فلم ڈائریکٹر شیر علی صاحب بھی قمر صاحب کے دفتر میں آ گئے۔

فلم سے متعلق کسی بھی شعبہ کا ہنر مند ہو اور سلطان راہی کا ذکر نہ کرے یہ ہو ہی نہیں سکتا! قمر صاحب نے اس سلسلے میں بتایا: ”سلطان راہی صاحب کے ساتھ بڑا کام کیا۔ ان کے ساتھ کام کا لطف آتا تھا۔ پتا چلتا تھا کہ ہم کوئی کام کر رہے ہیں! جب سب آرٹسٹ سیٹ پر ہوتے تو ایک اور ہی ماحول بن جاتا تھا۔ راہی صاحب سب ہی کا خیال رکھنے والے شخص تھے۔ اب میں نے ان کے بیٹے حیدر سلطان کو فلم“ اشتہاری ڈوگر ”میں وگ لگائی ہے۔ آپ کو وہ سلطان راہی ہی لگے گا“ ۔

اردو فلموں کے حوالے سے انہوں نے کہا: ”میں نے محمد علی، ندیم سمیت سب ہی بڑے فنکاروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ فنکاروں کے ساتھ ساتھ اس وقت کے بڑے میک اپ مینوں کے ساتھ بھی کام کیا“ ۔

” کبھی کسی اداکار یا اداکارہ نے آپ کے کام سے خوش ہو کر انعام دیا؟“ ۔

” جی ہاں بے شک! یوسف خان صاحب، سلطان راہی صاحب اور دوسروں نے مجھے انعامات دیے۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ فلم میکرز نے طے شدہ معاوضہ کے علاوہ انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ ہدایتکار حسن عسکری صاحب کی پنجابی فلم“ باؤ بدمعاش ” ( 2005 ) کے لئے اداکار راشد محمود کے گٹ اپ پر 5000 روپے انعام میں ملے۔ فلم“ سوہنی مہینوال ”کے لئے معمر رانا کے گٹ اپ کے لئے فلمساز ریاض گجر اور ہدایتکار رشید ڈوگر نے ایک ایک ہزار روپیہ انعام دیا“ ۔

” آپ کے خیال میں کامیابی کا گر کیا ہے؟“ ۔

” کامیابی کا بس ایک ہی گر ہے۔ محنت! جو محنت کرے گا وہ کامیاب رہے گا۔ خالی خولی باتیں کرنا میک اپ مین کا کام ہی نہیں۔ دیگر شعبوں کی طرح میک اپ کے شعبے میں بھی پرائیویٹ پروڈکشنز میں نئے لڑکے اچھا کام کر رہے ہیں لیکن نظریہ میک اپ سے لا علم ہیں، اس لئے فلم کے حساب سے کام نہیں ہو رہا ہے۔ البتہ ٹی وی کا میک اپ اور گیٹ اپ بڑا اچھا ہو رہا ہے“ ۔

” آپ کی آنے والی فلمیں کون سی ہیں؟“ ۔
” میری آنے والی کئی ایک فلمیں ہیں جیسے“ دلی گیٹ ”،“ چھتیس گڑھ ”،“ اشتہاری ڈوگر ”وغیرہ“ ۔
” کیا آپ نے کوئی شاگرد بھی تیار کیے؟“ ۔

” میں نے بہت سے شاگرد تیار کیے۔ ماشاء اللہ وہ سب کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کراچی میں بھی کام کرتے ہیں۔ جیسے : شہزاد، اکبر، جانی، شاہد اور کئی ایک دوسرے۔ جانی کراچی کے ساتھ لاہور میں بھی کام کرتا ہے۔ تمام شاگرد اپنی زندگی، شعبے اور کام سے مطمئن ہیں اور اکثر مجھ سے ملنے آتے رہتے ہیں“ ۔

” کیا آپ نے اپنے فن کی باریکیاں شاگردوں کو منتقل کیں یا چھپائیں؟“ ۔

” میں نے اپنے شاگردوں سے کام کبھی نہیں چھپایا! چھپاتا بھی تو وہ کچھ تنگی کے ساتھ سیکھ ہی لیتے۔ انہوں نے کام تو پھر بھی کر ہی لینا تھا! اسی وجہ سے اللہ کی ذات نے مجھے اب تک عزت دی ہوئی ہے۔ آج بھی وہ مجھے استاد جی استاد جی کہتے نہیں تھکتے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں قمر صاحب نے بتایا : ”میں نے کراچی کی کافی فلمیں کی ہیں۔ جیسے :“ چنبیلی ” ( 2013 ) ،“ بالو ماہی ” ( 2017 ) ،“ سایہ خدائے ذوالجلال ” ( 2016 ) ۔ پھر شاہد کامران صاحب کی فلم کر رہا ہوں“ ۔

یہاں فلمی صحافی ظفر اقبال نے سوال پوچھا: ”کیا آپ اپنے کام سے مطمئن ہیں؟“ ۔
” جی ہاں! میں اپنے کام اور زندگی سے مطمئن ہوں! “ ۔
” کیا مکان آپ کا اپنا ہے یا کرایہ کا؟“ ۔
” ( ہنستے ہوئے ) جی کرایہ کا! “ ۔
” دیکھیں! اس سوال کا زیادہ تر آرٹسٹ یہ ہی جواب دیتے ہیں کہ مکان کرایہ کا ہے! “ ۔ ظفر اقبال نے کہا۔
” قمر صاحب! ایک سوال کرنا چاہوں گا۔ آپ چاہیں تو اس کا جواب بے شک نہ دیجئے“ ۔ میں نے سوال کیا۔
” نہیں نہیں! آپ سوال کریں“ ۔

” جب آپ کے پاس بہت کام اور پیسوں کی فراوانی تھی تب آپ نے اپنے برے وقت کے لئے پیسے کو کیوں نہیں سنبھالا؟“ ۔

” اس وقت تو بے شک بہت اچھا سسٹم تھا۔ پیسہ بہت کمایا لیکن کوئی سمجھ ہی نہیں آئی! “ ۔
” گویا پیسہ رکا نہیں؟“ ۔

” جی! بس آیا اور نکل گیا! میرے سامنے ہی شاہ نور کے باہر کچی آبادی بنی لیکن میں نے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ پورا شاہ نور اسٹوڈیو دیکھتے ہی دیکھتے بک گیا اور وہاں مکانات بننے لگے لیکن۔۔۔“ ۔

” آپ کے ساتھیوں میں سے کسی نے اپنا مکان بنایا؟“ ۔

” ہمارے میک اپ مین نواب چھوٹا صاحب ماشاء اللہ حیات ہیں، انہوں نے کافی جائیداد بنائی ہے۔ اسی طرح ملک صدیق صاحب کا بھی اپنا مکان ہے۔ در اصل میرے والد صاحب نے فلمساز کی حیثیت سے ایک فلم“ یاریاں ”شروع کر دی تھی جس کے ڈائریکٹر بھی وہ خود ہی تھے۔ اس فلم میں ان کی بہت رقم لگ گئی۔ استاد میک اپ مین ملک صدیق صاحب، اللہ انہیں زندگی دے، بتاتے ہیں کہ جب دوسرے میک اپ مین فلم کے 2000 روپے لیتے تھے تب تمہارے والد صاحب بھٹی پکچرز سے 15000 لیتے تھے۔ اس وقت 50 روپے مرلہ زمین تھی۔ اس حساب سے آپ اندازہ لگا لیں کہ اس دور کا پندرہ ہزار آج کا کتنا ہوا؟ وہ فلم مکمل بھی ہو گئی لیکن سنیماؤں کی زینت نہ بن سکی! “ ۔

” اس کا کیا سبب تھا؟ ایسی کیا رکاوٹ آ گئی تھی؟“ ۔
” بس وہ بہت بیمار ہو گئے“ ۔

” کیا میک اپ آرٹسٹ کی کوئی تنظیم نہیں ہونا چاہیے جو ان میک اپ مینوں کی بہبود کا خیال رکھے جو کسی وجہ سے برے حال میں ہیں، بیمار ہیں اور وسائل نہیں رکھتے“ ۔

” اب چار پانچ میک اپ مین ہی اسٹوڈیوز میں رہ گئے ہیں۔ وہ کیا بنائیں گے! ویسے جناب یہ چیزیں ہر دور میں ناکام ہی رہیں! کسی کا کچھ ذہن ہوتا ہے تو کسی کا کچھ! حکومت پنجاب آرٹس کونسل کے ذریعہ پانچ ہزار روپے ماہنامہ وظیفہ دیتی تو ہے لیکن اس میں بھی کئی کئی ماہ کے وقفے آ جاتے ہیں“ ۔

حکومت اور پاکستان فلم انڈسٹری:

قمر عالی صاحب نے ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”فلم لائن کے سر پر حکومتیں چلی ہیں۔ فلم انڈسٹری سے کروڑوں روپے روزانہ کا ٹیکس وصول کر کے حکومتوں نے بڑا فائدہ اٹھایا۔ اب حکومت کو چاہیے کہ اس انڈسٹری کو واپس ترقی کے راستے پر ڈالے تا کہ وہ پھلے پھولے جس سے فلم سے منسلک لوگوں کو اچھا روزگار ملے اور حکومت کو بھی روزانہ بھاری ٹیکس ملے! “ ۔

نوٹ:

میں اس بات چیت کو حتمی شکل دے رہا تھا کہ ظفر اقبال نے خبر دی کہ قمر عالی اب ہم میں نہیں رہے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اسی سلسلے میں فلمی صحافی ظفر اقبال نے اپنی تحریر بھی واٹس ایپ کی جو اس مضمون میں شامل کی جا رہی ہے :

میک اپ ماسٹر /گیٹ اپ میکر قمر علی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے :

پاک فلم انڈسٹری کے ہر دل عزیز معروف میک اپ ماسٹر/گیٹ اپ میکر قمر علی 18 مئی 2023 کو دل کے دورے کی وجہ سے دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ چوک برف خانہ گوالمنڈی لاہور میں میک اپ ماسٹر منظور عالی کے ہاں پیدا ہوئے جو میک اپ ماسٹر بابا چارلی کے شاگرد تھے۔ بابا چارلی کے شاگردوں میں آصف خان بھی شامل تھے جنہوں نے بعد ازاں فلمی ہیرو اکمل کے نام سے شہرت پائی۔ قمر عالی نے ابتدائی تعلیم مسلم ہائی سکول رام گلی سے حاصل کی۔

وہ ذہین طالبعلم تھے اور پڑھ لکھ کر سول سروس میں جانے کا خواب دیکھتے تھے مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ ابھی جماعت نہم میں تھے کہ آشوب چشم کی وبا سے ان کے والد کی بینائی بری طرح متاثر ہوئی اور انہیں بادل ناخواستہ اپنے والد کی معاونت کے لئے فلم اسٹوڈیوز آنا پڑا۔ جن فلموں میں انہوں نے اپنے والد کی معاونت میں کام سیکھا ان میں ہدایتکارسید رضا زیدی کی فلم ”دوغلا“ ( 1975 ) ، ہدایتکار کیفی کی فلم ”الٹی میٹم“ ( 1976 ) ، فلم ”جگا ٹیکس“ ، فلم ”روٹی کپڑا اور انسان“ ( 1977 ) ، ڈائریکٹر رحمت علی کی فلم ”جرم تے انصاف“ ( 1979 ) اور ہدایتکار ظہیر احمد نقش کی فلم ”نذرا“ ( 1983 ) قابل ذکر ہیں۔

قمر عالی کے والد نے بطور فلمساز اور ہدایتکار پنجابی فلم ”یاریاں“ بنائی جس کی کاسٹ میں اداکار غزالہ، عنایت حسین بھٹی، سلطان راہی اور مظہر شاہ شامل تھے۔ شومئی قسمت یہ فلم نمائش کے لئے پیش نہ ہو سکی۔ دوران تربیت فلمساز و ہدایتکار عنایت حسین بھٹی اور کیفی قمر عالی کے کام اور حسن اخلاق سے از حد متاثر ہوئے۔ قمر اس شعبے کو جاری رکھنا نہیں چاہتے تھے بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔ بھٹی پکچرز جب کوئی نئی فلم بنانے کا ارادہ کرتے قمر عالی کو زبردستی گھر سے بلوا لیتے، بالآخر گھرداری کے اخراجات اور بھٹی برادران کی شفقت اور محبت نے قمر عالی کو فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ وہ والد کے پیشے کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر اپنا لے اور منفرد کام کر کے دکھائے۔

عام اندازے کے مطابق قمر عالی نے 400 سے زائد فلموں کے لئے فنکاروں کے کردار کے لحاظ سے متاثر کن میک اپ اور گٹ اپ کر کے عزت، نام، مقام اور دام کمایا۔ بلکہ کئی مرتبہ فلم میکرز نے طے شدہ معاوضہ کے علاوہ انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ ہدایتکار آغا حسن عسکری کی پنجابی فلم ”باؤ بدمعاش“ ( 2005 ) کے لئے اداکار راشد محمود کے گٹ اپ پر 5000 روپے، فلم ”سوہنی مہینوال“ کے لئے معمر رانا کے گٹ اپ کے لئے فلمساز ریاض گجر اور ہدایتکار رشید ڈوگر نے ایک ایک ہزار روپیہ انعام دیا۔

مادام سنگیتا کی فلم ”جہاد“ ( 2002 ) کے لئے پہلی بار اداکار شان کو داڑھی مونچھ لگائی۔

ہدایتکار پرویز رانا کی پنجابی فلم ”جٹ دا ویر“ ( 2003 ) کے لئے اداکار یوسف خان کے گٹ اپ پر دو ہزار جبکہ ہدایتکار حسنین کی پنجابی فلم ”ضدی“ ( 1998 ) کے لئے فنکاروں کے میک اپ کے لئے اسٹوڈیوز کے دوسرے معروف میک اپ مین کی خدمات حاصل کی گئیں تھی مگر اداکار طارق شاہ کی فرمائش پر اس کے منفرد گٹ اپ کے لئے قمر عالی کو بلوایا گیا۔ اتنا متاثر کن گٹ اپ دیکھ کر طارق شاہ اور حسنین نے علیحدہ علیحدہ پانچ پانچ ہزار کے انعام سے نوازا۔ یاد رہے کہ اس دور میں ہزار روپیہ ایک رقم ہوتی تھی۔

ماضی میں ’فلمی خون‘ کے نام پر استعمال ہونے والا محلول گلابی رنگ کا ہوتا تھا۔ سرخ رنگ کے خون کی ایجاد قمر عالی کی تخلیق ہے۔

لالی وڈ میں جب فلم میکنگ کی تعداد کم ہونے لگی تو ٹیلی وژن چینلز نے قمر عالی کی خدمات سے استفادہ کیا۔ ان گنت ڈراموں، سٹ کام اور لونگ پلے کے لئے فنکاروں کے دیدہ زیب متاثر کن میک اپ اور گٹ اپ کیے ۔ انہوں نے ہدایت کار سکندر سے ایس ٹی این کے لئے لانگ پلے بنوایا جن کے مرکزی کردار اداکارہ زیب چوہدری اور نعمان اعجاز نے ادا کیے ۔ لانگ پلے آن ائر گیا مگر ادائیگی سے قبل ایس ٹی این اپنے انجام کو پہنچ کر بند ہو گیا۔ قمر عالی نے پسماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ بڑا بیٹا بیرون ملک ملازمت کرتا ہے۔ پاک فلم انڈسٹری میں ماضی کے نامور میک اپ مین منور حسین چھوٹا قمر عالی کے خالہ زاد تھے ”۔

ظفر اقبال نے مزید فون پر بتایا کہ قمر عالی صاحب انتقال سے پہلے سنگیتا بیگم کے ٹی وی ڈرامے ”بلھے شاہ“ اور ”دو بوند پانی“ کر رہے تھے۔

جو آئے وہ جائے رہے نام اللہ کا۔
۔
اختتام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).