ڈاکٹر شیر شاہ سید کی نئی تالیف: خواجہ غلام عباس کا نیا سنسار


معاف کیجیے گا مجھے عہد ساز لوگوں کی زندگیوں میں تاک جھانک کی کچھ عادت سی ہے۔ اکثر میں ان کی زندگی کی بابت تحقیقی کھدائی میں مصروف عمل رہتی ہوں۔ اس طرح غیر شعوری طور پہ اپنی تحریر کو آئینہ کرنا اور دوسروں کی غیر معمولی شخصیت کے درشن کروانا غالباً میرا فطری رجحان اور شوق ہے۔

تاہم مجھے افسوس ہے کہ اردو کے بڑے ادیب، فلمساز اور کالم نگار خواجہ احمد عباس کے فن سے میری ملاقات خال خال ہی رہی۔ کچھ افسانے اور ایک آدھ مشہور فلمیں اور بس۔ حالانکہ وہ تو میرے عہد کی ہی پیدا وار تھے۔ لیکن میں خواجہ احمد عباس کے معترف ادیب مجتبیٰ حسین سے متفق ہوں کہ ”ایک سچے ادیب اور کھرے فنکار سے کسی کی وابستگی زماں و مکاں کی پابند نہیں ہوتی۔“ میں ڈاکٹر شیر شاہ سید کی شکر گزار ہوں کہ جن کی نئی کتاب ”خواجہ احمد عباس کا نیا سنسار“ سے مجھے ان کی زندگی میں جھانکنے کی مہمیز ملی۔

”خواجہ احمد عباس کا نیا سنسار“ منتخب مضامین، انٹرویوز اور انکے افسانوں پہ مشتمل بہت دلچسپ کتاب ہے۔ اس کتاب میں آٹھ عدد خود ان کے لکھے ہوئے مضامین، کرشن چندر اور وی پی سیٹھے کے لیے خواجہ احمد عباس کے دلچسپ اور غیر روایتی انداز میں لیے انٹرویو، اور وہ منتخب افسانے ہیں (بشمول ان کا 1935ء میں چھپنے والا پہلا اور عالمی شہرت یافتہ افسانہ ابابیل) کہ جنہوں نے انہیں اردو ادب کے اہم افسانہ نگاروں کی صف میں کھڑا کر دیا۔

اس کے علاوہ ان کے کچھ مضامین ان مشہور شخصیات پہ بھی ہیں، جنہوں نے خواجہ احمد عباس کو متاثر کیا۔ کچھ سپاس نامے فلم نگر کی قد آور شخصیات مثلاً امیتابھ بچن اور شبانہ اعظمی کے ہیں۔ اس کتاب کے لیے ڈاکٹر خورشید حسنین کا اپنے لاڈ اٹھانے والے ماموں جان کے لیے دل کی گہرائیوں سے لکھا مضمون ذاتی حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔

تمام انگریزی تحاریر کا ڈاکٹر شیر شاہ سید نے بہت چاہ اور لگن سے ترجمہ کیا ہے۔ یہ تخلیقات انگریزی زبان میں چھپنے والی کتاب سے منتخب کی گئی ہیں جو خواجہ عباس میموریل ٹرسٹ نے 2015ء میں بمبئی سے شائع کی۔ شیر شاہ نے اپنے پسندیدہ افسانہ نگار اور فلم ڈائریکٹر پہ تالیف کتاب کے پیش لفظ میں لکھا، ”ان کی زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ انہوں جو بھی لکھا، دل سے لکھا، چاہے وہ افسانے ہوں یا اخباری کالم۔ کسی فلم کا اسکرپٹ ہو یا کوئی ڈرامہ یا ناٹک۔ وہ سوچنے سمجھنے والے نظریاتی انسان تھے۔“

اپنے مضمون ”آئینہ خانے میں“ جو خواجہ احمد عباس نے ساٹھ برس کی عمر میں لکھا، اپنے آپ سے ملاقات وہ کچھ اس طرح کرواتے ہیں۔

”ایک چھوٹے قد کا گنجا سا آدمی، چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ آنکھوں کے گرد کالے کالے حلقے۔ جیسے کتنی ہی راتوں سے نہ سویا ہو۔ چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں تو نہیں ہیں مگر ماتھے پر گہری لکیریں بتا رہی ہیں کہ غم کے کتنے ہی طوفان اس پر سے گزر گئے ہیں۔ جیسے اس کی زندگی کا ہر برس سات سو تیس دن کا گزرا ہو۔“

اسی مضمون میں آگے اپنے پیشہ کے متعلق لکھتے ہیں۔ ”ادیب اور نقاد کہتے ہیں میں ایک اخبار چی ہوں۔ جرنلسٹ کہتے ہیں میں فلم والا ہوں۔ فلم والے کہتے ہیں میں ایک سیاسی پروپیگنڈسٹ ہوں۔ سیاست داں کہتے ہیں میں کمیونسٹ ہوں، کمیونسٹ کہتے ہیں میں بورژوا ہوں۔“

خواجہ احمد عباس جون 1941ء میں پانی پت میں ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے پڑ نانا الطاف حسین حالی تھے۔ ننھیال کا ورثہ ادب ٹھہرا تو والد خواجہ سبطین عباس بھی سچائی، حق گوئی اور سماجی اصطلاحات کے زبردست داعی تھے۔ جو سادگی کے قائل اور غیر ضروری اور مہنگی تقریبات کو بہت برا اور غیر اسلامی مانتے تھے۔ اپنے مضمون ”ابراہیم کا بیٹا“ میں وہ لکھتے ہیں کہ ابھی وہ پالنے میں دودھ پیتے چھ ماہ کے بچے تھے کہ خاندان میں شادی پہ کی جانے والی فضول خرچی پہ احتجاجاً ان کے والد نے بچے کو گود میں لیا اور گھر سے دور سرائے والے ایک مکان میں لے آئے۔

جہاں وہ خود بھی بھوکے رہے اور بچہ بھی دودھ کے لیے بلکتا رہا۔ مگر انہوں نے اس وقت تک دروازہ نہیں کھولا جب عورتوں نے قرآن کی قسم کھا کر یہ وعدہ نہیں لیا کہ شادی دھوم دھام سے نہیں ہوگی اور نہ ہی نفرت انگیز طریقوں سے شان و شوکت دکھائی جائے گی۔ اس طرح باپ کا دیا سماجی اصلاحات کا جذبہ پنگھوڑے سے ہی ان کا ساتھی بنا۔

اپنے لکھاری بننے کی شروعات کی انہوں نے تین وجوہات دیں۔ پہلی تو ہے ان کا ٹھگنا قد دبلا پتلا جسم اور مشکوک صحت۔ جس کی وجہ سے وہ خواہش کے باوجود کھلاڑی تو نہ بن سکے مگر یونین کی تقاریر اور یونیورسٹی میگزین میں لکھ کر اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ دوسری وجہ برطانوی سامراجیت جس نے انہیں مقرر، جرنلسٹ اور پھر مصنف بنا یا۔ ”میں نے سوچا سامراج کے خلاف میرا ہتھیار میری آواز ہوگی۔ میرا قلم ہو گا۔“ تیسری وجہ ان کی اٹھارہ برس میں شدید محبت اور اکیس برس میں اس کی ناکامیابی۔ وہ لکھتے ہیں، ”ہر ایک ناکام عاشق افسانہ نگار نہیں بن سکتا مگر اس کو افسانہ نگار بنانے میں اس کی محبت کی ناکامی بھی مدد کر سکتی ہے۔“

انڈین فلموں کی ساحرہ، مینا کماری پہ ان کا مضمون، اس با کمال اداکارہ کے باطنی حسن سے متعارف کراتا ہے، جو کسی کردار میں ڈھلنے کے لیے اس کے دکھ اور درد میں ڈوب جاتی۔ ایک فلم میں وہ چمارن کا روپ دھارتی ہے۔ ”سارے دن اس جلتی ہوئی دھوپ میں، ان جلتے ہوئے پتھروں پر “ چاؤلی چمارن ”ننگے پاؤں چلتی رہی، دوڑتی رہی، بھاری کھدال سے پتھر توڑتی رہی، مگر جب لنچ کی چھٹی ہوئی تب بھی مینا کماری نے سینڈل نہیں پہنے۔ اسے اپنے آرٹ سے محبت ہی نہیں عشق تھا۔“

ان کا بہت دلچسپ مضمون ”وصیت“ خاص نوعیت کا حامل ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے جنازے اور موت کے بعد سے متعلق ہدایات دی ہیں۔

”میں خواجہ احمد عباس، عمر تہتر سال، بہ ہوش و حواس اپنی زندگی کے اختتام پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر آدمی 70 سال سے زائد زندگی نہیں گزار پاتا لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ کوئی میری موت پر نہ روئے اور نہ ہی آہ و فغاں برپا کرے۔“

انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی مجی، جو ان کی بہترین دوست بھی تھیں، کے قریب دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی ”یہ جانتے ہوئے کہ وہ اب تک مٹی بن چکی ہوگی۔ اس کے باوجود میں چاہوں گا کہ میں اس کے قریب ہی مٹی بن جاؤں۔“

انہوں نے کسی تعزیتی جلسہ کے بجائے ہدایت کی کہ ”جلسہ نہ ہو بلکہ میری موت کا جشن ہو جس میں سارے مذاہب کے ماننے والے شامل ہوں۔ انہوں نے اپنے کفن کے ساتھ اپنے مشہور کالمز لاسٹ پیج اور آزاد قلم دفنانے کی وصیت بھی کی۔“ کیونکہ میں ان کے لیے ہی زندہ رہا اور ان کے لیے ہی مرا ہوں۔ ”

اپنے مضمون کا اختتام میں اسی مضمون کے آخری پیراگراف پہ کرتی ہوں، کیونکہ اس کے بعد میرے لکھنے کے لیے کچھ نہیں رہا۔

”مجھے نہیں پتہ ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے لیکن اگر آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو میری70 سے زیادہ کتابوں میں سے کسی بھی کتاب کھولیں اور پڑھنا شروع کر دیں، میں وہاں مل جاؤں گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ مجھ سے بات کرنا چاہیں تو میری کوئی فلم دیکھیں جو میں نے بنائی ہے، میں آپ کو وہاں مل جاؤں گا۔ اب چلتا ہوں۔
محبت۔ محبت اور صرف محبت۔
خواجہ احمد عباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments