ناول انکشاف قسط 2


”اس کی موت کے آدھے ذمہ دار تو تم خود ہو بابا۔ تم خود“ ۔ اصفہان نے منہ جھکا کر، بہت مشکل سے یہ الفاظ ادا تو کر دیے، مگر دل ہی دل میں پچھتا یا بھی، کہ یہ بات کرنے کا محل نہ تھا۔ مگر وہ بابا کی حماقت، اس کی جہالت اور ضد پہ شدید طیش بھی کھا رہا تھا۔ ”تم ٹھیک ہی کہتے ہو میرے بچے۔ کاش میں نے تمہاری بات پہلے مان لی ہوتی، تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔“ وہ اپنے بچے کی قبر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بول رہا تھا۔

سورج اب مکمل طور پہ غروب ہو چکا تھا، اور درختوں پہ پرندوں کے چہچہانے کا شور تھا۔ اتنا بڑا قبرستان اور اس میں صرف دو انسان اس وقت موجود تھے۔ عموماً انسان پہ جب غم کی کیفیت طاری ہوتی ہے، تو وہ تنہائی مانگتا ہے تاکہ رو کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکے، مگر اس وقت عبدالشکور کے پاس دوسرے انسان کی موجودگی نہایت ضروری اور اہم تھی۔ کیونکہ شام کے وقت قبرستان کا سناٹا اس قدر خوفناک تاثر پیدا کرتا ہے، کہ انسان کا جسم تو کیا روح تک ڈر جاتی ہے۔ لیکن ایسے موقع پر کسی شخص کے ساتھ اگر کوئی مونس اور غمگسار موجود ہو، تو پھر یہ سناٹا اور تنہائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

اصفہان کے بار بار اسرار اور تقاضے پر عبدالشکور بادل نخواستہ بیٹے کی قبر سے اٹھ کھڑا ہوا اور واپسی کی سمت چل پڑا۔ قبریں چونکہ ایک سیدھ میں نہیں، بلکہ آڑی ترچھی لگی ہوئی تھیں، لہذا وہ بار بار راستہ تبدیل کرتے اور اس احتیاط کے ساتھ چلتے کہ کہیں ان کے پاؤں کسی قبر کے اوپر نہ آجائیں۔ تقریباً دس منٹ قبرستان کے اندر مختلف پگڈنڈیوں کے اوپر چلتے ہوئے، وہ بالآخر مرکزی پھاٹک تک پہنچ گئے، اور پھر شہر کے اندر داخل ہو گئے۔

اب رات کا وقت ہو چکا تھا اور سبھی گھروں میں بلب جل رہے تھے۔ کسی کے گھر سے ٹی وی کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، تو کہیں رات کا کھانا پک رہا تھا۔ سڑک پہ رکشوں اور گاڑیوں کا شور اور دھواں اس قدر زیادہ تھا، کہ انسان کا کسی سے بات کرنا اور سانس لینا محال ہو رہا تھا۔ وہ گاڑیوں اور رکشوں کی ٹکر سے بچتے، تو موٹر سائیکل سامنے آ جاتا، اس سے اپنے آپ کو بچاتے تو گندے نالے کے اندر گرتے گرتے بچتے۔ اصفہان تو خیر ایک نوجوان تھا، جو تیزی سے ردعمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ کر لیتا، مگر اصل مسئلہ عبدالشکور کا تھا، جو بوڑھا ہونے کے ساتھ ساتھ اب اس قدر بیٹے کے غم میں کھویا ہوا تھا، کہ وہ اس شور و غوغا اور ٹریفک کی مشکلات سے بے نیاز بس اصفہان کا ہاتھ تھامے، اس کے پیچھے پیچھے یوں چل رہا تھا جیسے کسی مردے کو چارپائی پہ لاد کے قبرستان جاتے ہیں۔

کہیں گدھا گاڑی والے نے راستہ روک کر ، ٹریفک کو جام کر رکھا تھا، تو کہیں دودھ والا بیچ روڈ گاڑی لگا کر دودھ بیچ رہا تھا۔ ایک طرف سے کچھ بچے ٹیوشن پڑھ کر ، کمر پہ بستہ لٹکائے، تھکے ماندے جسم کے ساتھ گھروں کو واپس جا رہے تھے، تو دوسری طرف ایک سستے ہوٹل کے آگے سستا کھانے لینے کے لئے مزدوروں کی لمبی قطار بنی ہوئی تھی۔

”حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں۔ آج رات دس بجے شباب سنیما میں فلمسٹار آرزو جان کی نئی فلم کا پہلا شو شروع ہو گا۔“ ایک سوزوکی پہ بیٹھا ہوا شخص، ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اعلان کر رہا تھا۔ ”دیکھنا نہ بھولیے۔ آپ کی، ہم سب کی پیاری، آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کی جان میڈم آرزو جان کی نئی فلم پیار پیار میں کا پہلا شو رات دس بجے صرف شباب سنیما میں۔ ہفتہ اتوار تین شو۔“ ۔ انہوں نے بس یہی تک اعلان سنا کہ پھر وہ سوزوکی راستہ بدل کر ، ایک دوسری سڑک پر چل پڑی۔ چھوٹے بچے اور منچلے نوجوان سوزوکی کے پیچھے یوں پاگلوں کی طرح بے مقصد بھاگ رہے تھے، کہ گویا گاڑی والا مفت میں چاول تقسیم کر رہا ہے۔

” اسے دیکھو!“ بابا کے لبوں پہ ایک غمگین سی مسکراہٹ ابھری، ”یہاں میرا جوان بیٹا مر گیا اور کوئی پوچھنے تک نہ آیا، اور ادھر لوگ ایک خالی سوزوکی کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔“ ۔ بابا سوزوکی کے پیچھے بھاگتے بچوں اور منچلے نوجوانوں کو دیکھ کر بولا۔ ”ارے بابا! غریب کو زندگی میں کوئی نہیں پوچھتا، تو مرنے پہ کوئی بھلا کیوں آنے لگا“ ۔ اصفہان نے بابا کا ہاتھ تھامے اسے ٹریفک سے بچاتے، سائیڈوں سے گزارتے زندگی کا فلسفہ اور تلخ حقیقت بتا رہا تھا۔

”تم ٹھیک کہتے ہو بچے۔ خدا کسی کو غربت کا عذاب نہ دے۔ یہ تمام عذابوں سے زیادہ سخت اور دردناک ہے“ ۔ بابا جی اصفہان کے پیچھے تیزی سے چلتا ہوا، اکھڑی ہوئی سانس میں باتیں کرتا جا رہا تھا۔ ”غربت عذاب نہیں بلکہ خدا کی آزمائش ہے بابا۔ وہ ہر کسی کو امیر بھی کر سکتا تھا۔ مگر ۔ خیر رہنے دو ان باتوں کو “ اصفہان نے بابا کو مزید الجھن میں ڈالنے کی بجائے بات کو وہیں ختم کرنا مناسب سمجھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments