عوام حقیقی ایٹم بم


1960 میں شمالی اور جنوبی ویتنام میں گھمسان کی لڑائی جاری تھی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی (برطانیہ، فرانس) جنوبی ویتنام کی خوب مالی اور عسکری مدد کر رہے تھے۔ دوسری طرف روس اور چائنہ ’شمالی ویتنام کی پشت پر کھڑے تھے۔ دراصل یہ امریکہ اور روس میں سرد جنگ کا دور تھا‘ جس میں امریکہ سرمایہ داری نظام اور جبکہ روس کمیونزم کو بڑھاوا دے رہا تھا۔ امریکہ خیال کرتا تھا شمالی ویتنام جو کہ کمیونزم نظریہ کا حامی ہے اگر اس نے جنوبی ویتنام پر قبضہ کر لیا تو کمیونزم آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل جائے گا ’جو کہ ایک دن اس کی اپنی بقا کا خطرہ بن سکتا ہے۔

اس جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے شمالی ویتنام کے خلاف اپنے پانچ لاکھ سے زائد فوجیوں کو جنگ میں اتار دیا۔ شروع میں تو اس کو کافی تیزی سے کامیابیاں ملتی رہیں لیکن اسی دوران دو ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے اس جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ پہلا واقعہ Tet offensive تھا یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی جس میں شمالی ویتنام کی فورسز نے جنوبی ویتنام میں بڑے پیمانے پر فوجی چھاؤنیوں پر اچانک حملے شروع کر دیے جس سے امریکی سمیت ہزاروں فوجی مارے گئے۔

اسی دوران غصے سے بھرے امریکی فوجیوں نے جنوبی ویتنام کے ایک گاؤں میں پانچ سو سے زائد نہتے شہریوں کا نہ صرف قتل عام کیا بلکہ چھوٹے بچوں اور عورتوں کو اجتماعی زیادتیوں کا نشانہ بنا کر ان کی لاشوں کو مسخ کر دیا‘ تاریخ اس وحشت کو مائی لائی قتل عام کے نام سے درج کرتی ہے۔ اس بھیانک قتل عام کی تصاویر جب امریکہ پہنچی تو پورے ملک میں کھلبلی سی مچ گئی۔ اور اوپر سے جب ہزاروں فوجیوں کی لاشوں بھرے تابوت امریکہ واپس پہنچے تو سارا ملک سڑکوں پر نکل آیا۔

لوگوں نے شہر شہر حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے ’عوام کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا فوراً امریکی فوجیوں کو واپس اپنے ملک بلایا جائے۔ ان کا خیال تھا کسی قیمت پر امریکی بچے اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی دوسرے کی جنگ کا ایندھن نہیں بننا چاہیے۔ امریکی میڈیا میں بھی اس جنگ کے خلاف خوب کوریج شروع ہو گئی۔ اور بات یہاں تک آ پہنچی کہ اس وقت کی حکومت کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی دباؤ اس قدر بڑھ گیا کہ حکومت کو گھٹنے ٹیک کر فوجوں کو واپس بلانا پڑا۔

لہذا امریکہ کو لاکھوں ٹن بم برسانے اور ہزاروں فوجی مروانے کے بعد بھی اس جنگ میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی فوج کی اصل طاقت اس کی عوام ہوتی ہے۔ اگر عوام فوج کے پیچھے کھڑی ہے تو وہ مشکل سے مشکل معرکے میں سرخ رو ہو جائے گی۔ اور اگر اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تو فوج چاہے سپر پاور کی کیوں نہ ہو ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بلکہ پاکستان اور انڈیا میں ہونے والی دو جنگیں 1971 اور 1965 اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

1965 میں جب دشمن فوج نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستانی عوام نے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر دشمن کے تمام نا پاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اور جب اسی دشمن فوج نے 1971 میں مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ بلاشک اس کی وجہ مشرقی پاکستان کے عوام کی حمایت کا حاصل نہ ہونا تھا۔ اگر پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو عوام جہاں اپنی محرومیوں کا ذمہ دار سیاستدانوں کی نا اہلیوں کو سمجھتے ہیں۔

وہی ان کا خیال ہے پاک فوج کا مسلسل پچھتر سالوں سے سیاست میں مداخلت کرنا بھی پاکستان کی اس خستہ حالی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یقیناً فوج مخالف نعروں کا پاکستان کے بڑے بڑے شہروں لاہور، کراچی، فیصل آباد، کوئٹہ اور پشاور میں گونجنا طاقت ور حلقوں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں سے گھیرا ہوا اور کوئی بھی دشمن طاقت اس تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1971 جیسے سانحہ کو دہرا سکتی ہے۔ اسی طرح حکومت کسی بھی پارٹی کی کیوں نہ ہو اگر ان سے حکومتی کارگردگی پر سوال کیا جائے تو وہ اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ اسٹیبلیشمنٹ پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر لیتی ہے۔

لہذا وقت کی ضرورت یہی ہے پاک فوج اپنے حلف اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 243,244 کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو سویلین حکومت کے تابع کرے۔ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 1948، جون 14 کو آرمی سٹاف کالج کوئٹہ میں کی گئی تقریر جس میں وہ مسلح افواج کو عوام کے خدمت گزار اور سویلین معاملات سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہے اس پر پورا اترے۔ کیونکہ ملٹری پر لکھی گئی مشہور کتابیں ہو یا نام ور فوجی تجزیہ نگار سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کسی بھی فوج کی اصل طاقت اس کی عوام ہوتی ہے۔ اگر صرف ایٹم بم کسی ملک کی سیکورٹی کے لئے کا فی ہوتا تو روس جیسی سپر پاور ایٹم بم کے انبار ہونے کے باوجود کبھی ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتی۔ لہذا کسی بھی ملک کا حقیقی ایٹم بم اس کی عوام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments