وقت کی ضرورت یا پولیٹیکل انجینیئرنگ: استحکام پاکستان پارٹی کیا صرف تحریک انصاف کے لیے ہی چیلنج ثابت ہو گی؟

احمد اعجاز - صحافی


 

استحکام پاکستان

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں تواتر کے ساتھ نئی سیاسی جماعتوں کی بنیاد پڑتی رہی ہے اور عمومی طور پر انتخابات سے قبل کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی توڑ پھوڑ سے نیا سیاسی اتحاد قائم ہوا یا نئی پارٹی کی بنیاد پڑتی رہی ہے۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔بلوچستان میں، ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ کی بنیاد پڑی تو جنوبی پنجاب میں ’صوبہ محاذ اتحاد‘ بنا جو بعدازاں پی ٹی آئی میں ضم ہوا۔ بظاہر سنہ 2018کے الیکشن سے قبل سیاسی سطح پر جس طرح کی اُتھل پتھل ہوئی، ویسا ہی کچھ عمل موجودہ لمحات میں جاری ہے۔

جہانگیر خان ترین،جن کی اہمیت 2018کے الیکشن کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سازی کے لیے بڑی نمایاں رہی تھی اس وقت پھرسیاسی منظر نامے میں اہم حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ جہانگیر خان ترین نے 9 مئی کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں سیاسی روابط کا سلسلہ تیز کیا تھا جس کا نتیجہ آج ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کی صورت سامنے آ چکا ہے۔

مگر بہت سے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ نوزائیدہ جماعت پی ٹی آئی کے لیے ہی چیلنج ثابت ہو گی یا دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی خطرہ ہے؟ اس جماعت کا اثرورسوخ پاکستان کے کن علاقوں میں زیادہ ہو گا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ الیکشن سے قبل نئے سیاسی اتحاد اور جماعتیں قائم ہوتی ہیں اور اِن کے پیچھے مقاصد کیا ہوتے ہیں اور کیا ایسی جماعتوں کا وجود سیاسی نظام کو استحکام سے ہمکنار کرتا ہے یا غیر مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے؟

اس رپورٹ میں اِن سب پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا مگر پہلے یہ پڑھیے کہ پاکستان میں ’ضرورت کے تحت‘ کب کب نئی سیاسی جماعتیں بنائی جاتی رہیں اور ان کے مقاصد کا دائرہ کار کیا رہا؟

’ریپبلکن پارٹی‘ سے ’استحکام پاکستان پارٹی‘ تک سیاسی جماعتوں کی قیام کیوں اور کیسے ہوتا رہا؟

اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طول دینے کے لیے سب سے پہلے گورنر جنرل اور ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا کو ایک پارٹی کی ضرورت پڑی۔یہ وہ دَور تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کمزور پڑ چکی تھی۔

اسکندر مرزا نے ستمبر 1956 میں ریپبلکن پارٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے نائب صدر بن گئے۔ مگر یہ پارٹی آگے چل کر کوئی خاص مقبولیت حاصل نہ کر سکی۔

اس کے بعد سنہ 1962 میں جنرل ایوب خان نے ایک سیاسی جماعت ’کنونشن مسلم لیگ‘ کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کی تشکیل میں مسلم لیگ کے اس وقت کے کئی سرکردہ رہنماؤں نے ایوب خان کا ساتھ دیا، مگر یہ سیاسی جماعت ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی غروب ہو گئی۔

اپنی تشکیل کے فقط آٹھ سال بعد سنہ 1970کے انتخابات میں کنونشن مسلم لیگ نے قومی اسمبلی کی 124سیٹوں پر اپنے اُمیدوار کھڑے کیے، مگر یہ جماعت محض دو سیٹیں ہی جیت سکی اور اِن انتخابات کے بعد یہ جماعت قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مطابق ’ایوب خان کی جماعت زمین داروں،صنعت کاروں اور مراعات یافتہ طبقات کے بے تحاشہ اختیارات کی مالک حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات جوڑے رکھنے اور سرکاری سرپرستی حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ضرورتھی، مگر اس نظام کا یہ رُخ بھی اقتدار کو سہارا نہیں دے سکا اور عوامی احتجاج کے شروع ہوتے ہی ایوب کے بھرتی کیے ہوئے سیاسی کارندے انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘

ایوب
سنہ 1962 میں جنرل ایوب خان نے ایک سیاسی جماعت ’کنونشن مسلم لیگ‘ کی بنیاد رکھی، اس جماعت کی تشکیل میں مسلم لیگ کے اس وقت کے کئی سرکردہ رہنماؤں نے ایوب خان کا ساتھ دیا

جنرل ضیا کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک کے مقتدر حلقوں نے عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کِیا۔ اگرچہ اس وقت بھی شد و مد سے یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ جنرل ضیا کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہے مگر انتخابات سے قبل 1988میں اُن سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کِیا گیا جو ضیا کے افکار کی آئینہ دار تھیں۔

اس پلیٹ فارم کو ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ کا نام دیا گیا۔اس نئے سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل کا بنیادی مقصد پیپلز پارٹی کے خلاف نئی صف آرائی کرنا تھی۔ سنہ 1985کے الیکشن جنرل ضیا نے غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے تھے مگر 1988 کے الیکشن میں اُن کو پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں ایک سیاسی جماعت کی ضرورت تھی۔

اور بعد ازاں اسی ’آئی جے آئی‘ کے بطن سے مسلم لیگ پھوٹی۔

جنرل مشرف نے اکتوبر 1999 میں اقتدار پر قبضہ کیا اور 2002 میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔جنرل مشرف نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو توڑ کر مسلم لیگ ق کی تشکیل کی۔

انتخابات میں مسلم لیگ ق نے عددی طور پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں زیادہ سیٹیں لیں۔ دوسری طرف الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی سے ’پیپلز پارٹی پیٹریاٹ‘ بنوائی گئی جس میں آفتاب شیرپاؤ،فیصل صالح حیات اور ڈاکٹر شیر افگن جیسے اہم لوگ شامل تھے اور اس نئی جماعت نے بھی مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

ق لیگ نے اگرچہ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد اپنی پہلی سے مقبولیت کھو دی مگر یہ جماعت آج کے سیاسی منظرنامہ میں بھی اہم فیکٹر کے طور پر موجود ہے اس سے قطع نظر کہ پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت کے مابین فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔

اسی طرح مارچ 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی(باپ)کے قیام کا اعلان کیا گیا۔اس پارٹی میں مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان کو جگہ ملی اور ق لیگ میں شامل کئی رہنما بھی اس میں شامل ہوئے۔2018کے صوبائی انتخابات کے نتیجے میں وزارتِ اعلیٰ، بلوچستان عوامی پارٹی کے حصہ میں آئی اس سے قطع نظر کہ اس سیاسی جماعت کا قیام انتخابات سے فقط چار ماہ پہلے عمل میں آیا تھا۔

انتخابات سے قبل ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کی ضرورت آخر کیوں؟

استحکام پاکستان پارٹی

مختلف ادوار میں سیاسی اتحاد اور جماعتیں بنتی ٹوٹتیں رہی ہیں اور سیاسی ادوار اور دورِ آمریت میں نئے نئے سیاسی بندوبست کیے جاتے رہے ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کی بات کی جائے تو بظاہر اس میں بڑی تعداد میں وہ سیاسی رہنما شامل ہیں جو نو مئی کے واقعے سے قبل تحریک انصاف کا حصہ تھے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اس نئی پارٹی کی بنیاد صرف 9 مئی کے واقعات کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انتخابی سیاست کے اُمور کے ماہر احمد بلال محبوب کہتے ہیں ’پاکستان میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں تقریباً مصنوعی طریقوں سے تشکیل پاتی رہی ہیں۔ اگر تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی جماعتوں کے پیچھے طاقتور لوگ ہوتے ہیں جو مکمل پلاننگ کرتے ہیں اور نئی جماعت کا سٹرکچر ڈیزائن کرتے ہیں۔ اور یہ یہ کون لوگ ہوتے ہیں، یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ کن لوگوں نے آئی جے آئی کو بنوایا تھا، کن لوگوں نے مسلم لیگ ق کو بنوایا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کا بنیادی مقصد طاقتور لوگوں کی اجارہ داری قائم رکھنا ہوتا ہے۔ مگر کچھ عرصے میں جب کوئی سیاسی جماعت اتنی پرورش پا جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ پر اعتمادکرنے لگ پڑتی ہے یا تابع رہنا پسند نہیں کرتی تو اس کے بعد ایک بار پھر نئی سیاسی جماعت کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‘

نئی پارٹی کی تشکیل، پولیٹیکل انجینیئرنگ کا پُرانا کھیل؟

اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ملکی سیاسی نظام کو استحکام کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی یا یہ سب بھی پولیٹیکل انجینیئرنگ کا پُرانا کھیل ہے؟

احمد بلال محبوب کہتے ہیں ’پاکستان میں نئی سیاسی جماعتوں کا قیام صرف انتخابات کے وقت ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس سے پہلے بھی یہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جینوئن تحریک یا ضرورت کے نتیجے میں یا کچھ لوگوں کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں سیاسی جماعت وجود میں آئے۔ ماضی میں شاید چند جماعتوں کی تشکیل ممکن ہے کہ جینوئن ہوئی ہو مگر تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ عموماً ایسا نہیں ہوا۔‘

’اگر ریپبلکن پارٹی کی بات کریں تو یہ اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ یعنی اسکندر مرزا اور اُن کے ساتھیوں کی سوچ کا نتیجہ تھی۔ اسی طرح پارٹیوں میں شامل ہونے والوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے،اُن کے بھی اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔اُنھوں نے اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ایسے تمام لوگ نئی پارٹی میں جمع ہو کر اُس کوتقویت دیتے ہیں۔‘

تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’اس وقت پولیٹیکل انجینیئرنگ کی بالکل کوشش ہوئی اور لگاتار ہو رہی ہے،لیکن بظاہر یہ اُس طرز پر مؤثر نہیں،جس طرز کی 2018 میں تھی۔ الیکٹیبلز تو پارٹیاں بدل سکتے ہیں، ایک پارٹی سے دوسری میں جا سکتے ہیں مگر ووٹرز کا معاملہ الگ ہے۔‘

یہی سوال جب اینکر ابصٰی کومل کے سامنے رکھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں کا رویہ، اپوزیشن اور حکومت میں ہوتے ہوئے تبدیل ہو جاتا ہے۔2018کے الیکشن میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کے ساتھ پولیٹیکل انجینئرنگ ہوئی تھی جبکہ آنے والے الیکشن کے بعد شاید ہم کہہ سکیں گے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو 2018میں مذکورہ دونوں جماعتوں کے ساتھ ہوا تھا۔‘

استحکام پاکستان پارٹی کیا کسی تحریک کا نتیجہ ہے؟

استحکام پاکستان

پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کی ہمیشہ سے یہ عمومی سوچ رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت بالخصوص نئی سیاسی جماعت اقتدار کی رہداریوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔

اس عمومی سوچ کے پیچھے ایک بڑی وجہ شاید یہ رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی ضرورت کے تحت بعض سیاسی جماعتوں کی تشکیل کرتی رہی ہے۔

اس حوالے سے احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’جہانگیر ترین اس وقت نااہل ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ اِن کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔اس میں حقیقت ہے یا نہیں،لیکن تاثر کے حوالے سے اس میں اہم بات یہ ہے کہ اگر تاثر نہ ٹوٹے تو بہت سے لوگوں کو یہ اپنی طرف کھینچے گا، اُن کو متاثر کرے گا۔ جن کو اقتدار میں رہنا ہوتا ہے وہ کسی ایسی جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں،جس کے اُوپر اسٹیبلشمنٹ کا سایہ ہو۔‘

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’ایسی جماعتوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔اس ملک کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ یہاں جس طرح کنگ پارٹیاں بنائی جاتی ہیں،ویسے ہی وہ ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ پی ایم ایل این پر اسٹیبلشمنٹ کا دستِ شفقت رہا،مگر مشرف کے اقتدار پر قبضے اور میثاقِ جمہوریت کے بعد، اس پارٹی میں ایک نظریہ ضرور پیدا ہوا۔مگر پی ٹی آئی جس طرح بنی، اُسی طرح بکھر رہی ہے۔ممکن ہے کہ جہانگیر ترین اسٹیبلشمنٹ کی اس وقت ترجیح ہوں۔‘

ابصٰی کومل کا کہنا ہے ’میری اس حوالے سے بہت سارے لوگوں سے بات ہوئی ہے۔مَیں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جہانگیر ترین کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے کہ نہیں؟ مگر اس ضمن میں ابہام ہے۔ کوئی واضح پوزیشن نہیں ہے۔ 2018 میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے والوں کے نام موجود تھے اور زیرِ بحث تھے،اس وقت ایسا کچھ نہیں۔اسٹیبلشمنٹ کا فوکس صرف عمران ہے، شاید اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘

کیا استحکا م پاکستان پارٹی محض پی ٹی آئی کے لیے چیلنج ہو گی؟

اگر دیکھا جائے تو جہانگیر ترین کی پارٹی کے حوالے سے ابتدائی تاثر یہ تھا کہ اس میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر الیکٹایبلز شامل ہوں گے، مگر تازہ ترین صورت حال کے مطابق جہاں اس میں کراچی کی نمائندگی شامل ہے وہاں پنجاب بھر سے نمائندگی بھی نظر آتی ہے۔

اگر جہانگیر ترین پارٹی میں محض جنوبی پنجاب سے زیادہ لوگوں کو جمع کر پاتے تو پھر لازمی طورپر یہ سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کا کرتے کیونکہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بھی موجود ہے اور چند بڑے خاندان بھی میسر ہیں۔

سابق وفاقی سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ’جہانگیر ترین کی پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کابھی نقصان کرے گی، کیونکہ جو الیکٹیبلز اس میں جنوبی پنجاب سے آئے ہیں، اُن پر پیپلز پارٹی کی بھی نظرتھی۔‘

استحکام پاکستان پارٹی کیا جنوبی پنجاب تک محدود ہو گی؟

استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عامر کیانی، جنھوں نے حال ہی میں تحریک انصاف سے راہیں جدا کی تھیں، کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اس پارٹی کو کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں کیا بلکہ یہ پورے پاکستان کی جماعت ہو گی۔ملک کے ہر علاقے کے اہم سیاسی رہنما،اس میں شامل ہیں، جو اپنے اپنے حلقوں میں سیاسی قد کاٹھ رکھتے ہیں۔‘

عامر کیانی کے مطابق ’ابتدا میں ایک تاثر تھا کہ ہمارے پاس جنوبی پنجاب سے زیادہ لوگ ہیں، مگر پنجاب کے ہر علاقہ سے اہم رہنما اب اس پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ پارٹی میں شامل تمام رہنما الیکٹیبلز ہیں۔ہم نے اس پارٹی کے لیے مل کر فیصلے کرنے اورسیاسی ہم آہنگی پیدا کرنی ہے۔‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے محمود مولوی باقی بھی اس نئی پارٹی کے قیام سے کافی خوش دکھائی دیے۔

وہ کہتے ہیں ’یہ ہم سب ہمخیال احباب نے مل کر پارٹی بنائی ہے اور اس کو چلانا بھی ہے۔مَیں سندھ میں پارٹی کے معاملات دیکھوں گا اور یہاں سے ہمارے ساتھ کافی اہم لوگ رابطے میں ہیں۔مَیں کراچی واپس جاکر دفتر بناؤں گا اور لوگ آنا شروع ہو جائیں گے۔ ہماری جمہوری پارٹی ہے،کسی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ کراچی میں ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے،لیکن ہم بڑی پارٹیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ٌ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments