عیدالاضحٰی پر مہنگائی اور ہماری شاہ خرچی
ایک طرف مہنگائی میں اضافہ اور غریب کا مزید غریب ہونا تو دوسری طرف عید الاضحیٰ کے لئے مہنگے مہنگے جانوروں کی خریداری جاری ہے۔ کوئی لاکھوں خرچ کرنے کے لئے تیار ہے اور کوئی مرغی کی قربانی کا فتویٰ مانگ رہا ہے۔ مذہبی تہوار کو باقی معاملات کی طرح دکھاوا بنا دیا گیا ہے۔ موجودہ ملکی معاشی صورتحال نے عوام کے لئے مشکلات میں بہت اضافہ کیا ہے۔ جہاں امیر اپنا معیار زندگی ابھی بھی بہتر کرنے میں لگا ہے وہاں غریب اپنی عزت اور بھرم کو بچانے میں مصروف ہے۔
چونیاں میں مویشی منڈی سجی تو وہاں اونٹ بھی لائے گئے۔ سات لاکھ کے اونٹ کو پسند کرنے کے بعد ایک شہری کا مہنگائی کا رونا روتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کی استطاعت پانچ لاکھ تک ہے اور وہ دو لاکھ کا ڈسکاونٹ لینے کا خواہش مند ہے۔ ایسے شہری کی مالی استطاعت اور مہنگائی کا رونا دیکھ کر اس غریب آدمی کو یاد کریں جو اب قربانی کے متعلق سوچنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا ہے۔
لاہور کی مویشی منڈی میں پپو نامی بیل کی دھوم ہے جس کی قیمت پندرہ لاکھ رکھی گئی ہے جبکہ غریب ملک کے متعدد شہری پانچ سے چھے لاکھ کی بولی لگا چکے ہیں۔
بہت سے لوگ کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ جانوروں کی قیمتوں میں کمی ہو تو خریداری کریں۔ جو سفید پوش افراد ماضی میں بڑے جانور میں حصہ ڈال کر قربانی کیا کرتے تھے، اب وہ اس کے قابل بھی نہیں رہے۔
عید قربان کے آتے ہی قربانی کے جانوروں کی چوری شروع ہو گئی ہے۔ ایک تازہ خبر کے مطابق کراچی میں ساڑھے تین لاکھ کا بیل چند سیکنڈ میں گھر کے باہر سے چوری ہو گیا، اس کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں چور کو بیل ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
ایک اخبار کے مطابق چند دن پہلے کراچی کے ایک تھانے میں درخواست جمع کرائی گئی تھی کہ دکان کے اندر آٹھ جانور بندھے ہوئے تھے اور باہر سے تالا لگا ہوا تھا۔ نامعلوم ملزمان تالا توڑ کر پانچ جانور چوری کر کے لے گئے جن کی قیمت تقریباً آٹھ لاکھ روپے بنتی تھی۔
کراچی کی مویشی منڈی کے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اس بار چارہ بھی بہت مہنگا ہو گیا ہے، ٹرالر کا کرایہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر دو لاکھ روپے کر دیا گیا ہے اس لئے جانور مہنگے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ ڈکیتیوں کی وجہ سے ابھی تک لوگ خوفزدہ ہیں اور خریداری کم ہو رہی ہے۔
خریدار مہنگائی کے بڑھنے پر شدید پریشان ہیں۔ پچھلے سال جس قیمت میں گائے خریدتے تھے اس سال اس قیمت میں بکرے مل رہے ہیں، قیمتوں میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے لیکن خریداروں کی کوشش یہی ہے کہ سودے بازی سے بات بن جائے تاکہ لمبا سفر بار بار نہ کرنا پڑے۔
جانوروں کی چوری کے حوالے سے پاکستانی سافٹ ویئر انجینئرز عمید اور حسان کے شاندار کارنامے کا بتاتا چلوں جس کے بارے میں انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر تفصیل سے آگاہ کیا۔ اب قربانی کے جانوروں کی رجسٹریشن ایک ایپ کے ذریعے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ممکن ہو گئی ہے۔ چوری شدہ جانوروں کو اس ایپ کے ذریعے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انسانوں کی طرح یہ گائے اور بیلوں کا بائیو میٹرک سسٹم ہے جو ان جانوروں کی ناک کے اندر موجود ایک خاص پیٹرن کو تصویر کھینچنے پر محفوظ کرتا ہے۔
یہ نظام ویسے ہی جانوروں کی مخصوص نشانیوں کو محفوظ کرتا ہے جیسے انسانوں میں انگلیوں کے نشانات کے ذریعے ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ اس ایپ میں جانور کی خاص پہچان کے ساتھ مالک کے کوائف بھی محفوظ کر لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نا صرف گمشدہ جانور کی شناخت آسان ہو گئی ہے بلکہ اصل مالک تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس سسٹم کا کامیاب تجربہ کراچی کی مویشی منڈیوں میں ہو چکا ہے اور بہترین نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
انسان اپنی انا کا غلام ہے، سب سے زیادہ محبت اپنی ذات، مرضی اور خواہشات سے کرتا ہے۔ عیدالاضحٰی کا اصل پیغام گلا کاٹنا نہیں، بلکہ انا کی قربانی ہے یعنی کہ محبوب ترین چیز کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنا، لیکن ہمارے ہاں غریبوں کے ارمان قربان ہو رہے ہیں اور امیر اپنی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ دکھاوے اور مہنگے سے مہنگا جانور خریدنے کی خواہش اور غرباء اور ہمسایوں کو نظرانداز کرتے ہوئے عید پر خود ہی دعوتیں اڑانے کے منصوبے اس معاشرے کا رستا ہوا ایسا زخم ہے جو آج تک بھر نہیں سکا۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے۔
خدا تک ان جانوروں کا نہ ہی گوشت جانے والا ہے اور نہ خون۔ اس کی بارگاہ میں صرف تمہارا تقوی جاتا ہے، اور اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارا تابع بنا دیا ہے کہ خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو۔
سورۃ الحج آیت 37
عیدالاضحٰی کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان تمام نفسانی خواہشات کو رب کے سامنے قربان کر دے اور اپنی ہر مرضی اور خوشی کو اللہ کی رضا کے تابع کرے۔ دین اسلام میں نفس کی پیروی اور غلامی کرنے والا گمراہ ہے جس کے لئے ہدایت کا راستہ بھی بند ہو جاتا ہے۔
مہنگائی اور معاشی مشکلات میں گھری ہوئی قوم کی شاہ خرچی دیکھتے ہوئے ہم سب کو غور و فکر کی ضرورت ہے۔
- مرفی کا قانون اور کڈلن کا حل - 04/01/2025
- دانی ماں کہاں گئیں؟ - 15/07/2024
- جذبہ انسانیت پر کچھ باتیں - 31/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).