نارمن کا مشہور پاکستانی ریستوران کبابش بائٹس
اس طرح کے چکن تکہ برگر میں نے ساہیوال میں کھائے تھے! وسیم احمد نے ہمارے سامنے چکن کے امریکن اسٹائل کے برگر رکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ ریسیپی ساہیوال سے لی تھی۔ وہ ہم سب کے لیے ایک بہت طویل دن تھا لیکن پھر بھی سب نے وقت نکالا۔ ہم نارمن اوکلاہوما میں واقع پاکستانی ریستوران کبابش بائٹس میں رات کے آٹھ بجے اس کے مالک وسیم احمد کا انٹرویو لینے کے لئے ملے۔ کبابش بائٹس پیر کے دن بند ہوتا ہے لیکن اس دن بھی وسیم احمد اپنے کام میں مصروف تھے۔
انہوں نے کہا کہ نارمن کی لائبریرین نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی لائبریری میں پاکستانی کھانا پکانے کی کلاس دیں۔ یہ ایک کامیاب کلاس رہی۔ وسیم احمد نے ہمیں بتایا۔ کل ملا کر کوئی تیس لوگ آئے تھے اور ان کے لیے میں نے لیمب کوفتے اور سلاد بنانے کے طریقے بیان کیے تھے۔ وہ بہت نفیس لوگ تھے اور انہوں نے میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ وسیم نے اپنی جیب میں سے پندرہ ڈالر نکالے اور کہا کہ ایک اسٹوڈنٹ نے اپنی شکرگزاری کا اظہار کرتے ہوئے مجھے یہ پیسے دیے۔ حالانکہ یہ زیادہ رقم نہیں ہے لیکن میں نے بہت خوشی محسوس کی۔ اس خوشی کی اہمیت میرے لیے کسی بھی قسم کے معاوضے سے کہیں زیادہ ہے۔
اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں۔ کہاں پیدا ہوئے، کہاں رہے اور نارمن، اوکلاہوما میں کیسے آئے؟
میں پاکستان کے علاقے ساہیوال میں اسی کی دہائی میں پیدا ہوا۔ ہم چھ بہن بھائی تھے۔ میں سب سے بڑا ہوں۔ میرے والد کی جاب عمان کے وزارت دفاع میں تھی اور میں اس وقت بہت چھوٹا سا تھا جب میرے والدین عمان کے علاقے صلالہ میں منتقل ہو گئے تھے۔ صلالہ ایک ہرا بھرا اور خوبصورت علاقہ ہے۔ وہاں میں نے کے جی سے لے کر بارہویں کلاس تک ایک ایمبیسی کے بنائے ہوئے پاکستانی انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ میں پڑھنے میں اچھا تھا اور مجھے اردو اور انگریزی شاعری میں بہت دلچسپی تھی۔ میری کچھ شاعری صلالہ کے مقامی اخبارات اور میگزینوں مثلاً ٹائمز آف عمان میں بھی چھپ چکی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کھو چکی ہیں لیکن کچھ اب بھی میری ڈائری میں محفوظ ہیں۔
آپ کے باقی بہن بھائی کہاں ہیں؟
ہماری ایک ہی بہن ہے جو آئرلینڈ میں رہتی ہے۔ میرے بھائی اسکاٹ لینڈ، پاکستان اور انگلینڈ میں بسے ہوئے ہیں۔ ایک بھائی میرے ساتھ ریستوران میں کام کرتا ہے۔ اس کی مدد کے بغیر میں یہ سب کچھ اکیلے نہیں کر سکتا تھا۔ نائن الیون کے بعد حالات خراب ہونے کی وجہ سے میرے بہن بھائیوں نے امریکہ کے بجائے دوسرے ملکوں میں سیٹل ہونے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان میں گزرے ہوئے وقت کے بارے میں بتائیں۔
ہم چھٹیوں میں پاکستان گھومنے جاتے تھے جہاں ہمارے دادا دادی اور نانا نانی رہتے تھے۔ وہاں ہم سارا دن اپنے کزنز کے ساتھ کھیلتے تھے اور مزے دار کھانے کھاتے تھے۔ باہر زیادہ جانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ہمارے والدین ڈرتے تھے کہ کہیں ہمیں کوئی تاوان کے لیے اغوا نہ کر لے۔ عمان میں میں میلوں بائسیکل چلاتا تھا لیکن پاکستان میں ہم زیادہ تر باہر نہیں جاتے تھے۔ وہاں اپنے خاندان سے باہر میں لوگوں کو نہیں سمجھتا تھا اور میرے وہاں زیادہ دوست نہیں تھے۔
امریکہ کیسے آئے؟
میں نے امریکہ میں آ کر پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں یونیورسٹی آف سینٹرل اوکلاہوما میں داخلہ لیا جہاں سے میں نے بزنس میں بیچلرز کی ڈگری لی۔ اپنی تعلیم کے دوران میں نے مختلف طرح کی معمولی نوکریاں کیں۔ کچھ دیسی ریستورانوں کے لیے کام کیا۔ ایک جاب کے دوران میں بری طرح جھلس گیا تھا۔ میرے ہاتھوں کی جلد کے نیچے سے گوشت دکھائی دیتا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کے نشان دکھاتے ہوئے کہا۔ اس حادثے کے بعد اس ریستوران کے مالکان نے میری کوئی مدد نہیں کی۔ ان کو میری کمزور پوزیشن کا اندازہ تھا۔ میں آج بھی ان دنوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور اپنے ملازمین کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری امی بھی ہمیشہ ان سے پوچھتی ہیں کہ تم لوگوں نے کھانا کھا لیا ہے؟ ہم ان کو مناسب چھٹیاں دیتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے خاندان والوں کی طرح کا ہی برتاؤ رکھتے ہیں۔
آپ نے اتنا مزیدار کھانا پکانا کیسے سیکھا؟
میں نے کھانا پکانا اپنی امی سے سیکھا۔ جب بھی میرے والدین کہیں چلے جاتے تھے تو میں خود ہی کھانا پکا کر کھا لیتا تھا۔ مجھے اچھے اور نت نئے کھانے پکانے کا شوق ہے۔ میں صرف دیسی ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی مختلف طرح کے پکوان بنا سکتا ہوں۔ میرے والد ایک عرب کمپنی میں اچھی جاب کرتے تھے۔ وہ روزانہ اخبار پڑھتے تھے۔ ان کو چلنے پھرنے کا ، ورزش کرنے کا اور سفر کا شوق تھا۔ میں ان کے ساتھ حج کرنے بھی گیا تھا۔ میرے والد کی چون سال کی عمر میں کینسر سے وفات ہو گئی تھی۔ اس کے بعد میں بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے اپنی ماں سے اور بھی قریب ہو گیا۔ میں نے ان کی ذمہ داری محسوس کی۔ میں نے اپنے والدین سے ہی کھانا پکانا، اچھی زندگی گزارنا اور دوسرے انسانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا سیکھا ہے۔
آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی امریکن کمپنی کے لیے کام کرنے کے بجائے اپنا پاکستانی ریستوران کھولنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
جب میں اسکول میں پڑھ رہا تھا تو ہمارے لیے صاف ستھرا اپنے گھر کی طرح کا کھانا ملنا ایک بہت مشکل کام تھا۔ میں دوسروں کے لیے کام کرنے کے بجائے خود اپنا باس بننا چاہتا تھا اور اپنے گرد ایسا ماحول رکھنا چاہتا تھا جو مجھے پسند ہو۔ اس لیے میں ایک ایسا ریستوران بنانا چاہتا تھا جہاں لوگ اطمینان سے بیٹھ کر ایک اچھے ماحول میں اپنے گھر کی طرح کے مزیدار کھانوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ میں بہت کٹر نہیں لیکن مسلمان ہوں اور مجھے ایسے ریستورانوں میں کام کرنا پسند نہیں تھا جہاں سور پک رہا ہو یا شراب بک رہی ہو۔ حالانکہ جو لوگ یہ سب کھانا پینا چاہیں مجھے ان پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہر کسی کا اپنا مذہب اور کلچر ہے۔ ہم امریکہ میں رہتے ہیں اور یہ ایک آزاد ملک ہے۔ جس کو اپنے لیے جیسا پسند ہو وہ ویسا ہی کرے۔ پہلے میں بظاہر بہت دینی دکھائی دینے والے افراد کو بہت اچھا سمجھتا تھا لیکن زندگی کے تجربے سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اچھے برے لوگ ہر طرح کے ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں میرے ہسپانوی بھی دوست ہیں، گورے بھی اور کالے بھی۔ کالج کے دنوں میں میرا ایک لکھنؤ کا ہندو دوست تھا جو سردیوں میں نمونیا کے ساتھ شدید بیمار پڑ گیا تھا۔ میں اس کو اٹھا کر اپنے اپارٹمنٹ میں لایا، اس کی تیمارداری کی اور اپنے ہاتھ سے اس کو کھانا کھلایا۔ ہم آج بھی دوست ہیں اور کبھی کبھار بات چیت کرتے ہیں۔
اپنے ریستوران کے بارے میں بتائیں۔
یہ ریستوران میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر کورونا کی وبا سے بمشکل چار پانچ ماہ پہلے خریدا تھا۔ پھر ایک دم وبا کے دنوں میں بزنس کے حالات خراب ہو گئے لیکن ہم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وبا کے زمانے میں لابی بند ہو گئی تھی۔ لوگ ڈر کے مارے ریستوران میں کھانا کھانے نہیں آتے تھے۔ سارا مینو اور سب کچھ ہمیں دوبارہ سے ڈیزائن کرنا پڑا۔ دو سال ہم نے سخت حالات کا مقابلہ کیا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مستقل کام کیا۔ جب مجھے اس بلڈنگ کے مالک نے کہا کہ وہ یہ پراپرٹی فروخت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس جگہ خالی کرنے کے لیے صرف 45 دن ہیں تو میں نے بہت تگ و دو کے بعد نارمن کے مغربی جانب یہ نیا ریستوران خریدا۔ یہ ایک اطالوی ریستوران ہوتا تھا اور وہ لوگ روڈ کے دوسری جانب منتقل ہو رہے تھے۔ اس ریستوران کی ہر دیوار، ہر آرائش اور سامان میں نے اپنے ہاتھوں سے خریدا ہے۔ یہ ایک کانٹا آٹھ ڈالر کا ہے، یہ ایک پلیٹ انتالیس ڈالر کی ہے۔ یہاں ہر چیز عمدہ ہے۔ یہ ایک بہت زیادہ مشکل کام تھا لیکن میں دیسی فوڈ کی فائن ڈائننگ چاہتا تھا۔ میں نے ایک اچھی زندگی گزاری ہے اور میں ایسی ہی اچھی زندگی اپنے کسٹمرز میں بھی بانٹنا چاہتا ہوں۔
(جب وسیم احمد نے ایک لہر کی طرح کی پرچ اور کپ مجھے دکھائے اور کہا کہ یہ امریکہ میں پچاس ڈالر کا سیٹ ہے اور میں پاکستان سے دس ڈالر میں خاص طور پر پیک کروا کر لایا تھا تو میں تھوڑا پیچھے ہو گئی کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھ سے ٹوٹ جائیں۔ )
آپ اپنی دیسی کمیونٹی کو کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
اگر آپ برا نہ منائیں تو میری اپنی دیسی کمیونٹی سے کچھ شکایات ہیں۔ ہم ایک خاندان کی طرح ہیں۔ ہمارا انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشی سانجھا کلچر ہے، ہمارے ایک جیسے پسندیدہ ذائقے ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہماری کمیونٹی دوسروں کی ترقی سے خوش نہیں ہوتی۔ جب کوئی ترقی کرتا ہے یا اپنی زندگی میں خوش ہوتا ہے تو ہمارے برادران میری خوشی میں خوشی محسوس کرنے کے بجائے حسد محسوس کرتے ہیں۔ وہ ان افراد کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اگر ہماری کمیونٹی میں کوئی کامیاب رہے گا تو آپ کی بھی زندگی بہتر ہوگی۔ اپنا دل تنگ نہ رکھیں۔ دوسرے کے لیے خوشی محسوس کریں اور اس بات پر خوش ہوں کہ اپنے ملک سے اتنی دور ایک اچھے سے ریستوران میں آپ کو اپنے گھر کی طرح کا پکا ہوا کھانا مل رہا ہے۔ میں ہر کسٹمر کے لیے خود خاص پکاتا ہوں۔ یہاں صبح میں ایک ہی دیگ نہیں بنائی جاتی ہے۔
ہر انسان کی عزت کریں۔ اگر کوئی آپ کے لیے کھانا پکا کر سامنے رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نیچا ہے۔
میرے انگریز گاہک میرے کھانے کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ مجھے شکریہ کہتے ہیں۔ میرے ویٹروں کے لیے اچھی ٹپ چھوڑ کر جاتے ہیں۔ دیسی گاہک آٹھ یا دس لوگوں کا گروپ آ کر صرف دو یا تین کھانے آرڈر کرتا ہے اور سب اس کو بانٹ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ اپنے پیسے بچا رہے ہوں گے لیکن جو بھی پلیٹیں آپ نے میلی کیں اور جتنے گلاس پانی کے میرے ویٹروں کو لانے پڑے اس سے ہمارے اوپر کتنا کام لاد دیا گیا اس کا آپ کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ مجھے ان ویٹروں کو تنخواہ دینی ہوتی ہے۔ آٹھ لوگ کھانا کھا کر جائیں اور چند سکے ویٹر کے لیے چھوڑ جائیں تو یہ مناسب نہیں لگتا۔ امریکہ میں کم از ٹپ دس فیصد ہوتی ہے۔ مجھے یہ شکایت ہے کہ یہی لوگ جب کسی امریکی یا اطالوی ریستوران میں جاتے ہیں تو وہاں ان کا رویہ بالکل مہذب ہوتا ہے۔ میں تو آپ کے گھر جیسا کھانا بنا رہا ہوں، آپ کا بھائی جیسا ہوں میرے ساتھ بھی آپ ایسا ہی رویہ رکھیں جیسا ان ولایتی لوگوں کے ساتھ رکھتے ہیں۔
میرے ریستوران میں آ کر مجھے کھانا پکانے اور مینو تبدیل کرنے کے مفت مشورے مت دیں کیونکہ آپ ایسا دیگر ریستورانوں میں نہیں کرتے۔ میرے کھانے کی قیمت زیادہ ہے وہ مجھے معلوم ہے۔ میں نے ایک اچھے اور مہنگے علاقے میں یہ عمدہ ریستوران کھولا ہے اور اس کے اخراجات کی ناپ تول کے ساتھ ہی یہ قیمتیں مقرر کی گئی ہیں۔ اگر آپ کو سستا کھانا چاہیے تو کافی شاپ کی طرح پلاسٹک میں دیسی کھانا دینے والے ریستوران بھی موجود ہیں، آپ وہاں جا سکتے ہیں۔ میں اپنے ریستوران کا معیار کم نہیں کرنا چاہتا ہوں۔
جب آپ دس پندرہ دیسی آدمی میرے ریستوران میں کھانا کھانے آئیں تو ان ویٹرسوں کو اس طرح گھورنے سے باز رہیں جیسے آپ کے گھروں میں بیویاں نہیں ہیں۔ ان سے فضول سوالات سے گریز کریں کہ وہ گوری ہو کر یا کالی ہو کر دیسی ریستوران میں کیوں کام کر رہی ہیں۔ ہم امریکہ میں رہتے ہیں اور یہاں سب شہری برابر ہیں۔
جب کوئی دیسی پارٹی میرے ریستوران میں کھانا کھا کر جائے تو میں ڈرتا رہتا ہوں کہ یہ جاکر مجھے برے ریویو دیں گے۔ اور دیتے بھی ہیں۔ انٹرنیٹ پر باقی امریکی میرے کھانے کی تعریفیں کرتے ہیں، مجھے پانچ چھ اسٹار دیتے ہیں اور یہ میرے دیسی بھائی بہن ہی ہیں جو میری شکایتیں لکھتے ہیں۔ بلکہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی منفی تبصرے کرواتے ہیں جنہوں نے یہاں کبھی قدم بھی نہیں رکھا۔ اب تو میرا اسٹاف بھی کافی سمجھ گیا ہے۔ یہ گورے بچے سمجھ گئے ہیں کہ دیسی پارٹی سے ہمیں کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے لوگ اپنے لیے عزت کمائیں۔
آپ بچپن میں بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے تھے اور آپ کے پسندیدہ مشاغل کیا ہیں؟
مجھے بچپن سے دنیا کے سفر کا بہت شوق تھا۔ مجھے شاعری کرنے کا ، پینٹنگ کرنے کا اور بڑے ہو کر جہاز اڑانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسی لیے میں نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے امریکہ کی قریب تیس ریاستوں میں سفر کیا ہے۔ دنیا ایک دلچسپ جگہ ہے اور ہر مختلف جگہ سے ہم نئی باتیں سیکھتے ہیں۔
وسیم، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں یہ انٹرویو دینے کے لیے وقت دیا۔ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہیں گے؟
اوکلاہوما کے مشہور شیف میرے ریستوران میں کھانا چکھنے آچکے ہیں اور انہوں نے مجھے عمدہ ریویو دیے ہیں۔ میری اور میرے ریستوران کی کووڈ کو سروائیو کرنے کی کہانی اوکلاہوما کے سب سے بڑے نیوز پیپر دی اوکلاہومن اور یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں بھی چھپ چکی ہے۔ آپ کا بھی بہت شکریہ۔ میں ہم سب پڑھنے والے قارئین سے گزارش کروں گا کہ آپ ٹیکساس سے ہوتے ہوئے کینساس جا رہے ہوں تو نارمن کی مین اسٹریٹ کا ایگزٹ لے کر میرے ریستوران میں کھانے کے لیے آ کر مجھے عزت بخشیں۔
شکریہ
وسیم احمد
- زندگی ڈرامہ سیٹ - 14/09/2024
- نوشتہ دیوار – راہ درست نہ ہو تو پرامید کیسے رہیں؟ - 18/01/2024
- سردیوں میں ہمارا وزن کیوں بڑھ جاتا ہے؟ - 08/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).